Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Aik Ehad e Danish Ka Ikhtitam, Arifa Syed Ko Khiraj e Aqeedat

Aik Ehad e Danish Ka Ikhtitam, Arifa Syed Ko Khiraj e Aqeedat

ایک عہدِ دانش کا اختتام، عارفہ سیدہ زہرا کو خراجِ عقیدت

آج ہم زندگی کے اس نایاب انسان کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں جن کا انتقال صرف ایک فرد کی عدمِ موجودگی نہیں بلکہ ایک علمی، فکری اور تہذیبی عہد کے دَرجے کے زوال کی خبر بھی ہے۔ ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا نے جہاں اردو زبان و ادب کو اپنا مسکن بنایا، وہاں انسانیت، علم، اخلاق اور معاشرے کی بیداری کا فریضہ بھی بڑی شان و شوکت کے ساتھ ادا کیا۔ ان کی جدائی پر ہمیں وہ خالی پن محسوس ہو رہا ہے جو لفظوں میں ادا کرنا بظاہر ممکن نہیں۔

ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا نے تعلیم و تحقیق کو اپنے وجود کا مرکزی محور بنایا۔ انہوں نے بیچلرز آنرز کی ڈگری لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی سے حاصل کی، ماسٹرز کی ڈگری گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے اردو میں حاصل کی اور بعد ازاں امریکہ کی University of Hawaiʻi at Mānoa سے ایشیائی تعلیم یا ہسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

تعلیمی شعبے میں ان کی خدمات بھی بے مثال رہی ہیں لیکچرر سے شروع کرکے اسسٹنٹ پروفیسر، پھر وائس پرنسپل، پرنسپل اور آخر کار پروفیسر ایمریٹس تک کا سفر طے کیا۔

ان کا مطالعہ، تحقیق اور اظہارِ فکر بذاتِ خود ایک مثال ہے۔ اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیائی معاشرتی مسائل، انسانی حقوق اور فکرِ تاریخ پر بھی ان کی گہری بصیرت تھی۔

عارفہ سیدہ زہرا نے محض ایک استاد یا محقق کے طور پر نہیں، بلکہ فکر و شعور کے ایک روشن چراغ کے طور پر اپنی شناخت بنائی۔ ان کی گفتگو میں علمی روشنی، لفظوں میں محبت اور لہجے میں اخلاق کی خوشبو ہوتی تھی۔ ایک کالم میں نقل ہے: "تہذیب تو دراصل آپ کے رویے ہیں، ہماری زندگی ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہے اور اس جُڑے ہونے میں سب سے بڑا لطف یہ ہے کہ ہم دوسروں تک پہنچ سکیں"۔

انہوں نے کہا تھا: "ہم نے کتاب سے، حرف سے علم سے رشتہ رکھا ہے، مطالعے کی عادت ہمارے ہاں ختم ہوتی جارہی ہے"۔

ان کے مطابق علم صرف پیسہ یا روزگار کا ذریعہ نہیں، بلکہ انسان کو انسان سمجھنے کا ہنر ہے۔ انہوں نے ہماری سماجی قدروں، ہماری قومی زبان اور ہماری تہذیب کے حوالے سے جرات مندی سے بات کی۔ مثلاً انھوں نے یہ انتباہ دیا کہ: "ایک ہزار کا پیزا چار لوگ کھا سکتے ہیں، جب کہ پانچ سو روپے کی کتاب ایک شخص خریدتا ہے اور شاید سو لوگ اس کو استعمال کرسکتے ہیں اور وہ ہمیشہ تہذیب میں شمار کی جاتی ہے"۔

یہ جملہ اس بات کا آئینہ ہے کہ وہ مادّی راحت کے پیچھے بھاگتے معاشرے کے اندر، علم و ادب کی قدامت کی آواز بن کر سامنے آئیں۔

تحقیق، تدریس اور ادبی خدمات کے ساتھ ساتھ عارفہ سیدہ زہرا نے معاشرتی فریضوں کو بھی بخوبی نبھایا۔ وہ خواتین کے حقوق، معاشرتی شمولیت، اردو زبان کے فروغ اور قومی ہم آہنگی کے موضوعات پر سرگرم رہی ہیں۔

وہ اس عہد میں سرگرم تھیں جب ہماری قومی زبان، ہماری ادبی جڑیں اور ہماری سماجی اقدار شدید چیلنجوں کا سامنا کر رہی تھیں۔ ایسے میں ان کی صدائے فکرنے ہمیں یاد دلایا کہ زبان، ادب اور تربیت کی اہمیت سستے مینیو آئٹمز یا تیز رفتاری سے کم نہیں۔

آج جب ہم عارفہ سیدہ زہرا کی جدائی کا غم منا رہے ہیں تو یہ محض ایک فرد کا رفتن نہیں، بلکہ ایک ایسے عہد کا اختتام ہے جس نے ہمیں علم، ادب اور اخلاق کے سنگم پر فکر کرنے کی دعوت دی۔ وہی دور جب استاد کا وقار بلند تھا، جب گفتگو کا لہجہ نرمی اور اثر سے مزین تھا اور جب مطالعہ و تحقیق صرف امتحان کی تیاری نہیں بلکہ ذاتی نشوونما کا ذریعہ تھی۔

ان کی آواز آج بھی ہماری سماعت میں گونجتی ہے: "زندگی ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہے، تربیت ہمیں بتاتی ہے کہ جتنا دامن ہے بس اسی میں زندہ رہنا سیکھو"۔

ان کی وفات ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ علم کا سفر فرد سے آگے نکل کر ایک وقت، ایک معاشرے اور ایک تہذیب کی ٹھہراؤ کا باعث ہوتا ہے اور جب وہ علامت اس سفر سے جدا ہو جائے، تو ہمیں خود اس ٹھہراؤ کو یاد کرنا پڑتا ہے اور اُس سے سوال کرنا پڑتا ہے کہ ہم نے اس علم، اس ادب، اس تربیت کے ساتھ کیا کیا ہے؟

اب وقت ہے کہ ہم ان کی روشنی کا حق ادا کریں۔ ہم اپنی زبان کے احترام کو زندہ رکھیں اور اس کے فروغ کے لیے ذاتی کوشش کریں۔ مطالعے کی عادت کو دوبارہ جِلا دیں، نہ صرف معلومات کے لیے بلکہ شعور کے لیے۔

اخلاقی زندگی کو فقط ذاتی انتخاب نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری سمجھیں۔ جیسا کہ وہ کہتی تھیں: "رواداری، برداشت اور شرکت جیسے جذبے ہم سے چھٹ گئے ہیں"۔

غم کے ساتھ ساتھ ان کی میراث کو آگے بڑھانے کا عہد کریں۔ ان کے الفاظ، ان کی گفتگو، ان کے لیکچرز آج بھی ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا نہ صرف ایک استاد، محقق اور ادیب تھیں، وہ ایک فکری عصری نقوش تھیں جنہوں نے علمی، ادبی اور تربیتی افق کو وسیع کیا۔ ان کے جانے سے ہمیں خالی پن محسوس ہو رہا ہے، مگر ساتھ ہی ایک چیلنج بھی دیا گیا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلیں، اُن کے معیار کو آگے بڑھائیں اور اپنی زندگی کو علم و ادب و اخلاق کی روشنی سے منور کریں۔

اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے، اُن کے درجات بلند کرے اور ہمیں اُن کے اسلوب سے سیکھنے کا حوصلہ دے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari