پی ٹی وی کی بھی نجکاری کی جائے
ہماری لڑکھڑاتی معیشت اگر پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے اداروں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تو کیا یہ پی ٹی وی کے لنگر خانے کا بوجھ اٹھا سکتی ہے؟ اگر دیگر اداروں کی نجکاری کا سوچا جا سکتا ہے تو کیا پی ٹی وی کے سفید ہاتھی کی نجکاری نہیں ہو سکتی؟ پبلک پرائیویٹ پارٹنر سکیم کا بڑا شہرہ ہے تو کیا اس سکیم کا اطلاق پی ٹی وی پر نہیں ہو سکتا؟ کیا عقل اور دلیل کی دنیا میں اس رویے کا کوئی اعتبار ہے کہ بجلی کے بلوں سے تیس پینتیس روپے ٹیکس کاٹ اس ادارے میں منظور نظر افراد کو نوازا جائے ا ور اندھا دھند نوازا جائے؟ یہ ایک قومی ابلاغی ادارہ ہے اوریہاں کوئی میرٹ ہے یا یہ محض اپنے اپنے حصے کے کارندوں کو نوازنے کے لیے ایک چراگاہ ہے؟
پی ٹی وی کی الیکشن ٹرانسمیشن اس وقت شہر اقتدار میں زیر بحث ہے۔ معلوم نہیں آپ میں سے کسی نے یہ ٹرانسمیشن دیکھی ہے یا نہیں لیکن واقفان حال کا دعوی ہے کہ یہ ایک ایسی واردات تھی کہ اپنی نوعیت میں یہ نیب کا کیس ہے۔
یہ ٹرانسمیشن صرف بیس بائیس روز چلی۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس مختصر مدت کے لیے جو دو اینکر رکھے گئے تھے ان کا معاوضہ کیا تھا؟ سر پیٹ لیجیے، یہ رقم قریب پونے دو کروڑ روپے بنتی ہے۔ یعنی قریب 84 لاکھ فی کس۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا ایک ماہ سے بھی کم مدت کے لیے ٹی وی شو کرنے پر کسی میزبان کو 84 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا کوئی جواز بنتا ہے؟ چند روز کے پروگرام اور دو اینکروں کو پونے دو کروڑ روپے۔ اس بے رحمی سے تو کوئی مال غنیمت بھی تقسیم نہ کرتا ہو جس سفاک انداز سے پاکستان ٹیلی وژن کے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے۔
اس رقم میں دنیا کا قابل ترین آدمی بلایا جا سکتا تھا اور اس سے پروگرام کرایا جا سکتا تھا۔ لیکن پی ٹی وی نے اس رقم سے جو اینکر رکھے، ان کی صلاحیت اور تعارف کیا ہے۔ یہ معاوضہ کیا انہیں ان کی صلاحیت پر دیا گیا یا اس کی وجوہات کچھ اور تھیں؟ یہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟ کیا کوئی فورم ہے جہاں پر اس بندر بانٹ کی بابت سوال پوچھا جا سکے؟ پی ٹی وی میں معاوضے دینے کا طریقہ کار کیا ہے؟ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کا کوئی اصول ہے یا یہ مال غنیمت ہے اور یہ بانٹنے والے کی مرضی ہے کس کو کتنا عطا فرما دے؟ اتنا بھاری معاوضہ جنہیں دیا گیا ان کا مارکیٹ ریٹ کیا ہے؟
یہی نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی اطلاعات کے مطابق پی ٹی وی کی اس الیکشن ٹرانسمیشن کا صرف کھانے کی مد میں آخری دو دن کا بل 48 لاکھ روپے بنا۔ کیا کوئی ہے جو پی ٹی وی انتظامیہ سے پوچھ سکے کہ ان دو دنوں میں اس ٹرانسمیشن کے مہمانوں نے ایسا کیا کھا لیا کہ اس کا بل 48 لاکھ روپے بنا؟ یہ لوگ کھانا کھاتے رہے یا سارے معززین نے مل بیٹھ کر پیسے ہی کھائے؟ اس سارے پینل کو تمام شرکا کو اور ٹیکنیکل سٹاف کو اکٹھا کرکے کسی فائیو سٹار ہوٹل میں بند کر دیجیے اور اسے کہیے کہ دو دن جب اور جتنا اور جو چاہو یہاں سے کھا لو۔ پھر دو دن کے بعد حساب کر لیجیے کہ کیا وہ 48 لاکھ کا کھانا کھا گئے؟
ٹرانسپورٹ کا بھی سن لیجیے، سینیہ گزٹ کی خوف ناک چیزوں کو تو چھوڑ ہی دیجیے ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی اطلاعات کے مطابق ٹرانسپورٹ پر ایک کروڑ روپے کا خرچ آیا، قریب اتنا ہی خرچ لوگوں کی رہائش کی مد میں ڈالا گیا۔ یہ بے رحم اور سفاک اخراجات اس ادارے کے ہیں جو اپنے ذرائع خود تلاش کرنے کے قابل نہیں اور جسے چلانے کے لیے ہر گھر کے بجلی بل سے تیس روپے کا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ غریب اور مسکین لوگ بھی یہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کیا اس لیے کہ پی ٹی وی میں منظور نظر افراد کو نوازا جائے۔ کیا قومی اداروں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے؟ اور کیا ایسا سلوک کرنے والے قومی مجرم نہیں؟
ایسا ہر گز نہیں کہ پی ٹی وی میں قابل سٹاف نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کارندوں کو نوازا جاتا ہے اور اس انداز سے نوازا جاتا ہے کہ محنت کرنے والا کارکن مایوس ہو کر لا تعلق ہو جاتا ہے۔ ہزاروں میں پی ٹی وی کا سٹاف ہے لیکن ڈائریکٹر نیوز اور ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز اور اس جیسے عہدے پر باہر سے منظور نظر کارندوں کو لا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی وی کا اپنا ریگولر سٹاف جب موجود ہے تو باہر سے کنٹریکٹ پر لوگوں کو بھاری معاوضے پر لا کر کیوں بٹھایا جاتا ہے؟ جو بندر بانٹ پر اعتراض کرتا ہے نشان عبرت بنادیا جاتا ہے ا ور جو سہولت کار بن جاتا ہے وہ بیک وقت جی ایم، نیوز کنٹرولر اور ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز کے تین تین عہدوں پر فائز کر دیا جاتا ہے۔
پی ٹی وی ایک متفقہ چراگاہ بن چکا ہے۔ میرٹ نام کی یہاں کوئی چیز نہیں رہی۔ ہر حکومت اپنے منظور نظر لوگوں کو باہر سے لا کربٹھاتی ہے اور اس کی وجہ ان کی متعلقہ شعبوں میں مہارت نہیں ہوتی۔ یہ امور دیگر ہوتے ہیں جو ان لوگوں کو منصب پر لا بٹھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔
موجودہ معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ پی ٹی وی کو ایک چراگاہ کے طور پر چلایا جائے۔ اسے ایک ادارہ بنانا ہوگا۔ اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر سفید ہاتھی کو ختم کر دینا چاہیے۔ اس کا سنہرا دور گزر چکا۔ اب یہ ایک بوجھ ہے۔ سماج پر بھی اور قومی خزانے پر بھی۔ قومی زندگی میں اس کا مثبت کردار عرصہ ہوا ختم ہو چکا ہے۔ نہ یہ اچھے ڈرامے بنا رہا ہے نہ کوئی ڈھنگ کی ڈاکومنٹری بن رہی ہے۔ سیاحت سے سماج تک کسی موضوع میں اس کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں رہا۔ یہ صرف ایک چراگاہ بن چکا ہے۔ جہاں منظور نظر لوگ آتے ہیں تین چار ہفتوں میں اسی نوے لاکھ لے کر چلے جاتے ہیں۔
اب کچھ آئوٹ آف دی باکس سوچنا ہوگا۔ یا تو اسے ایک ادارے کے طور پر کھڑا کیا جائے اور بندر بانٹ کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے اور اگر یہ ممکن نہیں توجہاں سٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کی جارہی ہے وہیں پی ٹی وی کی بھی نجکاری کر دی جائے۔ جتنے وسائل اور انفراسٹرکچر اس کے پاس ہے، اس میں پاکستان کے تمام چینل چل سکتے ہیں۔ اگر پی ٹی وی اپنے لیے مالی امکانات خود تلاش نہیں سکتا تو بجلی کے بلوں کی مد میں مہنگائی کے ستائے لوگوں سے ٹیکس لے لے کر اسے کیوں چلایا جائے۔ بجا کہ ریاستی ٹی وی کو نجی ٹی وی کے کاروباری ماڈل پر نہیں چلایاجا سکتا لیکن اسے موجودہ طرز پر بھی نہیں چلایا جا سکتا جہاں قومی وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر بے رحمی سے منظور نظر افراد میں بانٹا جاتا ہے۔