Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Ata Ul Haq Qasmi/
  3. Aik Din Jo Timmi Ke Naam Likha Gaya!

Aik Din Jo Timmi Ke Naam Likha Gaya!

ایک دن جو ٹمی کے نام لکھا گیا!

صاحب نے امریکہ سے اپنے ایک پرانے دوست کی آمد پر اپنے سب مشترکہ دوستوں کو لنچ پر مدعو کیا تھا۔ صاحب نے ڈرائیور کو پچاس روپے دیے اور کہا تم کسی قریبی تنور سے کھانا کھا آئو۔ کھانے کے دوران دنیا جہاں کے موضوع پر گپ شپ ہوئی۔ دس بیس پرانے دلچسپ واقعات دہرائے گئے اور یوں مشترکہ دوستوں نے اپنی پرانی یادیں تازہ کیں۔ اُس روز صاحب کے ہونٹوں پر بہت دنوں کے بعد مسکراہٹ آئی تھی، کھانے کے بعد ڈرائیور نے گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑا اور گاڑی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد صاحب کے بیڈروم میں داخل ہوگیا، صاحب کو قیلولہ کی عادت تھی اور جب تک ڈرائیور سونے سے پہلے ان کی مٹھی چاپی نہیں کرتا تھا اسے نیند نہیں آتی تھی، جب ڈرائیور کو صاحب کے خراٹے سنائی دیے وہ دبے پائوں کمرے سے باہر نکل آیا۔

بیگم صاحبہ نے اسے کمرے سے نکلتے دیکھ کر آواز دی، گاڑی نکالو اوریگا کمپلیکس جانا ہے، بچے بھی بیگم صاحبہ کے ساتھ تھے، انٹرنیشنل فوڈ چین سے برگر کھانے کے بعد وہ اوریگا کمپلیکس گئے جہاں اسمگلڈ کپڑوں کی تازہ ورائٹی کی وجہ سے کھوے سے کھوا چھل رہا تھا، عورتیں نئے ڈیزائن کے نہایت مہنگے کپڑوں پر یوں ٹوٹ کر گر رہی تھیں جیسے یہ مفت مل رہے ہوں، بیگم صاحبہ نے دس بارہ سوٹ پسند کئے اور ڈرائیور سے لبرٹی مارکیٹ چلنے کے لئے کہا، بیگم صاحبہ کیلئے کاسمیٹکس یوں تو صاحب امریکہ ہی سے لاتے تھے لیکن عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ کاسمیٹکس کی Consumption میں بھی اضافہ ہوگیا تھا، چنانچہ بیگم صاحبہ کو مجبوراً امپورٹڈ لپ اسٹک اور دوسری چیزیں ایمرجنسی میں یہاں سے خریدنا پڑیں حالانکہ انہیں شبہ تھا کہ یہ جینون نہیں ہیں۔ گھر واپسی پر صاحب جاگ چکے تھے اور دفتر جانے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ صاحب کی یہ پرانی روٹین تھی کہ وہ لنچ بریک کے بعد واپس دفتر جاتے اور پھر شام تک پینڈنگ فائلیں نمٹاتے، ڈرائیور دفتر کے باہر بنچ پر بیٹھ گیا، اسے صاحب کے انتظار میں دو تین گھنٹے اسی عالم میں ان کا انتظار کرنا تھا، تاہم آج صاحب جلد ہی اٹھ گئے کیونکہ ان کے لاڈلے بیٹے ٹمی کی سالگرہ تھی، واپس گھر پہنچ کر ڈرائیور نے دوسرے ملازموں کے ساتھ مل کر لان میں کرسیاں وغیرہ لگائیں اور دوسرے انتظامات کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ ڈرائیور کے بچے کی طبیعت خراب تھی، وہ آج جلدی گھر جانا چاہتا تھا مگر صاحب سے بات کرنے کی اسے ہمت نہ پڑی کیونکہ آج ان کے ٹمی کی سالگرہ تھی، مہمانوں کی آمد شروع ہوئی تو تھوڑی دیر بعد ایک بڑی میز تحفوں سے بھر گئی۔ صاحب اپنے اسٹڈی روم میں مرد مہمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے اور ڈرائیور کو ہدایت تھی کہ جب ٹمی نے کیک کاٹنا ہو اس وقت انہیں اطلاع دی جائے، مرد مہمانوں میں بیشتر صاحب کی"شام کی محفلوں " کے دوست تھے۔ ڈرائیور صاحب کے کمرے میں برف کی ڈلیاں، کباب اور شام کی محفل کی دوسری ضروری اشیاء رکھ آیا تھا۔ وہ زرق برق لباس اور زیورات میں لدی ہوئی مہمان خواتین اور ان کے شریر بچوں کی مدارت میں مصروف تھا، اس کے ساتھ دیگر ملازم بھی یہ ڈیوٹی پوری تندہی سے انجام دے رہے تھے مگر ڈرائیور کی فرض شناسی اور اس کی مستعدی کی عادت کی بنا پر بیگم صاحبہ ہر کام کے لئے اسی کو پکارتیں۔ جب برتھ ڈے پارٹی ختم ہوئی تو لان بچی کھچی اشیائے خور و نوش سے اَٹا ہوا تھا۔ صفائی کرتے اور چیزوں کو واپس ان کے ٹھکانے پر رکھتے رکھتے رات کے گیارہ بج گئے، صاحب کے دوست بھی جا چکے تھے اور مہمان خواتین بھی رخصت ہو چکی تھیں، صاحب لڑکھڑاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے، ڈرائیور ان سے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اسے اس کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ وہ بیگم صاحبہ کے پاس گیا اور کچھ کہنے ہی کو تھا کہ اس نے خود ہی بات بدل دی اور کہا بیگم صاحبہ، میں گھر جائوں، بیگم صاحبہ نے کہا "ہاں اب جائو مگر صبح چھ بجے پہنچ جانا، بچے اسکول سے لیٹ نہ ہوں " وہ روزانہ یہ بات کہتی تھیں حالانکہ وہ کبھی لیٹ نہیں ہوا تھا۔

ڈرائیور، باورچی نور دین کے کوارٹر میں گیا کہ اس سے کچھ پیسے ادھار مانگ لے مگر اس کے پاس کل ایک سو روپے تھے وہ مجبوراً واپس بیگم صاحبہ کے پاس آیا اور کہا "بیگم صاحبہ میرا بچہ بیمار ہے، مہربانی کرکے تنخواہ میں سے مجھے کچھ رقم ایڈوانس دے دیں " بیگم صاحبہ نے کہا، آج مہینے کی بیس تاریخ ہے، مہینے کی ان تاریخوں میں تنخواہ دار لوگوں کے پاس کہاں پیسے ہوتے ہیں اور پھر اسے تاکید کی کہ وہ صبح چھ بجے کوٹھی پہنچ جائے تاکہ بچے اسکول سے لیٹ نہ ہوں مگر ڈرائیور صبح چھ بجے بچوں کو اسکول پہنچانے کے لئے صاحب کی کوٹھی نہ پہنچ سکا کیونکہ اس نے اپنے "ٹمی" کو قبرستان پہنچانا تھا۔

About Ata Ul Haq Qasmi

Ata ul Haq Qasmi is a Pakistani Urdu language columnist and poet. He has written many articles on different subjects for the leading newspapers of Pakistan.

The most distinguished character of Qasmi's column is his satire on social inequalities of the society and his anti dictatorship stance which he boldly takes in his columns. He has a unique style of writing incomparable to any other columnist because of his humorous way which holds the reader till the last line of his column which is his punch line.

Qasmi was also elevated to the position of Ambassador of Pakistan in Norway and Thailand during Nawaz Sharif's reign from 1997 to 1999. His books of columns include "Column Tamam", "Shar Goshiyan", "Hansna Rona Mana Hay", "Mazeed Ganjey Farishtey and many more while his TV Drama Serials include the most popular "Khwaja and Son", "Shab Daig" and "Sheeda Talli". His travelogues include "Shoq-e-Awargi".

His writing is more toward Nawaz Sharif, and he has some closed relation with him. He supported PML-N in the 2013 election, and there are news that soon he will be appointed Ambassador to some country.

Check Also

Mezban Aur Mehman

By Javed Chaudhry