Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Aalmi Maeeshat Ka Naya Mor, Siasi Dabao Mein Namu Ki Kami

Aalmi Maeeshat Ka Naya Mor, Siasi Dabao Mein Namu Ki Kami

عالمی معیشت کا نیا موڑ: سیاسی دباؤ میں نمو کی رفتار

عالمی معیشت اس وقت ایک نہایت پیچیدہ اور نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ بظاہر اقتصادی و مالیاتی استحکام کا تاثر ملتا ہے، مگر اس کے پس پردہ عدم توازن، قرضوں کا بوجھ اور جغرافیائی و سیاسی کشیدگی کا ایسا جال ہے جو کسی بھی لمحے اس ڈھانچے کو کمزور کر سکتا ہے۔ شرحِ نمو میں سست روی، مالیاتی نظام کا دباؤ، تجارت میں انقطاع اور عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے خطوط اس نئے عالمی منظرنامے کو مزید غیر یقینی بنا رہے ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی تازہ پیشگوئیوں کے مطابق 2025ء میں عالمی اقتصادی شرحِ نمو اوسطاً 3.2 فیصد رہے گی، جو 2026ء میں معمولی کمی کے ساتھ 3.1 فیصد پر آ جائے گی۔ بظاہر یہ اعداد و شمار تسلی بخش نظر آتے ہیں، مگر ان کے پیچھے چھپی حقیقت جمود کی ہے۔ دنیا کی معیشت اب تک وبا سے پہلے والے استحکام یا گزشتہ دہائی کی توسیعی رفتار کو بحال نہیں کر سکی۔ مالیاتی استحکام کی رپورٹوں کے مطابق اثاثوں کی قیمتیں غیر فطری سطحوں تک پہنچ چکی ہیں، عالمی قرضہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، بانڈ مارکیٹ دباؤ میں ہے اور غیر بینکی مالیاتی ادارے (NBFIs) بڑھتے ہوئے خطرات کے ساتھ مالیاتی نظام میں بڑا کردار سنبھال رہے ہیں۔

عالمی تجارت بھی غیر یقینی بحالی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے مطابق 2025ء میں تجارتی حجم میں 2.4 فیصد اضافہ متوقع ہے، مگر اگلے ہی سال یہ محض 0.5 فیصد تک سکڑ سکتا ہے۔ اس معمولی نمو کا بیشتر حصہ مصنوعی ذہانت (AI) سے متعلق سرمایہ کاری اور وقتی آرڈرز کا نتیجہ ہے، نہ کہ حقیقی طلب میں اضافے کا۔ مستقبل میں پالیسیوں کا تضاد، تجارتی رکاوٹیں، سرمایہ کاری کی کمی اور سپلائی چین میں خلل جیسے عوامل عالمی تجارت کے لیے سنگین خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب معاشرتی و تجارتی رویے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں صارفین اور کاروباری طبقے کا اعتماد کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ بڑھتی عمر کی آبادی، پیداواری جمود، سیاسی تقسیم اور تجارتی تحفظ پسندی نے ترقی کی رفتار کو محدود کر دیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو اگرچہ کمزور ڈالر سے وقتی فائدہ ہوا ہے، مگر وہ اب بھی بیرونی قرضوں، کرنسی کی غیر یقینی کیفیت اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر انحصار جیسے خطرات سے دوچار ہیں۔

سیاسی و سفارتی منظرنامہ بھی حد درجہ غیر مستحکم ہے۔ کونسل آن فارن ریلیشنز (CFR) نے 2025ء کو "اعلیٰ خطرے اور اثر" کا سال قرار دیا ہے بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، یورپ روس تنازع اور بحرالکاہل کے خطے میں۔ غزہ میں بدامنی، یوکرین جنگ، جنوبی چین کے سمندر اور تائیوان کے معاملے نے دنیا کو شدید جغرافیائی تناؤ میں مبتلا کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ (UN) جیسے اداروں پر بھی اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے اور ان کی مؤثریت اور اخلاقی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

آج معیشت اور سیاست ایک دوسرے سے پہلے سے کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہیں۔ امریکہ کی تجارت، امیگریشن، یا ٹیکس پالیسی میں معمولی تبدیلی بھی عالمی سرمایہ کاری، مزدور منڈی اور ہجرت کے رجحانات کو متاثر کر سکتی ہے۔ IMF کے مطابق اگر امریکہ امیگریشن پر سخت پابندیاں نافذ کرے تو اس کا اثر امریکی مجموعی پیداوار (GDP) پر 0.3 تا 0.7 فیصد کمی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی فیصلے معیشت پر کتنے گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔

ان تمام پیش رفتوں سے دو واضح نتائج سامنے آتے ہیں۔۔

اوّل، عالمی معیشت کی ساختی کمزوریاں ختم نہیں ہوئیں بلکہ نئی صورت میں ظاہر ہو رہی ہیں۔

دوم، موجودہ استحکام عارضی اور مشروط ہے۔ نمو جاری ضرور ہے مگر اس کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ اگر شفاف پالیسی فریم ورک، مالیاتی نظم و ضبط اور ہم آہنگ نگرانی نہ اپنائی گئی تو یہ کمزور بنیاد مزید لرز سکتی ہے۔

مستقبل کے تناظر میں کئی خطرات اور امکانات نمایاں ہیں۔ اگر بین الاقوامی تعاون کمزور رہا تو تجارتی تحفظ پسندی میں اضافہ، سپلائی چین کا ٹوٹ پھوٹ اور ترقی پذیر ممالک پر بوجھ بڑھنے کا امکان ہے۔ مالیاتی منڈیوں میں بھی "مالیاتی متعدی بحران" (financial contagion) کا خطرہ بڑھ رہا ہے یعنی کسی ایک ملک کے بانڈ یا کرنسی بحران کا اثر پوری دنیا کی معیشت پر پڑ سکتا ہے۔ اس پس منظر میں مرکزی بینکوں، ریگولیٹری اداروں اور کثیرالملکی تنظیموں کے درمیان مضبوط تعاون اب عالمی ضرورت بن چکا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ داخلی و خارجی پالیسیوں میں توازن لانا بھی ناگزیر ہے۔ وقتی اور عوامی دباؤ پر مبنی فیصلے وقتی سکون تو دے سکتے ہیں، مگر پائیدار ترقی کا راستہ فراہم نہیں کرتے۔ ممالک کو اب ساختی اصلاحات، پیداواری صلاحیت میں اضافہ، آبادیاتی چیلنجز کا حل، مزدور منڈی کی جدید کاری اور مصنوعی ذہانت و ٹیکنالوجی کے بہتر انضمام پر توجہ دینی ہوگی۔ حقیقی ترقی کا انحصار اعتماد، شمولیتی پالیسیوں اور سماجی توازن پر ہے۔

تاہم، سماجی بے چینی کا خطرہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ جب معاشی سست روی، روزگار کی کمی اور سیاسی مایوسی ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو عوامی اضطراب احتجاج اور بدامنی میں بدل جاتا ہے۔ یہ داخلی نظم و نسق کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کو بھی متاثر کرتا ہے، خصوصاً ان خطوں میں جہاں پہلے ہی سیاسی قطبیت شدید ہے۔

آخرکار، عالمی معیشت آج ایک تنگ اور غیر یقینی راستے پر گامزن ہے۔ اس کی سمت بظاہر درست ہے، مگر قدم غیر مستحکم ہیں۔ تجارت اور مالیات وقتی استحکام دکھا رہی ہیں، مگر ان کی بنیادیں کمزور ہیں۔ سیاسی تبدیلیاں تیز رفتار ہیں، مگر ادارہ جاتی ردعمل سست۔

اگر عالمی قیادت، حکومتیں اور بین الاقوامی ادارے اجتماعی طور پر منظم، طویل المیعاد اور شفاف حکمتِ عملیاں نہ اپنائیں تو دنیا سست رفتاری، منقسم تجارتی بلاکس، غیر مستحکم مالیاتی منڈیوں اور بڑھتی جغرافیائی رقابت کے ایک نئے عہد میں داخل ہو سکتی ہے۔

اسی مقام پر عالمی قیادت کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے:

مسائل کی نشاندہی سے آگے بڑھ کر حل کی تعمیر ایسا حل جو تعاون، شفافیت اور مشترکہ ذمہ داری کے اصولوں پر مبنی ہو۔

صرف اسی اجتماعی وژن کے ذریعے دنیا کی معیشت اپنی کھوئی ہوئی رفتار دوبارہ حاصل کر سکتی ہے اور آنے والے غیر یقینی سالوں میں محفوظ و مستحکم راستہ اختیار کر سکتی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan