Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. New York Ka Naya Siasi Mor

New York Ka Naya Siasi Mor

نیویارک کا نیا سیاسی موڑ

نیو یارک کی سیاست میں حالیہ بلدیاتی انتخابات نے وہ منظر نامہ پیش کیا ہے جو نہ صرف شہر بلکہ امریکہ بھر کی سیاسی و سماجی فضا میں نئی لہر پیدا کر گیا ہے۔ مسلم و امیگرینٹ شناخت رکھنے والے ظہران ممدانی کی کامیابی محض ایک فرد کی جیت نہیں، بلکہ ایک نظریے، ایک سماجی سمت اور ایک نئے سیاسی عہد کا آغاز ہے۔ اس کامیابی نے امریکی شہری سیاست کے توازن میں وہ ارتعاش پیدا کیا ہے جس کی گونج اب بین الاقوامی سطح پر بھی سنائی دے رہی ہے۔

یہ انتخاب ایسے وقت میں منعقد ہوا جب نیویارک جیسے عالمی شہر کو مہنگائی، رہائشی بحران، عوامی ٹرانسپورٹ کی کمزور حالت اور بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج نے گھیر رکھا تھا۔ عام ووٹر کا اعتماد روایتی سیاسی نعروں سے اٹھ چکا تھا۔ ایسے میں ممدانی کی مہم نے "عوام کے لیے شہر" کا بیانیہ پیش کیا ایک ایسا پیغام جس میں روزمرّہ زندگی کے حقیقی مسائل کی جھلک تھی۔ مفت بچوں کی نگہداشت، پبلک بس سروس کی بہتری، کرایوں کے منجمد رکھنے جیسے عملی وعدوں نے عوام کو یہ احساس دلایا کہ کوئی ان کے مسائل کو اپنی ترجیح بنا رہا ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا جو بیلٹ باکس تک پہنچا اور نتیجہ ممدانی کی تاریخی فتح کی صورت میں نکلا۔

یہ کامیابی امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر جاری نظریاتی تقسیم ترقی پسند، اعتدال پسند اور قدامت پسند دھڑوں کے تناظر میں ایک علامتی جیت سمجھی جا رہی ہے۔ ممدانی کے ترقی پسند نظریات نے پارٹی کے اس حصے کو نئی توانائی بخشی ہے جو طویل عرصے سے معاشی انصاف، مساوی مواقع اور عوامی بہبود کے پروگراموں کے حق میں آواز اٹھا رہا تھا۔ تاہم، یہی نظریاتی موڑ سرمایہ دارانہ مفادات، رئیل اسٹیٹ لابی اور مالیاتی اداروں کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔ اس توازن کو قائم رکھنا ممدانی کے سیاسی تدبر کا پہلا بڑا امتحان ہوگا۔

دوسری طرف، اس انتخاب میں مذہبی اور نسلی پہلو بھی غیر معمولی طور پر نمایاں رہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامی حلقوں کی جانب سے ممدانی پر کی جانے والی تنقید اور امیگرینٹ شناخت پر طنزیہ حملوں نے انتخابی ماحول کو کشیدہ بنا دیا۔ انتخابی مہم کا رخ پالیسی سے زیادہ جذباتی اور نسلی بنادیا گیا، جس کے نتیجے میں یہ مقابلہ محض ایک شہری انتخاب نہیں رہا بلکہ ایک سماجی مکالمہ بن گیا کہ کیا امریکہ آج بھی تنوع اور برداشت کے اپنے نظریے پر قائم ہے یا نہیں۔

سکیورٹی خدشات اور انتظامی رکاوٹوں نے بھی اس انتخاب کو منفرد بنایا۔ نیو جرسی اور نیویارک کے بعض علاقوں میں بم کی دھمکیوں اور انتخابی عمل میں رکاوٹوں نے یہ سوال اٹھایا کہ جدید جمہوریتوں میں انتخابات کو محفوظ، شفاف اور غیر متنازع رکھنے کے لیے کون سے عملی اقدامات ضروری ہیں۔ خوش آئند پہلو یہ رہا کہ عوامی اعتماد برقرار رہا اور ووٹرز نے خوف کے بجائے شرکت کو ترجیح دی یہی جمہوریت کا اصل حسن ہے۔

ظہران ممدانی کی ذاتی کہانی اس پوری سیاسی جدوجہد کو مزید دلکش بناتی ہے۔ ان کے والد، معروف دانشور محمود ممدانی، افریقہ و امریکہ میں فکری مکالمے کے استعارے سمجھے جاتے ہیں، جبکہ والدہ میرہ نائر عالمی شہرت یافتہ فلم ساز ہیں۔ اس فکری و ثقافتی وراثت نے ممدانی کے سیاسی نظریے کو ایک عالمی تناظر عطا کیا، جہاں سیاست محض اقتدار کا کھیل نہیں بلکہ سماجی اصلاح کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہی پہلو نیویارک کے کثیرالثقافتی معاشرے میں ان کی مقبولیت کا سبب بنا۔

تاہم، کامیابی کے بعد اصل مرحلہ اب شروع ہوا ہے وعدوں کو عملی جامہ پہنانا۔ نیویارک جیسے مالیاتی مرکز میں ترقی پسند ایجنڈے کو نافذ کرنا آسان نہیں۔ شہر کا بجٹ، وفاقی فنڈنگ اور نجی سرمایہ کاروں کی طاقت ایسی حقیقتیں ہیں جو کسی بھی اصلاحی منصوبے کو محدود کر سکتی ہیں۔ ممدانی کو نہ صرف پالیسی فریم ورک میں مہارت دکھانی ہوگی بلکہ مختلف اداروں، سماجی تنظیموں اور عوامی نمائندوں کے ساتھ مضبوط اتحاد بھی قائم کرنا ہوگا۔

ان کی کامیابی عالمی سطح پر ایک علامتی پیغام بھی رکھتی ہے: تنوع، محنت اور اصولی سیاست ابھی زندہ ہیں۔ امیگرینٹ پس منظر رکھنے والے افراد اعلیٰ ترین سیاسی مناصب تک پہنچ سکتے ہیں، اگر وہ عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ ممدانی کی جیت اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ نفرت اور تعصب کے مقابلے میں مساوات، فلاح اور انصاف کا بیانیہ زیادہ دیرپا ہوتا ہے۔

یہ انتخاب اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس نے امریکی شہری سیاست کے ارتقاء کی سمت واضح کر دی ہے۔ اب شہری ووٹر محض جماعتی شناخت یا روایتی وابستگی کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتے، وہ اپنی جیب، اپنے کرائے، اپنی بس سروس اور اپنے بچوں کی تعلیم کے مسائل کی روشنی میں ووٹ دیتے ہیں۔ یہی وہ رجحان ہے جو دنیا کے دیگر بڑے شہروں لندن، پیرس، برلن اور کراچی تک میں بھی ابھر رہا ہے۔

اختتام پر کہا جا سکتا ہے کہ نیویارک کا یہ نیا سیاسی منظرنامہ عالمی جمہوریت کے لیے ایک سبق رکھتا ہے: سیاست میں کامیابی کا راستہ صرف طاقت یا سرمایہ سے نہیں بلکہ عوامی مسائل کے مخلصانہ ادراک سے گزرتا ہے۔ ظہران ممدانی کی فتح دراصل عوامی شعور کی جیت ہے وہ شعور جو سمجھ چکا ہے کہ بہتر معاشرت، مساوی مواقع اور شفاف حکمرانی ہی پائیدار ترقی کا راستہ ہے۔

اگر ممدانی اپنے وعدوں پر قائم رہتے ہیں اور عملی میدان میں اپنی فکری صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہیں، تو ممکن ہے نیویارک واقعی ایک "ماڈل سٹی" بن جائے ایسا شہر جہاں سیاست خدمت بن جائے اور خدمت انسانیت کی حقیقی تعریف۔

یہ جیت صرف نیویارک کی نہیں، بلکہ ایک ایسے عالمی رجحان کی نشاندہی ہے جو کہتا ہے: عوامی سیاست لوٹ آئی ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam