نوبیل انعام یافتہ سائنس دانوں کی تشویش

انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) سے متعلق حالیہ پیش رفت نے ملک کی سائنسی برادری، جامعہ کراچی کے اساتذہ اور بین الاقوامی سطح پر نامور محققین کے مابین ایک گہری تشویش کو جنم دیا ہے۔ معاملہ بظاہر ایک انتظامی ترمیم یا ادارہ جاتی تنظیمِ نو کا لگتا ہے، مگر اس کے اثرات کسی ایک مرکز یا جامعے تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کی سائنسی تحقیق کے وسیع تر مستقبل اور عالمی ساکھ سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ممتاز سائنس دانوں، خصوصاً نوبیل انعام یافتہ پروفیسر ژاں ماری لین نے اس معاملے پر اپنی گہری فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کو تفصیلی خط بھیجا ہے۔ ان کا خط نہ صرف ایک ادبی اور سائنسی گواہی ہے، بلکہ ایک ایسی آواز بھی ہے جو پاکستان کی سائنسی میراث کے تحفظ اور اس کے اداروں کی خودمختاری کے حق میں اٹھ رہی ہے۔
پروفیسر ژاں ماری لین، جو یونیورسٹی آف اسٹراسبرگ کے انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈی میں کیمسٹری آف کمپلیکس سسٹمز کے چیئر پر فائز ہیں، پاکستان کے چند ممتاز تحقیقی مراکز میں سے ایک آئی سی سی بی ایس کے کئی بار مشاہدہ کار رہ چکے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ادارہ محض ایک تحقیق گاہ نہیں بلکہ ایک ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جہاں عالمی معیار کا سائنسی کام عملی صورت میں جنم لیتا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں واضح انداز میں تحریر کیا کہ یہ امتیاز اس ادارے کو محض اس کی ساخت یا بجٹ کی وجہ سے حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط وہ رہنمائی، علمی وژن اور انتظامی شفافیت ہے جو پروفیسر عطاالرحمان جیسے عالمی سطح پر معروف سائنس دان کی سرپرستی میں پروان چڑھی۔ نوبیل انعام یافتہ لین کے مطابق اس ادارے کو جامعہ کراچی سے علیحدہ کرنا نہ صرف غیرضروری بلکہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ اس کی طاقت کا بنیادی مرکز اس کی جامعہ کراچی کے ساتھ گہری وابستگی ہے۔
دوسری جانب مجوزہ بل کے تحت ایک آزاد خودمختار ڈھانچے کا تصور پیش کیا گیا ہے جس میں ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تقرری تین رکنی سرچ کمیٹی کرے گی جس کے دو اراکین ڈونرز اور ایک وزیراعلیٰ سندھ ہوں گے۔ عالمی تحقیق کے اصولوں میں شفافیت، میرٹ اور ادارہ جاتی خودمختاری ضرور اہم ہے، مگر کسی ایسے تحقیقی ادارے میں جہاں دہائیوں کی محنت، ہزاروں طلبہ کی تربیت اور بین الاقوامی سطح پر قائم شدہ علمی اعتماد داؤ پر لگا ہو، وہاں صرف ایک فیصد عطیہ دینے والے نجی ڈونرز کو فیصلہ ساز حیثیت دینا نہ صرف غیرمتوازن بلکہ انتظامی طور پر بھی غیر مناسب دکھائی دیتا ہے۔ پروفیسر لین کے مطابق اگر یہ ڈھانچہ منظور ہوا تو اس بات کا خدشہ ہے کہ ادارہ تحقیق کے بجائے اپنی توجہ انتظامی پیچیدگیوں، مفاداتی کشمکش اور طاقت کے غیرضروری مراکز کے درمیان الجھائے رکھے گا۔
یہی وہ نکات ہیں جن کی گونج جامعہ کراچی کی انجمنِ اساتذہ کے ہنگامی اجلاس میں بھی سنائی دی۔ اجلاس میں اس بات پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا کہ جس ادارے کی زمین، فیکلٹی، انفراسٹرکچر اور تعلیمی میراث مکمل طور پر جامعہ کراچی کی ملکیت ہے، اسے جامعہ سے الگ کرنے کے لیے کسی قسم کی مشاورت، علامتی نوٹس یا علمی بحث تک نہیں کی گئی۔ اساتذہ نے اسے ایک حیران کن، بے اصول اور اخلاقی طور پر کمزور قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا اقدام دنیا بھر کی اعلیٰ جامعات میں رائج علمی اصولوں کے منافی ہے۔ ممتاز اساتذہ کے مطابق محض ایک یا دو ڈونرز کو قانونی طور پر پالیسی سازی کا اختیار دینا اس ادارے کی تاریخی شناخت اور غیرجانب دارانہ علمی روایت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اساتذہ کی انجمن نے واضح کیا کہ جامعہ کراچی نے ہمیشہ آئی سی سی بی ایس کو ادارہ جاتی آزادی، وسائل اور تعلیمی تعاون فراہم کیا جس کے نتیجے میں آج یہ مرکز دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن اس کا ہر قدم جامعہ کے وسیع تر تعلیمی ڈھانچے سے جڑا ہوا ہے۔ اس مرکز کو جامعہ سے باہر نکالنا ایسا ہے جیسے کسی درخت کی جڑوں کو زمین سے کاٹ کر اسے کسی نئی جگہ منتقل کرنے کی کوشش کی جائے بظاہر یہ تجربہ کبھی کبھار دلچسپ دکھائی دیتا ہے، مگر اکثر اوقات درخت اپنی اصل تازگی، ثمرات اور شاخوں کی وسعت کھو دیتا ہے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ پروفیسر عطاالرحمان جیسے عالمی سطح پر تسلیم شدہ سائنس دان نے اس ادارے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کی سرپرستی اور نگرانی نے نہ صرف تحقیق کا معیار بلند کیا بلکہ پاکستان کو سائنسی دنیا میں ایک معزز شناخت فراہم کی۔ ان کے علم، نظم، بین الاقوامی رابطوں اور علمی وژن کے بغیر اس ادارے کی سمت وہ نہیں رہ سکتی جو آج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر لین نے نہایت احترام کے ساتھ اس بات پر زور دیا کہ موجودہ سرپرستی کے تسلسل کو برقرار رکھنا ادارے کی آئندہ نسلوں کے لیے ناگزیر ہے۔
تحقیق، علم اور سائنسی ترقی اُن نازک اور باریک دھاگوں کی مانند ہوتی ہے جنہیں مضبوط بھی بڑی محنت سے کیا جاتا ہے اور کمزور بھی محض ایک غیر سوچے سمجھے فیصلے سے ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں جامعات اپنی تحقیقی اکائیوں پر فخر کرتی ہیں اور انہیں اپنی علمی شناخت کا حصہ سمجھتی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے ایک ممتاز تحقیقی مرکز کو اس کی مادرِ علمی سے جدا کرنا بین الاقوامی برادری کے لیے ایک غلط پیغام بھی ہو سکتا ہے ایک ایسا پیغام کہ ہم اپنی علمی میراث کو تقویت دینے کے بجائے اسے تقسیم کر رہے ہیں۔
وسیمِ دانشوروں، سائنس دانوں اور ماہرینِ تعلیم کی متفقہ رائے یہ ہے کہ اس فیصلے پر نظرثانی نہایت ضروری ہے۔ انجمن اساتذہ نے اسی مقصد کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقاتوں، پریس کانفرنس اور مختلف اسٹیک ہولڈرز سے رابطے بڑھانے کا اعلان کیا ہے، تاکہ معاملے کی سنگینی حکومت تک واضح انداز میں پہنچ سکے۔ وہ یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ ادارے کا مستقبل کسی ایسے تجربے کی نذر نہ ہو جائے جس کے اثرات دور رس اور نا قابلِ تلافی ہوں۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس معاملے کو محض انتظامی تبدیلی نہ سمجھے بلکہ اسے پاکستان کے سائنسی ورثے، تعلیمی وقار اور عالمی ساکھ سے جڑا ہوا مسئلہ سمجھے۔ جہاں نوبیل انعام یافتہ سائنس دان تک اپنی تشویش ظاہر کر رہے ہوں، وہاں احتیاط، مشاورت اور شفاف فیصلے وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن جاتے ہیں۔
آئی سی سی بی ایس صرف ایک ادارہ نہیں پاکستان کی سائنسی اُمنگ، تحقیق کی روایت اور علمی وقار کی علامت ہے۔ اسے اپنی جڑوں سے الگ کرنا شاید کوئی سادہ سا انتظامی اقدام نظر آئے، مگر حقیقت میں یہ ایک ایسا قدم ہے جو آنے والی نسلوں کی علمی روشنی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ حکومت، جامعات، محققین اور تمام ذمہ داران کے لیے یہی لمحہ فیصلہ کن ہے کہ وہ اس مرکز کی شناخت، وقار اور ادارہ جاتی استحکام کو کس طرح محفوظ رکھتے ہیں۔

