Wednesday, 24 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Fikri Inhetat Se Nazriyati Bedari Tak

Fikri Inhetat Se Nazriyati Bedari Tak

فکری انحطاط سے نظریاتی بیداری تک

امتِ مسلمہ کی تاریخ ایک شاندار فکری، تہذیبی اور تمدنی ورثے سے عبارت ہے۔ وہ امت جس نے علم، عدل، رواداری اور انسان دوستی کی بنیاد پر دنیا کو ایک منظم سماجی ڈھانچہ عطا کیا، آج فکری انتشار، سیاسی کمزوری، معاشی انحصار اور تہذیبی بے سمتی کا شکار نظر آتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ امتِ مسلمہ زوال کا شکار کیوں ہوئی، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اس زوال سے نکلنے کی فکری و عملی راہ کیا ہے؟ اسی تناظر میں نظریۂ پاکستان کی معنویت اور اس کی عملی تعبیر غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتی ہے، کیونکہ پاکستان محض ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ ایک نظریاتی تجربہ گاہ تھا اور ہے۔

اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ کا زوال کسی ایک دن یا ایک واقعے کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ ایک طویل فکری انحطاط، داخلی کمزوریوں اور خارجی دباؤ کا حاصل ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد عالمِ اسلام عملی طور پر منتشر ہوگیا۔ نوآبادیاتی قوتوں نے مسلم دنیا کو جغرافیائی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرکے اس کی اجتماعی قوت کو پارہ پارہ کر دیا۔ نتیجتاً مسلمان اپنی تہذیبی شناخت اور فکری خود اعتمادی سے محروم ہوتے چلے گئے۔

اسی تاریک پس منظر میں برصغیر کے مسلمانوں نے ایک غیر معمولی فکری بیداری کا مظاہرہ کیا۔ سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک، علامہ اقبال کا فکری انقلاب اور قائداعظم محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت دراصل اسی زوال پذیر امت کے احیا کی عملی صورتیں تھیں۔ نظریۂ پاکستان اسی فکری تسلسل کا منطقی نتیجہ تھا۔ یہ نظریہ اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ مسلمان محض ایک مذہبی گروہ نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیبی و فکری اکائی ہیں، جن کا طرزِ حیات، اقدار اور اجتماعی نصب العین جداگانہ ہے۔

علامہ اقبال نے مسلمانوں کو محض ماضی کے فخر میں جینے کے بجائے خودی، عمل اور اجتہاد کا راستہ دکھایا۔ ان کے نزدیک اسلام ایک جامد مذہب نہیں بلکہ ایک متحرک ضابطۂ حیات ہے، جو ہر دور میں نئی فکری تشکیل کا تقاضا کرتا ہے۔ یہی تصورِ دین نظریۂ پاکستان کی فکری روح ہے۔ قائداعظم نے بھی بارہا اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا مقصد ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جہاں مسلمان اپنی تہذیبی اقدار کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں اور جہاں عدل، قانون اور مساوات کو عملی شکل دی جا سکے۔

بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد ہم اس نظریاتی اساس کو عملی سطح پر مکمل طور پر نافذ نہ کر سکے۔ سیاسی عدم استحکام، آئینی بحران، طبقاتی تفاوت اور ادارہ جاتی کمزوریاں پاکستان کے فکری سفر میں رکاوٹ بنتی رہیں۔ نتیجتاً پاکستان، جو امتِ مسلمہ کے لیے ایک امید کی کرن بن سکتا تھا، خود داخلی تضادات کا شکار ہوگیا۔ اس صورتِ حال نے نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمِ اسلام کے تناظر میں بھی ہمارے کردار کو محدود کر دیا۔

آج امتِ مسلمہ جن مسائل سے دوچار ہے فلسطین، کشمیر، شام، یمن اور دیگر خطوں میں انسانی المیے وہ محض سیاسی تنازعات نہیں بلکہ مسلم دنیا کی مجموعی کمزوری کی علامت ہیں۔ عالمِ اسلام میں کوئی مؤثر مشترکہ حکمتِ عملی، مضبوط معاشی بلاک یا متحدہ فکری بیانیہ موجود نہیں۔ ایسے میں نظریۂ پاکستان کی عملی تعبیر ایک بار پھر ہماری توجہ چاہتی ہے، کیونکہ یہ نظریہ امتِ مسلمہ کو جدید قومی ریاست کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلامی اصولوں پر اجتماعی زندگی منظم کرنے کا ماڈل فراہم کرتا ہے۔

نظریۂ پاکستان کی عملی تعبیر کا مطلب محض چند مذہبی نعروں یا علامتی اقدامات تک محدود نہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم ریاستی سطح پر عدلِ اجتماعی، قانون کی بالادستی، معاشی انصاف، تعلیمی اصلاحات اور فکری آزادی کو فروغ دیں۔ ایک ایسی ریاست جہاں میرٹ، شفافیت اور اخلاقی اقدار فیصلہ سازی کا حصہ ہوں، وہی ریاست امتِ مسلمہ کے لیے قابلِ تقلید بن سکتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان اپنی نظریاتی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے۔

تعلیم اس پورے عمل کی کلید ہے۔ ایسی تعلیم جو محض ڈگریاں فراہم نہ کرے بلکہ فکری خود اعتمادی، تنقیدی شعور اور اخلاقی ذمہ داری پیدا کرے۔ جب تک ہم اپنی نئی نسل کو اسلامی تہذیب کے فکری جوہر اور جدید دنیا کے تقاضوں کے درمیان ربط سکھانے میں ناکام رہیں گے، نظریۂ پاکستان ایک نعرہ ہی رہے گا۔ اسی طرح خارجہ پالیسی میں اصولی مؤقف، معاشی خود کفالت اور مسلم دنیا کے ساتھ عملی تعاون بھی ناگزیر ہے۔

آخر میں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ امتِ مسلمہ کی حالتِ زار کا رونا رونے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہمیں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان اگر واقعی نظریۂ پاکستان کی روح کو سمجھ کر اسے عملی شکل دے، تو یہ نہ صرف اپنی داخلی مضبوطی کا سبب بنے گا بلکہ عالمِ اسلام کے لیے ایک فکری و عملی رہنما بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی پاکستان کا اصل وعدہ تھا اور یہی اس کا تاریخی فریضہ بھی ہے۔

Check Also

Firon Ke Gharur Se Ibrat Pakren

By Shair Khan