لانگ مارچ اورتحریک کے ممکنا نتائج
27ء اکتوبر سے شروع ہونے والی تحریک کے بارے میں عوامی حلقوں میں یہ سوال آج کل گردش کر رہا ہے کہ کیا یہ تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچ پائے گی۔ ماضی میں ہونے والے حالات وواقعات اور ایسی ہی تحریکوں کے نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا تو بہت مشکل ہے کہ مولانا فضل الرحمن اپنے مطلوبہ مقاصد میں کامیاب ہو پائیں گے۔
عام خیال یہ کیاجاتا ہے کہ یہ تحریک ابھی قبل ازوقت ان میچور ہے۔ یہ درست ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت 2018ء کے مقابلے میں کم ہوئی ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ ملک بھر کے سارے لوگ اُن سے متنفر اور بیزارہوچکے ہوں۔ اُن کے چاہنے والوں کی ایک کثیر تعداد اب بھی اُن سے اچھے نتائج کی اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ یہ اور بات ہے کہ خان صاحب گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے کچھ بھی ڈیلیور نہیں کر پائے ہیں۔
سوائے اِس کے کہ وہ دیکھنے والوں کے لیے عمر کے اِس حصے میں بھی کافی جاذب نظر ہیں اور فن خطابت کے اسرار و رموز سے پوری طرح واقف ہیں۔ اُن کی یہی ایک خصوصیت انھیں اپنے مخالفوں میں منفرد اور ممتازکیے ہوئے ہے۔ بدقسمتی سے ہماری ساری سیاسی تاریخ میں بھٹو صاحب کے بعد کوئی بھی ایسا سیاست داں پیدا نہیں ہوا، جسے یہ فن اچھی طرح آتا ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو اِس فن کے اکیلے ہی ہیرو اور بادشاہ تھے۔ وہ عوامی انداز میں تقریرکرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے ساتھ ہی ساتھ وہ عالمی فورم پر بھی اپنا جادو اور سحر قائم کرنے کے بہت بڑے ماہر تھے، مگر کیا کسی سربراہ مملکت کی یہ خصوصیات اُس کی قوم کو خود مختار اور خود کفیل بناسکتی ہیں۔ جواب میں ہم نا ہی کہہ سکتے ہیں۔
دنیا میں آج تک جس کسی سربراہ نے اپنی قوم کو معاشی واقتصادی طور پر مضبوط اور مستحکم بنایا ہے اُن میں یہ خصوصیات شاید ہرگز نہ تھیں۔ یہ دیکھنے کے لیے ہم ماضی بعید میں جانے کی بجائے اگر حالیہ دنوں کے کچھ سربراہوں پر نظر ڈالیں جن کی معاشی اور اقتصادی پالیسیوں کی خان صاحب خود بھی بہت تعریفیں کیا کرتے ہیں تو اُن میں چین کے صدرکے بعد مہاتیر محمد اور طیب اردگان کا نام آتا ہے اور اِن میں سے کوئی ایک بھی فن خطابت میں خان صاحب کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ سب پہلے سے لکھی ہوئی تقریر بھی کیا کرتے ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کی منزل اور سمت درست راہ پرگامزن کر دی اور وہ آج اِس قابل ہوچکے ہیں کہ عالمی طاقتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرسکتے ہیں۔
لہٰذا یہ بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ ملک و قوم کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے صرف خوب صورت، خوب شکل یا فی البدیہہ تقریر کرنا اہم نہیں ہوتا، اِس کے لیے کچھ اور خصوصیات ضروری ہوا کرتی ہیں۔ مذکورہ بالا تمام سربراہ مملکت نے جب اپنا کام شروع کیا توکسی ایک نے اپنے ملک اور قوم کی خامیاں اور برائیاں بین الاقوامی محاذ پر اِس طرح اجاگر نہیں کیں جتنی خان صاحب اِس ایک ڈیڑھ سال میں کرچکے ہیں۔
انھوں نے کبھی کسی سیاسی قیدی کا ایئرکنڈیشن اورکھانا بند کرنے کی باتیں نہیں کیں۔ انھوں نے اپنی تمام تر توجہ اپنے ملک کی خرابیاں دورکرنے اور اسے ایک خود مختار ترقی یافتہ مملکت بنانے پر مرکوز کیں، مگر خان صاحب ابھی تک اپوزیشن کی خامیاں تلاش کرنے اور انھیں اپنی قوم اور دنیا کے سامنے رکھنے پر لگے ہوئے ہیں۔ اُن کی تمام تر صلاحیتیں اِسی ایک کام پر مرکوز ہوچکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ساتھی وزراء بھی اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کی بجائے خان صاحب کی خواہشوں کے عین مطابق اپوزیشن کو لتاڑنے اور انھیں صبح وشام برابھلا کہنے کو ہی اپنا فرض اوّلین تصورکرتے ہیں۔
قطع نظر اِس کے کہ عوام اُن سے دن بدن نا اُمید ہوتے جا رہے ہیں۔ اِس تناظر میں خان صاحب کا یہ گلا کسی طور درست اور صحیح نہیں ہے کہ انھیں اچھی ٹیم نہیں ملی۔ اِس ٹیم کو بنانے والے بھی وہ خود ہی ہیں۔ کسی اور نے تو انھیں یہ ٹیم بنا کے نہیں دی۔ یہ ٹیم وہی ہے جس کی کارکردگی کا مشاہدہ ہر تین یاچھ ماہ بعد وہ بذات خود کیا کرتے ہیں اور انھیں سو میں سے سو نمبر دے کر اُن کی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام خامیوں اور خرابیوں کے باوجود اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ عمران خان حکومت کے خلاف کسی تحریک کے شروع کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا ہے۔ وہ اِنہیں اور بھی وقت دینا چاہتی ہیں۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ یہ کہنے میں حق بجانب دکھائی دیتے ہیں کہ عوام الناس کو ابھی مزید مصائب کا سامنا ہو لینے دیا جائے۔ رفتہ رفتہ وہ خود ہی سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ اِس کے لیے انھیں کسی کوشش اورکال دینے کی پھر چنداں ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ پھر وہ ہونگے اور خان صاحب۔ قبل ازوقت تحریک شروع کرنے سے وہ اگر اقتدار سے بیدخل بھی کردیے گئے تو ہوسکتا ہے عوام انھیں دوبارہ برسراقتدار لے آئیں۔
مگر مولانا فضل الرحمن شاید کسی جلدی میں ہیں۔ انھیں اپنے ورکروں اور چاہنے والوں کی قوت اور طاقت پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ اکے لیے ہی یہ معرکہ سرکرسکتے ہیں۔ اِسی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کے راضی اور رضا مند نہ ہونے کے باوجود انھوں نے یک طرفہ طور پر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ اپنے درمیان کسی اختلاف کی خبروں سے بچنے کے لیے پھر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی طوعاً و کرہاً اِس مارچ میں شرکت پر آمادگی ظاہر کردی۔ مگر یہ دونوں اب بھی دھرنے کے خلاف دکھائی دیتے ہیں اِسی لیے اسلام آباد کے اِس دھرنے میں کہیں نظر نہیں آرہے۔
خان صاحب کو ملک کے ریاستی اداروں کی پس پردہ مکمل حمایت حاصل ہے۔ اِسی لیے وہ مکمل پر اعتماد ہیں کہ مولانا کے اس دھرنے کے نتیجے میں وہ کہیں نہیں جا رہے۔ اُن کا لب ولہجہ بتا رہا ہے کہ سرپرست قوتیں ابھی تک اُن کے ساتھ کھڑی ہیں۔ دھرنوں اور سیاسی تحریکوں کی تاریخ پر اگر غورکیاجائے تو پتا یہ چلتا ہے کہ فوری طور پر تواِس کے نتائج کسی کے حق میں یا مخالفت میں نہیں آتے لیکن جس حکومت کے خلاف یہ معرکہ شروع کیاجاتا ہے اِسے بعد ازاں ہر حال میں جانا پڑتا ہے۔ 1977ء میں بھٹو صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا مگر انھیں نہ صرف محروم اقتدار ہونا پڑا بلکہ تختہ دار پر بھی لٹکنا پڑا۔ اور پھر میاں نواز شریف کے ساتھ 1993ء میں ریاستی اداروں کی مکمل سپورٹ اور حمایتی فیصلوں کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب ایک لانگ مارچ شروع کیا تو چند مہینوں میں ہی اُس پر عزم اور پر اعتماد نواز شریف کو بالاخر جانا ہی پڑا۔ حالانکہ میاں نواز شریف کی مقبولیت اُس وقت بھی کچھ کم نہ تھی۔
عوام کی ایک بہت بڑی تعداد انھیں دل وجان سے چاہتی تھی، مگر جب فیصلہ ساز قوتیں کوئی فیصلہ کر لیں تو عوام کی رائے اورخواہشوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ بالکل اِسی طرح 2017ء میں بھی میاں نواز شریف کے ساتھ ایک بار پھر ایسا ہی ہوا۔ پاناما اسکینڈل کے منظرعام پر آنے سے پہلے میاں صاحب کے بارے میں یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا تھا کہ وہ اپنی قابلیت اورکارکردگی کے بل بوتے پر اگلا الیکشن بھی باآسانی جیت جائیں گے۔ مگر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے سارا منظر نامہ تبدیل ہوگیا اور وہ چاروں شانے چت کر دیے گئے۔
وہ نہ صرف اقتدار سے بیدخل کردیے گئے بلکہ اگلے دس سالوں کے لیے سیاسی طور پر نا اہل بھی قرار پائے۔ اُن کا جرم شاید"جرم ناآگہی" تھا۔ انھوں نے خود وخودداری کو اپنا نظریہ اور اُصول بنا لیا تھا۔ وہ شاید بھول گئے تھے کہ یہاں طاقتور حلقوں سے ٹکرانے والا خود پاش پاش ہوجاتا ہے۔ وہ آج جیل کی قید وبند میں زندگی کے آخری ایام اِس آس و اُمید پرگذار رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اُن کی یہ قربانی اپنا رنگ لائے گی اور قوم کو مرضی سے فیصلہ کرنے کا حق مل جائے گا۔ مگر شاید وہ اب بھی غلطی پر ہیں۔ یہاں اگلی کئی دہائیوں تک ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ سیاست کی شطرنج پر مہرے چلانے والے اپنا کام کرتے رہیں گے اور عوام اِسی طرح اپنے ووٹ اور اپنی رائے کو پامال ہوتا دیکھتے رہیں گے۔ یہ بات مولانا کو بھی اچھی طرح معلوم ہے لیکن وہ پھر بھی بضد ہیں تو اُن کی مرضی۔