ورلڈ کپ، مینیو میں گائے کا گوشت نہیں ہوگا
خبر شائع ہوئی کہ ورلڈ کپ کے مینیو میں گائے کا گوشت نہیں ہوگا۔ لیکن سیکولرزم کے کسی مداح نے ابھی تک پلٹ کر سوال نہیں پوچھا کہ کیوں، کس اصول کے تحت اور کس ضابطے کی روشنی میں؟ بھارت تو سیکولر ملک نہیں تھا، پھر گائے کے گوشت سے سیکولر ریاست اتنی بد مزہ کیوں ہو جاتی ہے؟
اس تجاہل سیکولرانہ کے باوجود اس سوال کا گلا نہیں گھونٹا جا سکتا کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے یا یہ ایک فاشسٹ ہندو ریاست ہے، جسے ہندتوا کے بعد اب مودتوا بھی لاحق ہو چکا ہے؟ اس نکتے پر بھارت کے اندر جو آئینی اور قانونی واردات ہوئی ہے وہ بڑی دل چسپ ہے اور اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی بظاہر سیکولر ریاست کے فکری خدوخال کتنے فاشسٹ ہیں اور ان پر ہندو شائونزم کا رنگ کس طرح نمایاں ہے اور اس ہندو فاشزم کو کیسے معاشی اصولوں، کا چولا پہنا کر سیکولرائز کیا گیا ہے۔
بہت شروع میں ہی ہندوستان کی قیادت ہندو فاشزم کی علم بردار تھی۔ کانگریس ہو یا بی جے پی، ان میں فرق صرف طریقہ واردات کا ہے۔ فکری طور پر دونوں ہی ہندو شائونزم کی علمبردار ہیں۔ ابھی یہ فیصلہ بھلے بی جے پی کی حکومت نے کیا ہے کہ ورلڈ کپ کے موقع پر مینیو میں گائے کا گوشت نہیں ہوگا لیکن یہ فیصلہ اس آئینی اصول کی بنیاد پر کیا گیا ہے جو کانگریس نے بہت شروع میں ہی طے کر دیا تھا۔ یہ ہندو فاشزم کی واردات تھی، جسے کانگریس نے معیشت کا عنوان دیا اور ثابت کیا کہ سنگھ پریوار اور سیکولر کانگریس میں فرق واردات کا نہیں، طریقہ واردات کا ہے۔
جب بھارت کا آئین بننے لگا تو آرٹیکل 48 کا مسودہ پیش کیا گیا۔ اس میں لکھا گیا کہ بھارت کی معیشت کی بہتری کا تقاضا ہے کہ زراعت اور مویشیوں پر خاص توجہ دی جائے۔ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور مویشیوں کی نسل کو بچانے اور ان کی افزائش کرنے لیے ان کی حفاظت کی جائے اور گائے اور بچھڑوں کو ذبح نہ کیا جائے۔
یہ بظاہر زراعت، لائیو سٹاک اور ملکی معیشت کی بہتری کا فارمولا تھا لیکن ایک ہندو رکن کی جانب سے پیش کیے اس فارمولے میں تان گائے اور بچھڑے کے ذبیحے پر پابندی پر آ کر ٹوٹی تو ساری واردات عیاں ہوگئی۔ ہندو اراکین نے اس سے اتفاق کیا لیکن بھارتی پارلیمان میں موجود مسلمان اراکین نے کہا کہ اس بل کا معیشت سے کیا تعلق، یہ تو ہندو مذہب کی تعلیمات تمام شہریوں کے سر پر تھونپنے والی بات ہے۔ اس پر ہندو اراکین غصے میں آ گئے اور انہوں نے کہا کہ ہاں ایسا ہے تو ایسا ہی سہی، ہم گائے کو ذبح کرنے پر پابندی لگانا چاہتے ہیں کیوں یہ ہمارے عقیدے کا معاملہ ہے۔
مسلمان اراکین نے کہا کہ آپ طے کر لیجیے آپ ایک ہندو ریاست ہیں یا ایک سیکولر ریاست۔ اگر آپ ایک سیکولر ریاست ہیں تو کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی خواہش کو آئین کا حصہ بنا کر آپ تمام شہریوں پر یہ پابندی کیسے لگا سکتے ہیں کہ وہ گائے اور بچھڑے کو ذبح نہ کریں۔
اس پر کانگریس کی قیادت نے کہا کہ اس کا تعلق ہندو مذہب سے ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف ملک کی زرعی معیشت کے تحفظ اور اس میں بہتری کی کوشش ہے۔ اس کے جواب میں ایک مسلمان رکن نے اٹھ کر کہا کہ پھر گائے ا ور بچھڑے کی شرط کیسی۔ اسے ختم کر دیجیے اور یہاں لکھ دیجیے کہ " کسی فائدہ مند جانور کو ذبح نہیں کیا جائے گا"۔ تاکہ جو جانور ملکی معیشت میں مفید ہیں وہ بچ جائیں لیکن جو بیمار اور لاغر ہیں کم از کم انہیں تو ذبح کرکے کھا لیا جائے۔ مسلمان اراکین نے کہا کہ اگر ذبح کرنے پر پابندی لگا دی تو یہ بیمار جانور تو مرنے لگیں گے اور اس سے ملکی معیشت پر برا اثر پڑے گا۔ اس لیے آپ اس پابندی کو صرف " مفید جانوروں" تک محدود رکھیں۔
مسلمانوں کی یہ تجویز بھی رد کر دی گئی اور کہا گیا کہ گائے اور بچھڑا اگر کسی وقت غیر مفید بھی ہوں تب بھی انہیں ذبح کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چنانچہ یہ آرٹیکل پاس ہوگیا، بھارتی آئین کا حصہ بن گیا اور پالیسی کے رہنما اور بنیادی اصولوں میں درج کر دیا گیا۔ یعنی ورلڈ کپ مینیو میں اگر گائے کا گوشت نہیں ہے تو یہ بی جے پی کے سنگھ پریوار کا فاشزم نہیں ہے، یہ کانگریس کا فاشزم تھا جو معیشت کے لبادے میں متعارف کرایا گیا۔
بھارت کے سیکولرزم کے قصے سنانے والے سنگھ پریوار کے کچھ رضاکار ہمارے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کا کام بھارت کی ہر چیز کو خوبی بنا کر پیش کرنا ہے اور پاکستان کی ہر چیز کو نقائص کے باب میں لکھنا ہے۔ ورنہ سامنے کی حقیقت تو یہ ہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 میں سکھ مذہب کو الگ مذہب ماننے کی بجائے ہندو مذہب قرار دیا گیا ہے۔
اس آرٹیکل کی کلاز بی، میں ہندوئوں، ہندوئوں کے طبقات اور ہندوئوں کے مذہبی اداروں کی بات کی گئی ہے اور ان اصطلاحات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جب لفظ ہندو استعمال کیا جائے گا تو اس میں جین، بدھ مت اور سکھ سب شامل ہوں گے اور جب ہندوئوں کے مذہبی اداروں کی بات ہوگی تو اس میں ان سب کی عبادت گاہیں بھی شامل ہوں گی۔ یعنی آئینی طور پر بدھ مت، جین مت اور سکھ مذہب کے ماننے والوں کو ہندو قرار دے دیا گیا۔ یہ گویا پہلے دن سے بھارتی ریاست کو ہندوائز، کرنے کی ایک کوشش تھی جو بھارت کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے ہاتھوں انجام پائی۔ یہ دنیا کی تاریخ کا انوکھا سیکولرزم تھا کہ کھڑے کھڑے تین مذاہب کو ہندو، بنا دیا گیا۔
سردار حکم سنگھ اور سردار بھوپندر سنگھ مان نے اس آرٹیکل پر اعتراض کیا کہ ہما را ایک الگ مذہب ہے، ہم سکھ ہیں۔ ہمیں آپ ہندو کیسے قرار دے سکتے ہیں لیکن ان کی بات کسی نے نہ سنی۔ چنانچہ ان دونوں نے بھارت کے آئین پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ سردار حکم سنگھ کوئی جذباتی رہنما نہ تھے۔ وہ بھارت کی اس دستور ساز اسمبلی کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ وہ تین دفعہ لوک سبھا کے رکن رہے، ڈپٹی سپیکر رہے، سپیکر رہے، راجستھان کے گورنر کے منصب پر فائز رہے۔ سپوکس مین کے ایڈیٹر رہے اور دی سکھ کاز، اور دی پرابلمز آف سکھز، جیسی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ یہ متفقہ آئین نہیں تھا اور یہ سکھوں پر زبردستی ٹھونسا گیا تھا۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 میں ہی قرار دیا گیا کہ صرف ہندو مذہب ایسا مذہب جس کی ریاست سرپرستی کرے گی اورصرف ہندو مذہب کی عبادت گاہوں کی بحالی اور بقا کی بات آئین میں شامل کی گئی ہے۔ باقی مذاہب کے حوالے سے ایسی کوئی چیز بھارتی آئین میں شامل نہیں ہے۔
چنانچہ ہندو شائونزم کی علمبردار ریاست میں اگر ورلڈ کپ کے مینیو میں گائے کا گوشت نہیں تو حیرت کیسی؟ فاشسٹ ریاستوں کے آئین اور قانون ایسے ہی ہوتے ہیں۔