Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Azad Jammu o Kashmir Ki Haliya Kasheedgi

Azad Jammu o Kashmir Ki Haliya Kasheedgi

آزاد جموں و کشمیر کی حالیہ کشیدگی

آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ دنوں پیدا ہونے والی کشیدگی اور احتجاجی تحریک نہ صرف مقامی حالات کی ترجمانی کر رہی ہے بلکہ یہ پورے پاکستان اور خطے کی سیاست، معیشت اور سفارتی صورتحال کے لیے بھی سنگین سوالات پیدا کر چکی ہے۔ پانچ روز سے جاری احتجاج، انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی معطلی، بازاروں اور ٹرانسپورٹ کی بندش، اسکولوں میں طلبہ کی غیر حاضری اور طبی سہولیات تک رسائی میں مشکلات یہ سب محض وقتی رکاوٹیں نہیں بلکہ ایک بڑے بحران کی علامت ہیں، جو اپنی جڑوں میں معاشی، سیاسی اور انتظامی محرومیوں سے جڑا ہے۔

آزاد کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی قیادت میں ہونے والے احتجاجات محض جزوی مطالبات پر مبنی نہیں، بلکہ عوامی محرومیوں، عدم مساوات اور مہنگائی کے خلاف ایک طویل عرصے سے جمع شدہ غصے کی جھلک ہیں۔ عوام بجلی کے بلوں، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں، گورننس کی ناکامی اور عدم شفافیت پر سراپا احتجاج ہیں۔ ابتدائی طور پر پُرامن دھرنوں اور جلسوں کی شکل میں شروع ہونے والی یہ تحریک اس وقت پرتشدد رخ اختیار کر گئی جب انتظامیہ اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ گئے اور طاقت کے استعمال نے صورت حال کو مزید بگاڑ دیا۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں نہ صرف زخمیوں کی تعداد بڑھتی رہی بلکہ کچھ علاقوں میں ہلاکتوں کی بھی اطلاعات سامنے آئیں۔ اس صورتحال نے مقامی آبادی میں شدید بےچینی پیدا کر دی۔ عوام کا یہ کہنا ہے کہ ان کی آواز برسوں سے نظر انداز کی گئی اور جب وہ احتجاج پر مجبور ہوئے تو ان پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔

انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی بندش نے اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ کلر سیداں اور آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں پانچ روز سے نیٹ سروس بند رہنے کی وجہ سے لوگ نہ تو اپنے اہل خانہ اور دوستوں سے رابطہ کر پا رہے ہیں اور نہ ہی انہیں حالات کے بارے میں درست معلومات مل رہی ہیں۔ اس طرح کے اقدامات وقتی طور پر حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے کیے جاتے ہیں مگر درحقیقت یہ عوامی بےاعتمادی اور خوف میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں معلومات کی بندش محض ایک تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہار کا معاملہ بھی ہے۔

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی، جس میں رانا ثناء اللہ، احسن اقبال، طارق فضل چوہدری، راجہ پرویز اشرف اور قمر زمان کائرہ جیسے سینئر رہنما شامل ہیں۔ یہ کمیٹی مظفرآباد پہنچی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کا آغاز کیا۔

ابتدائی مذاکرات کے بعد حکومتی نمائندوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ماحول مثبت رہا ہے اور امید ہے کہ باہمی افہام و تفہیم سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ تاہم عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے مزید مشاورت کے لیے وقت مانگا۔ یہ بات واضح ہے کہ حکومت مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی خواہش رکھتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام اس عمل پر اعتماد کریں گے یا نہیں۔ کیونکہ ماضی میں اکثر وعدے اور اعلانات محض کاغذی رہے ہیں۔

آزاد کشمیر کی موجودہ کشیدگی کو صرف مقامی تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ خطہ ایک حساس جغرافیائی اور سیاسی حیثیت رکھتا ہے، جہاں کی بدامنی فوری طور پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ اس صورتحال کو عالمی سطح پر اجاگر کرے اور یہ تاثر دے کہ پاکستان اپنے زیر انتظام علاقوں کو مستحکم رکھنے میں ناکام ہے۔

مزید برآں، عالمی سطح پر بھی ایسے حالات کو انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اگر عوام کے مطالبات کو نظر انداز کیا گیا اور طاقت کے استعمال کو ترجیح دی گئی تو یہ بات عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے وقار کو متاثر کر سکتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر شفاف تحقیقات اور عملی اقدامات کرے تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ پاکستان اپنے عوام کے حقوق کا احترام کرتا ہے۔

پاکستان کی داخلی سیاست پہلے ہی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ معاشی بحران، مہنگائی، بیروزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوامی اعتماد کو متزلزل کر رکھا ہے۔ ایسے میں آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والی کشیدگی اس بحران کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس صورتحال کو سنبھالتی ہے، کیونکہ اگر یہ تحریک مزید طول پکڑ گئی تو اس کے اثرات پورے ملک میں محسوس کیے جائیں گے۔

اس صورتحال کا ایک اور اہم پہلو معاشی پہیہ ہے۔ ٹرانسپورٹ، بازار اور کاروبار کی بندش نے نہ صرف مقامی معیشت کو مفلوج کر دیا ہے بلکہ یہ اثرات پاکستان کی مجموعی اقتصادی صورتحال پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی معاشی اصلاحات اور آئی ایم ایف کے دباؤ سے گزر رہا ہے، کسی بھی نئی بدامنی کی گنجائش موجود نہیں۔

آزاد کشمیر ہمیشہ سے ایک ایسا خطہ رہا ہے جہاں کی سیاسی حرکیات پاکستان کی قومی سیاست سے جڑی رہی ہیں۔ تاریخی طور پر یہاں کے عوام نے ہمیشہ وفاق پاکستان کے ساتھ تعلق کو مضبوط رکھنے کی کوشش کی، مگر ساتھ ہی اپنے حقوق اور خودمختاری کے مطالبات کو بھی دہراتے رہے۔ اس تناظر میں موجودہ احتجاجی تحریک دراصل اس تاریخی تسلسل کا ایک حصہ ہے، جو بار بار ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ مقامی عوام کے جائز مطالبات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اگر حکومت نے عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات نہ کیے تو یہ تحریک مزید شدت اختیار کر سکتی ہے، جو نہ صرف مقامی سطح پر انتشار کا باعث بنے گی بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف، اگر مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جاتا ہے تو یہ ایک مثبت مثال بن سکتی ہے کہ مسائل کو مکالمے اور شفافیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔

اس بحران سے نکلنے کے لیے چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں:

1۔ فوری طور پر مواصلاتی نظام بحال کیا جائے تاکہ عوام میں اعتماد قائم ہو۔

2۔ زخمیوں اور متاثرین کے لیے ہنگامی طبی امداد فراہم کی جائے۔

3۔ شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کے ذریعے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔

4۔ عوامی نمائندوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے اور مقامی سطح پر گورننس بہتر بنائی جائے۔

5۔ معاشی ریلیف پیکج کا اعلان کیا جائے تاکہ عوام کو فوری سہولت مل سکے۔

یہ وہ اقدامات ہیں جو اگر بروقت کیے گئے تو نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک مثبت پیغام ہوں گے۔ بصورت دیگر، یہ بحران ایک بڑے طوفان کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

آخرکار، یہ لمحہ پاکستان کے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر حکومت دانشمندی، شفافیت اور ہمدردی کے ساتھ آگے بڑھی تو یہ بحران ایک موقع میں بدل سکتا ہے، جہاں عوام کا اعتماد بحال ہو اور ریاست کی ساکھ مضبوط ہو۔ لیکن اگر طاقت اور وعدوں پر انحصار کیا گیا تو نتائج نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے خطے کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali