قصائیوں کی راہ میں آنکھیں بچھانے کے دن!
میرا یاسر بیٹا کہتا ہے ابو آپ اب بکروں پر لکھنا بند کردیں، آپ 30سے زیادہ کالم ان پر لکھ چکے ہیں، میں پوچھتا ہوں کہ ان کالموں میں مَیں نے کوئی بات دہرائی تو نہیں، کہتا ہے نہیں، مگر اب بس کر دیں، بیٹے کا اصرار اپنی جگہ، سوال یہ ہے کہ اگر ایک بکرا اپنے بھائی بندوں کے بارے میں نہیں لکھے گا تو اور کون لکھے گا، میں ایک بکرے پر تھوڑا لکھتا ہوں، میں تو پاکستان کے بائیس کروڑ بکروں کی حالت زار بیان کرتا ہوں، ویسے بھی مجھے جانوروں سے دلی لگائو ہے، شاید ہی کوئی جانور ایسا بچا ہو جس پر میں نے نہ لکھا ہو، چنانچہ ایک دفعہ جعفر بلوچ مرحوم نے لکھا تھا کہ عطاء الحق قاسمی کے کالموں میں پورا چڑیا گھر آباد ہے۔
چلیں چھوڑیں اس مسئلے کو! بقر عید سر پر کھڑی ہے چنانچہ بکروں کی طرف آتے ہیں۔ ان دنوں بکرے اور سفید پوش دونوں پریشان ہیں کیونکہ دونوں کے ذبح ہونے کے دن قریب ہیں۔ میں گزشتہ ایک ہفتے سے بکروں کی "ونڈو شاپنگ" کر رہا ہوں۔ اس کے کئی فائدے ہیں مثلاً ایک فائدہ تو یہی ہے کہ جب میں ریوڑ کے مالک کے پاس کھڑا اس سے بکروں کی قیمتیں پوچھ رہا ہوتا ہوں قریب سے گزرنے والے مجھے خریدار سمجھتے ہیں حالانکہ بقول شاعر
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
میرے محلے کا پرچون فروش مجھے ان دو چار دنوں سے ادھار بھی دینے لگا ہے کیونکہ اس نے مجھے بکروں کی قیمتیں پوچھتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اسے یقین ہو گیا ہے کہ میری معاشی حالت خاصی مستحکم ہے۔ اس ونڈو شاپنگ کا دوسرا اور فوری فائدہ مجھے یہ پہنچا ہے کہ میرا بلڈ پریشر ایک حد سے سے اوپر نہیں جاتا۔
اس دفعہ میں نے بکروں کے رویے میں ایک تبدیلی بھی محسوس کی ہے۔ اس سے پہلے جوں جوں عید قریب آتی تھی بکرے اور خصوصاً ان کی ماں ہراساں سی نظر آنے لگتی تھی لیکن اس مرتبہ وہ زندگی موت سے کچھ بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ گاہک جس بکرے پر ہاتھ رکھتا تھا یا اس کا مالک اسے کان سے کھینچ کر گاہک کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا تھا تو وہ اپنے اگلے دونوں پائوں مضبوطی سے زمین میں گاڑ دیتا تھا مگر اس دفعہ مزاحمت تو کجا بکرا گاہک کو دیکھ کر منمناتا ہے، اس کے قدموں میں آن گرتا ہے اور آنکھوں میں درخواست گزار ہوتا ہے کہ اسے عید پر ہرحال ذبح کر دیا جائے۔ قربانی کے بکروں کی زندگی سے اس قدر مایوسی سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کا رجحان خودکشی کی طرف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خودکشی کے ضمن میں انسانوں کی تقلید کرنے سے شاید انسان غموں سے نجات پا جاتا ہے، تاہم میرے ایک دوست کا مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان دنوں بکرے گاہک کو دیکھ کر پوری قوت کے ساتھ رسہ تڑا کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آج سے پہلے اللہ کی رضا پر جان دینے والوں کے حوالے سے تقدس کا ایک تصور موجود تھا یہ تصور مدہم پڑ گیا ہے کیونکہ انہیں دہشت گرد بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ میرے دوست کے بقول ایک داڑھی والا بکرا تو اسے دیکھ کر یوں سرپٹ بھاگا جیسے اس نے کسی ایجنسی کے اہلکار کو دیکھ لیا ہو، تاہم صورتحال جوبھی ہو بکرے تو ہوتے ہی ذبح ہونے کے لئے ہیں۔ یہاں مجھے ایک محاورہ یاد آگیا ہے جو عموماً ایسے مواقع پر ادا کیا جاتا ہے اور یہ محاورہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی والا ہے، میں اس محاورے کے حوالے سے ہمیشہ کنفیوژ رہا ہوں کیونکہ اگر تو اس سے مراد یہ ہے کہ بکروں کی ماں بکری ہوتی ہے اور جب بکرے ذبح ہو رہے ہوتے ہیں تو بکریاں خاموشی سے منظر دیکھ رہی ہوتی ہیں کہ جانتی ہیں کہ ان کی باری نہیں آنی۔ ان کی باری تو اس وقت آتی ہے جب گوالا دیکھتا ہے کہ ان کے تھنوں میں دودھ نہیں رہا پھر وہ بھی قصائی کے سپرد کردی جاتی ہیں اور اگر محاورے کا مطلب یہ ہے کہ بکرے کی ماں اپنے بچوں کی جانوں کی خیر کب تک منائے گی کیونکہ انہوں نے تو چھرے تلے آنا ہی آنا ہے تو یہ محاورہ درست ہے لیکن کسی کے خیر منانے سے بلائیں ٹلا نہیں کرتیں۔ قصائی کے ہاتھ سے چھری چھیننا پڑتی ہے اور یہ کام بکریاں نہیں کر سکتیں۔
جہاں تک قصائیوں کا تعلق ہے یہ تو ہمارے معاشرے میں اسٹیٹس سمبل بنے ہوئے ہیں جس گھر میں قصائی آ جائے وہ فخر سے سب کو بتاتا پھرتا ہے کہ آئو دیکھو قصائی میرے گھر میں رونق افروز ہے چنانچہ ان دنوں قصائی کی جو آئو بھگت ہوتی ہے اس پر کسی وی وی آئی پی کا گمان گزرتا ہے۔ وہ خون آلود کپڑوں کے ساتھ چھری لہراتے ہوئے بازاروں میں سے گزرتا ہے اور لوگ اس کی راہ میں آنکھیں بچھاتے چلے جاتے ہیں۔ میری بھی کئی قصائیوں سے راہ و رسم ہے۔ میں اگر قربانی کا کوئی بکرا گھیرنے میں کامیاب ہو گیا تو میرے گھر بھی قصائی آئے گا اور میری بھی "ٹوہر" ہو جائے گی باقی رہی بکرے کی ماں تو اس کا کام تو فقط دعائیں مانگنا ہے وہ مانگتی رہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے!