کیا یہ پولیس ٹھیک ہو سکتی ہے؟
سادہ سا سوال ہے : کیا یہ پولیس ٹھیک ہو سکتی ہے؟ جواب اس بھی سادہ ہے: ہر گز نہیں۔ یہ محض بد گمانی نہیں، ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پولیس کا یہ ادارہ عوام دوستی، جرائم کے خاتمے یا انصاف کی فراہمی کے لیے بنایا ہی نہیں گیا۔ اس کا مقصد صرف اتنا تھا کہ قانون کے لبادے میں ایک ایسی فورس تشکیل دی جائے جو ظلم و بربریت اور اپنے طریق واردات سے اس بات کو یقینی بنائے کہ سماج فرماں بردار غلام کی طرح رہنا سیکھ لے اور کسی میں سر اٹھانے کی ہمت باقی نہ رہے۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا اس نے آج تک اس مقصد سے انحراف نہیں کیا۔ آئیے ذرا تاریخ کے اوراق میں پڑی اس حقیقت کو جھاڑ پونچھ کر ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔
یہ تو آپ سب کو معلوم ہو گا کہ 1857 میں ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ایک بغاوت ہوئی جسے بے رحمی سے کچل دیا گیا۔ تفصیلات میں جانے کا یہ وقت نہیں لیکن قتل عام اتنا شدید تھا کہ صرف اودھ میں ڈیڑھ لاکھ لوگ قتل کر دیے گئے جن میں سے ایک لاکھ نہتے سویلین تھے۔ نکی کرسٹی نے Britain: losing and gaining an empire، میں لکھا ہے کہ قتل عام سے جو بچ گئے انہیں مردوں کی لاشوں پر لگا خون چٹوایا گیا۔ شیفرڈ کیلون کی گواہی ہے کہ برطانوی سپاہیوں نے کہا جب ہم بچوں اور عورتوں کے سامنے مقامی لوگوں کا قتل عام کرتے تو یہ کسی ٹرافی ہنٹنگ سے زیادہ مزیدار کام تھا۔ اجتماعی عصمت دریاں کی گئیں۔ لوگوں کو توپ کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیاگیا۔ روس کے آرٹسٹ ویزلی ورشیگن نے جب ایسے ہی ایک منظر کی ایک پینٹنگ بنائی تو برطانوی حکومت نے اسے خرید کر ضائع کر دیا لیکن اس کے باوجود یہ پینٹنگ برطانوی درندگی کی یادگار کے طور تاریخ میں محفوظ ہو گئی۔ 1858ء میں اس بغاوت نے دم توڑ دیا۔ بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کو خونی دروازے پر لے جا کر قتل کر دیا گیا اور بادشاہ کو رنگون جلا وطن کر دیا گیا۔۔ 7 اکتوبر 1858ء کو شام چار بجے شہنشاہ ہندوستان بہادر شاہ ظفر رنگون روانہ ہو گئے۔ اب ہندوستان کا تخت ملکہ وکٹوریہ کا تھا۔
اب ایسٹ انڈیا کمپنی کی بجائے ملکہ نے ہندوستان چلانا تھا۔ پہلے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858ء نافذ کیا گیا اور پھر اس بات پر غور کیا گیا کہ ہندوستان میں ایک ایسا نظام لانا چاہیے کہ لوگوں میں بغاوت تو کیا سر اٹھانے کا امکان بھی باقی نہ رہے۔ چنانچہ 22 مارچ 1861کو ایک محکمہ قائم کیا گیا۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ محکمہ کون سا تھا؟یہ پولیس کا محکمہ تھا۔ اسی سال پولیس ایکٹ بھی متعارف کرایا گیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے 158سال قبل بنائے گئے پولیس کے ادارے کا آج کی پولیس سے کیا لینا دینا۔ لیکن آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وطن عزیز میں آج بھی پولیس اسی پولیس ایکٹ کے تحت کام کر رہی ہے جو 1861ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ پر ویز مشرف کے دور میں پولیس آرڈر 2002ء لایا گیا لیکن عملاً آج بھی وہی پرانا ڈھانچہ کام کر رہا ہے اور مزاج، اپنے قانون، اپنے طریق واردات کے اعتبار سے یہ وہی پولیس ہے جو معاشرے کو محکوم رکھنے کے لیے ملکہ وکٹوریہ نے بنائی تھی۔
مشرف دور میں جو پولیس آرڈر لایا گیا وہ بھی ایک مصنوعی اور جزوی تبدیلی تھی لیکن اٹھارویں ترمیم نے اس تبدیلی کا بھی کباڑہ کرد یا۔ اب پولیس صوبائی حکومتوں کا معاملہ ہے اور ہر صوبے کی حکمران طاقت کو پورا اختیار ہے وہ اس فورس کو جیسے چاہے چلائے۔ چنانچہ اس کے نتائج روز ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ کبھی سندھ میں پولیس کا فرض منصبی یہ ہو جاتا ہے کہ گنے کی ٹرالیاں مخصوص شوگر مل کی طرف ہانک کر لے جائے، کبھی سانحہ ماڈل ٹائون ہو جاتا ہے اور کبھی سانحہ ساہیوال قیامت ڈھا دیتا ہے۔ عام آدمی پر قہر اور عذاب بن کر ٹوٹ پڑنے والی پولیس کے اعلی افسر کو البتہ قید میں پڑے ہوئے حمزہ شہباز بھی سر عام جھاڑ پلا دیں تو وہ فدویانہ انداز سے مسکرا دیتا ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے اس کا کام عوام الناس کو ذلیل کرنا ہے حکمران طبقے کو نہیں۔ حکمران طبقے کی دہلیز پر پولیس صرف اس وقت دستک دیتی ہے جب اس حکمران سے قدرے زیادہ طاقتور حکمران آ چکا ہو۔ اس دوران بھی پولیس اہتمام رکھتی ہے کہ شاہی خاندان کا قیدی ناراض نہ ہو جائے۔ کیا پتا کل حکومت اسی کی ہو۔
یہ انتظام دو طرفہ ہے۔ چنانچہ جہاں پولیس عوام کو قابو میں رکھتی ہے، ایف آئی آر نہیں کاٹتی، جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیتی ہے اور اہل سیاست کی تھانہ کچہری کی سیاست کے شیطانی شکنجے میں ان کی معاون ہے وہیں اہل اقتدار بھی پولیس کی خدمات کا پورا صلہ دیتے ہیں۔ کبھی آپ اپنے اپنے اضلاع کے پولیس افسران کی ایکڑوں پر پھیلی رہائش گاہوں کو دیکھیں آپ کو معلوم ہو جائے گا اس ادارے کی حقیقت کیا ہے۔ دستیاب اطلاعات کے مطابق کمشنر سرگودھا کی رہائشگاہ 104 کنال پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہائوس کی چاردیواری 19 ایکڑ پر پھیلی ہے۔ ہر ایکڑ میں 8 کنال ہوتی ہیں۔ گویا وائٹ ہائوس کا رقبہ 152کنال ہے۔ اِدھر ہمارے ایس پی ساہیوال کا سرکاری محل 98 کنال کا ہے۔ ڈی آئی جی گوجرانوالہ کی رہائشگاہ کا رقبہ 70 کنال ہے۔ چند شہروں کے پولیس افسران کی سرکاری رہائش گاہوں کا رقبہ قریبا ڈھائی ہزار کنال ہے۔ جہاں ہزاروں خدام عوام کے ٹیکس پر ان کی خدمت بجا لا رہے ہیں۔ جتنے خرچے ان محلات پر ہو رہے ہیں ان اخراجات میں جانے کتنے ہسپتالوں کا نظام چلایا جا سکتا ہے۔
عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو خبر ملی انہوں نے ایسی تمام رہائشگاہوں کی تفصیل طلب کر لی ہے اور اب وہ ان کے بارے میں کوئی متبادل پالیسی لا رہے ہیں۔ سال سے اوپر ہو گیا کسی پالیسی کی کوئی خبر نہیں۔ شاید عمران کو بھی پتا چل گیا ہے حکومتیں پولیس کے ذریعے ہوتی ہیں اور پولیس کو خوش رکھا جاتا ہے۔