Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Nojawano Ki Zehni Sehat

Nojawano Ki Zehni Sehat

نوجوانوں کی ذہنی صحت

پاکستان میں ذہنی صحت کے موضوع پر سنجیدہ مکالمہ اس رفتار سے آگے نہیں بڑھ سکا جس رفتار سے سماجی، معاشی اور تکنیکی تبدیلیاں نئی نسل کی زندگی میں داخل ہو رہی ہیں۔ دقیانوسی تصورات، لاعلمی اور ریاستی ترجیحات میں اس شعبے کی کمزور نمائندگی نے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان مینٹل ہیلتھ کولیشن کا کراچی میں منعقدہ چوتھا سالانہ عمومی اجلاس نہ صرف بروقت تھا بلکہ اس بحران کی لہر کو سمجھنے اور اس کے حل کی نئی جہتیں تلاش کرنے کے لیے ایک اہم پیش رفت بھی ثابت ہوا۔

یہ اجلاس ایک نجی ہوٹل میں منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے ماہرینِ نفسیات، محققین، نوجوان فسیلیٹیٹرز، ٹرانسجینڈر ویلفیئر گروپس، پرائمری ہیلتھ کیئر نمائندگان اور ذہنی امراض سے صحت یاب ہونے والے افراد نے بھرپور شرکت کی۔ 20 سے زائد اداروں کے مندوبین، جبکہ کولیشن کے کو سیکریٹریٹ اداروں برٹش ایشیئن ٹرسٹ اور تسکین ہیلتھ انیشیئیٹو کے سینئر نمائندگان بھی اس مکالمے کا حصہ بنے۔

اس اجتماع کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ذہنی صحت کا مسئلہ اب انفرادی نہیں رہا بلکہ ایک مشترکہ سماجی ذمہ داری کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ذہنی صحت کے مباحث کو عمومی سطح پر ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، مگر اس اجلاس نے ثابت کیا کہ اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں رہی، کیونکہ یہ ایک ایسا بحران ہے جس سے براہِ راست ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔ اس اجلاس کا موضوعِ بحث نوجوانوں کی ذہنی صحت قرار دیا گیا، جس کی وجہ سادہ مگر نہایت سنگین ہے۔ پاکستان کی تقریباً 65 فیصد آبادی وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں 35 سال سے کم ہیں۔ یہی نوجوان معاشی دباؤ، عدمِ تحفظ، بے روزگاری، خاندانی تنازعات، تیزی سے بدلتی سماجی اقدار، تعلیمی دباؤ، سوشل میڈیا کے نفسیاتی اثرات اور تشویشناک معاشرتی پولرائزیشن کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔

مینٹل ہیلتھ پاکستان کی سینئر پروگرام مینیجر ڈاکٹر طلیحہ چغتائی نے ایک نہایت اہم نکتہ اٹھایا کہ ہم نوجوانوں کی ذہنی جنگ کو تب تک نہیں سمجھ سکتے جب تک ہم ان کے اپنے تجربات، ڈر، محرکات اور ترجیحات کو براہِ راست نہ سنیں۔ ان کے مطابق نوجوانوں کی آواز کو مرکزی حیثیت دینا محض ایک تکنیکی ضرورت نہیں بلکہ ذہنی صحت کی پالیسیوں کی بنیاد ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جس نے اس سال کے اجلاس کو دیگر تمام کانفرنسوں سے منفرد بنا دیا پہلی بار نوجوان خود اپنی کہانیوں، چیلنجز اور خدشات کے بیانیے کے ساتھ اس مکالمے کے مرکز بنے اور انہی کہانیوں نے تحقیقاتی اداروں کو ایک نیا زاویہ فراہم کیا۔

پاکستان میں ذہنی بیماری آج بھی تعصب، نفرت اور شرمندگی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ گھر والے اسے وہم کہہ کر ٹال دیتے ہیں، دوست اسے ڈپریشن کا بہانہ سمجھتے ہیں، مدارس و اسکولوں میں اسے کمزوری سمجھا جاتا ہے اور اکثر ڈاکٹر اسے جسمانی بیماریوں کی فہرست میں گم کر دیتے ہیں۔ اس رویّے کے نتیجے میں نوجوان نہ تو اپنے مسئلے کو پہچان پاتے ہیں، نہ بیان کر پاتے ہیں اور نہ ہی بروقت مدد حاصل کر پاتے ہیں۔ یوں ان کا اضطراب، اداسی، خوف اور ذہنی انتشار خاموشی سے بڑھتے بڑھتے تباہ کن حد تک جا پہنچتا ہے۔ ایسے حالات میں ذہنی بیماریاں علاج کے بغیر نسل در نسل منتقل ہونے والے بحران میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

پاکستان میں ذہنی صحت کے شعبے کو ریاستی پالیسیوں کے مرکزی دھارے میں شامل کیے بغیر کوئی حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔ آج تک پرائمری ہیلتھ کیئر میں ذہنی صحت کی اسکریننگ موجود نہیں، اسکولوں میں کونسلنگ کا نظام نہیں، والدین اور اساتذہ کی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے اور ہسپتالوں میں ماہرین نفسیات کی تعداد آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہے۔ ذہنی صحت کو پبلک ہیلتھ ایمرجنسی نہ سمجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر گزرتے سال صورتحال مزید بگڑتی جا رہی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو آنے والے برسوں میں یہ بحران صحت کے شعبے کے لیے نہیں بلکہ ریاست کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن جائے گا۔

اس سالانہ اجلاس کو بجا طور پر ایک نیشنل کنورجنس پوائنٹ کہا جا سکتا ہے۔ گفتگو صرف مسئلے کی تشخیص تک محدود نہیں رہی بلکہ اداروں کے درمیان اشتراکِ عمل، کمیونٹی لیول پر آگاہی، اساتذہ اور والدین کی تربیتی پروگرامنگ، اسکولوں میں ایموشنل لٹریسی اور پرائمری ہیلتھ سسٹم میں ذہنی صحت کی شمولیت جیسے عملی اقدامات پر اتفاق رائے سامنے آیا۔ یہ پیش رفت اس لیے بھی اہم ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر سماجی مسائل اداروں کے باہمی رابطوں کے فقدان سے پیدا ہوتے ہیں اور یہ اجلاس اسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش تھا۔

ایونٹ میں نوجوان فسیلیٹیٹرز کی گفتگو نے ماحول کو جذباتی اور بیک وقت چشم کشا بنا دیا۔ کسی نے گھر کے دباؤ کی کہانی سنائی، کسی نے تعلیمی نظام کو ذہنی بوجھ قرار دیا، کسی نے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے شدید نفسیاتی مسائل کو اجاگر کیا، جبکہ کئی نوجوان صحت یاب ہونے کے بعد اپنی جدوجہد کا تجربہ بانٹتے رہے۔ انہی کہانیوں نے ثابت کیا کہ ذہنی صحت صرف ڈاکٹر اور مریض کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے سماج کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

اجلاس کے مباحثے نے کم از کم تین بڑے نکات واضح کر دیے۔ ایک یہ کہ ذہنی صحت کا بحران آنے والا مسئلہ نہیں بلکہ موجودہ حقیقت ہے اور یہ سب سے زیادہ نوجوانوں کو متاثر کر رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ موجودہ نظام ناکافی ہے، جب تک ذہنی صحت کو بنیادی صحت، تعلیم، سماجی بہبود اور میڈیا پالیسیوں کا حصہ نہیں بنایا جاتا، تبدیلی محدود رہے گی۔ تیسرا یہ کہ نوجوانوں کو گفتگو کا حصہ بنانا ہی مسئلے کا اصل نقطۂ آغاز ہے، کیونکہ اسی نسل کی اَن کہی باتیں اور ذہنی تجربات پالیسی سازی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

پاکستان مینٹل ہیلتھ کولیشن کا یہ اجلاس نہ صرف ایک تقریب تھا بلکہ آنے والے وقتوں کا اشارہ بھی۔ یہ پیغام بھی کہ ذہنی صحت کا مسئلہ اب چھپایا نہیں جا سکتا اور یہ احساس بھی کہ اگر نوجوان ذہنی طور پر شکست کھانا شروع ہو گئے تو قومی ترقی کا سفر رُک جائے گا۔ اس اجلاس نے یہ نکتہ واضح کر دیا کہ ذہنی صحت محض ایک انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ قومی استحکام کا بنیادی ستون ہے۔

یہ لمحہ فیصلہ کن ہے یا تو ہم ذہنی صحت کو قومی ایجنڈا بنائیں، یا پھر آنے والے برسوں میں بحران کی شدت ہماری اجتماعی خاموشی کو بے نقاب کر دے گی۔ یہی وہ موڑ ہے جہاں قومیں اپنی ترجیحات ازسرِنو ترتیب دیتی ہیں اور پاکستان کے لیے بھی یہی راستہ واحد امید ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan