دنیا کی 2025ء کی فوجی طاقت

دنیا کی سیاست، معیشت، سائنس اور جنگی حکمتِ عملی میں جس تیزی کے ساتھ تغیر آ رہا ہے، اُس نے عالمی طاقت کے پرانے پیمانے یکسر تبدیل کر دیے ہیں۔ آج فوجی طاقت کا تصور صِرف توپ و تفنگ کا نام نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی، اقتصادی سکت، جغرافیائی محلِ وقوع، وسائل کی دستیابی، سفارتی اتحاد، سائبر اور خلائی صلاحیتوں سمیت ایک کثیرالجہتی مجموعے کا نام ہے۔ اسی ہمہ جہتی طاقت کا جائزہ Global Firepower ہر سال اپنی تفصیلی درجہ بندی کے ذریعے پیش کرتا ہے۔
2025ء کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی فوجی طاقت کی ترتیب میں امریکہ اول، روس دوم، چین سوم، بھارت چہارم اور جنوبی کوریا پنجم نمبر پر ہیں، جبکہ برطانیہ، فرانس، جاپان، ترکی اور اٹلی چھٹے سے دسویں نمبر تک آتے ہیں۔
پاکستان کو بارہواں اور اسرائیل کو پندرہواں نمبر حاصل ہوا ہے، جو ملک کی مجموعی بحالیٔ قوت، دفاعی صلاحیت اور خطے کی بدلتی کشیدگی میں اس کی اہمیت کا مظہر ہے۔
پاکستان کو 2025ء میں Power Index = 0.2513 کے ساتھ دنیا کی بارہویں طاقتور فوج قرار دیا گیا ہے۔ یہ درجہ بندی کسی ایک عنصر کی بنیاد پر نہیں، بلکہ تقریباً 60 سے زائد متنوع عوامل پر مشتمل ایک پیچیدہ تجزیاتی ماڈل کے بعد طے ہوتی ہے۔ پیادہ فوج، زمینی مشینری، بحری بیڑا، فضائی قوت، دفاعی بجٹ، توانائی وسائل، لاجسٹک نظام، ریزرو فورسز، جغرافیہ، آبادیاتی ڈھانچہ، معاشی استحکام، خارجہ پالیسی اور عالمی اتحاد یہ سب عناصر اس انڈکس کا حصہ بنتے ہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ Global Firepower جدید ٹیکنالوجی، معیار، تربیت، اسلحے کی عمر، استعمال کے عملی مؤقف یا خفیہ صلاحیتوں کو مکمل طور پر شامل نہیں کر پاتا، تاہم یہ ماڈل آج بھی دنیا بھر میں فوجی توانائی کا ایک قابلِ اعتماد تعین سمجھا جاتا ہے۔
فوجی قوت کے تعین میں وہ عوامل نمایاں ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا:
1.انسانی وسائل اور فعال فوجی قوت:
پاکستان اس اعتبار سے مضبوط ملک ہے کہ اس کی فوج نہ صرف تعداد میں قابلِ ذکر ہے بلکہ تربیت اور جنگی تیاری کے لحاظ سے علاقائی سطح پر غیر معمولی شہرت رکھتی ہے۔ پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی، سرحدی دفاع اور عالمی امن مشنز میں اپنی صلاحیت کو ثابت بھی کیا ہے۔
2.دفاعی بجٹ اور معاشی استحکام:
دفاعی بجٹ کسی ملک کا فیصلہ کُن عنصر ہے۔ امریکہ کا بجٹ 873 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے، جبکہ پاکستان کا بجٹ محدود لیکن عملی تقاضوں کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے۔ معاشی مشکلات، قرضے اور زرِمبادلہ کے دباؤ کے باوجود پاکستان اپنی فوجی ضروریات کو متوازن رکھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ معاشی ترقی کے بغیر مستقل اور جدید عسکری قوت قائم نہیں رہ سکتی۔
3.جغرافیہ اور قدرتی وسائل:
پاکستان کا محلِ وقوع اسے ایک اہم اسٹریٹجک ملک بناتا ہے۔ تاہم وسائل کی کمی، تیل و گیس کی محدود پیداوار، مختصر ساحلی حدود اور دشوار گزار سرحدیں لاجسٹک چین کے لیے اضافی چیلنجز پیدا کرتی ہیں۔
4.ٹیکنالوجی کا کردار:
آج کے دور میں جنگ کی تصویر بدل چکی ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، سائبر ڈیفنس، ہائپرسونک میزائل، خلائی نگرانی، الیکٹرانک وارفیئر، روبوٹک نظام اور خودکار جنگی مشینری وہ عوامل ہیں جو مستقبل کی جنگی حکمتِ عملی کو نئی تعریف دے رہے ہیں۔
پاکستان نے اس سمت پیش رفت ضرور کی ہے، مگر جدیدیت کی رفتار مطلوبہ معیار تک پہنچنے کی متقاضی ہے۔
5.عالمی اتحاد، سفارت کاری اور بیرونی تعلقات:
فوجی طاقت کا ایک بڑا ستون عالمی تعلقات ہیں۔ پاکستان کے چین کے ساتھ دفاعی تعاون نے اس کی مجموعی قوت میں اضافہ کیا ہے۔ دفاعی ٹیکنالوجی کی منتقلی، مشترکہ مشقیں، اسلحہ سازی میں شراکت داری، یہ تمام عوامل پاکستان کی عسکری قوت کو مستحکم کرتے ہیں۔
دنیا کی پہلی تین فوجی قوتیں نہ صرف بڑی افواج رکھتی ہیں بلکہ ان کے پاس معاشی توانائی، وسیع وسائل، عالمی اثر و رسوخ، جدید ترین ٹیکنالوجی اور سائبر خلائی صلاحیت کا امتزاج بھی موجود ہے۔
امریکہ اپنی عالمی فوجی موجودگی، دفاعی بجٹ اور ٹیکنالوجی کے باعث نمبر ایک پر ہے۔ روس ٹینک فورس، آرٹیلیریا اور دفاعی گہرائی کی بنیاد پر دوسرے نمبر پر ہے۔ چین اپنی بڑی آبادی، بحری بیڑے، صنعتی قوت اور ٹیکنالوجی کے تیز رفتار ارتقاء کے باعث عالمی منظرنامے کا تیسرا بڑا فوجی مرکز بن چکا ہے۔
بھارت چوتھے نمبر پر ہے، جو اس کے دفاعی بجٹ، افرادی قوت اور تیزی سے بڑھتی دفاعی صنعت کو ظاہر کرتا ہے۔ جنوبی کوریا کی پوزیشن خطے کی نئی جغرافیائی حقیقتوں کا اظہار ہے۔ ترکی، جاپان، برطانیہ اور فرانس ایک عرصے سے اپنی دفاعی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل پندرہویں نمبر پر ہے، جو خالصتاً ٹیکنالوجی، سائبر دفاع، انٹیلیجنس اور جدید اسلحہ سازی کا نتیجہ ہے۔
پاکستان کی بارہویں پوزیشن کئی مثبت حقیقتوں کا اظہار ہے:
طاقتیں، تربیت یافتہ فوج، ایک بڑی افرادی قوت، دفاعی شراکت داری خصوصاً چین کے ساتھ، علاقائی حالات میں جنگی تجربہ، فضائیہ اور میزائل نظام کی مؤثر صلاحیت، چیلنجز، محدود معاشی وسائل، دفاعی بجٹ پر بڑھتا بوجھ، جدید ٹیکنالوجی میں خلا، بیرونی قرضوں کا دباؤ، صنعتی پیداواری صلاحیت میں کمی، خطے کی کشیدگی اور سرحدی تناؤ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ فوجی طاقت میں اضافہ خود بخود امن کا ضامن نہیں۔ عسکری مقابلہ بازی بڑھتی ہے، اسلحے کی دوڑ میں اضافہ ہوتا ہے، خطے میں عدم استحکام بڑھتا ہے اور معیشتوں پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
آج Institute for Economics & Peace کی رپورٹس کے مطابق عالمی امن مسلسل زوال کا شکار ہے اور دنیا میں عسکریت پسندی بڑھ رہی ہے۔
اب جنگ کا مفہوم صرف "زمین پر جنگ" نہیں رہا۔ سائبر حملے کسی ملک کی معیشت، بجلی، پانی، مواصلات اور بینکاری نظام کو منٹوں میں مفلوج کر سکتے ہیں۔ اسی طرح خلائی اثاثے، سیٹلائٹس، کمیونیکیشن سسٹم، GPS آج ہر فوج کا بنیادی جز بن چکے ہیں۔
جو ملک اس میدان میں آگے ہیں، وہی مستقبل کے اسٹریٹجک نقشے پر اثر انداز ہوں گے۔
پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ:
دفاعی بجٹ کو جدیدیت پر مرکوز کیا جائے، مقامی دفاعی صنعت کو خود کفالت کی طرف لایا جائے، سائبر دفاعی نظام کو اولین ترجیح بنایا جائے، خلائی نگرانی اور مصنوعی ذہانت پر سرمایہ کاری کی جائے، معیشت کو مضبوط کرکے دفاعی اخراجات کے دباؤ کو کم کیا جائے، سفارتی سطح پر عالمی اتحاد اور دفاعی تعاون کو بڑھایا جائے۔
2025ء کی فوجی طاقت کی یہ درجہ بندی اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ آج عسکری قوت ایک ہمہ جہتی نظام ہے۔ طاقت کا اصل مرکز اب وہ ممالک ہیں جو ٹیکنالوجی، معیشت، سائبر سکیورٹی، عالمی اتحاد اور دفاعی منصوبہ بندی کو ایک مربوط حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کی بارہویں پوزیشن اس کی بنیادی طاقتوں کی دلیل ہے، مگر مستقبل کی دوڑ میں سبقت حاصل کرنے کے لیے معاشی استحکام اور تکنیکی جدیدیت ناگزیر ہو چکی ہے۔

