Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Kumrat

Kumrat

کمراٹ

تھل کے اُس پار جنت ہے۔ لوگ اسے کمراٹ کہتے ہیں۔ دریائے پنجکوڑا کا پل عبور کیجیے اور اس میں داخل ہو جائیے۔ آگے ایک پرستان ہے جو آپ کو حیران کر دے گا اور وجود ہی نہیں، آپ کی روح بھی سکینت سے بھر جائے گی۔

یہ انسانی فطرت ہے، وہ جس چیز کو دیکھنا چاہے اس کا ایک تصور تراش لیتا ہے اور جب حقیقت سامنے آتی ہے تو وہ اس تصور جیسی نہیں ہوتی اس لیے آدمی مایوس ہو جاتا ہے۔ میں نے بھی چشم تصور میں کمراٹ کا ایک منظر تراش رکھا تھا۔ اس منظر میں میرے خواب منقش تھے۔ ایک الگ تھلگ سی وادی ہو، اس میں میلوں تک پھیلا ایک گھنا جنگل ہو، جنگل میں ندیاں بہتی ہوں، پہاڑوں سے آبشاریں اترتی ہوں، جنگلی پھولوں سے وادی بھری ہو، وادی کی وسعتوں میں دریا بہتا ہو، دریا میں موتیوں جیسا صاف پانی ہو، دوردور تک کوئی انسان نہ ہو، بس ایک چرواہا ہو جو اپنے ریوڑکو دریا کے ساتھ پھیلی چراگاہوں میں چھوڑ کر بہتے پانیوں میں سے اپنے کھانے کو ٹرائوٹ پکڑ رہا ہو۔ جنگل، وادی، ندیاں، آبشار، دریا، پھول سب انسانی دسترس سے دور ہوں۔ گندگی کا کوئی نشان تک نہ ہو۔ جنگل اپنے قدیم حسن کے ساتھ موجود ہو اور اس جنگل کے ایک گوشے میں، صرف میں ہوں اور پہلو سے بہتے دریا کا شور۔۔ وقت یہیں تھم جائے۔ گھڑیاں رک جائیں اور وہ پہرکبھی ختم نہ ہو۔

کمراٹ بالکل ایسا ہی تھا۔ میرے تصور سے بھی حسین۔ میرے تخیل سے بھی سندر۔ کسی شاندار آرٹسٹ کو سامنے بٹھا کر اس سے اپنے خوابوں کی ایک دنیا کینوس پر اتروائی ہوتی تو وہ کمراٹ جیسی ہی ہوتی۔ میری چشم تصور کا سارا حسن کمراٹ میں تھا۔ بس یہ کمی تھی کہ وقت تھم نہ پایا اور دریا کنارے وہ پہر بھی آ کر چلے گئے۔ میں جہاں بیٹھا ہو، پاس سے دریا بہہ رہا ہے اور پہلو سے موتیوں جیسے پانی کی ندی وادی میں اتر کر اسی دریامیں امر ہو رہی ہے۔ خدا کی عطا میں کیا کمی ہے، جنگل میں بیٹھے یونہی ایک خیال آرہا ہے، روز محشر وہ مہربان ہو کر پوچھ لے مانگو کیا مانگتے ہو۔ میں کہوں : اے دو جہانوں کے مالک، 38 کلومیٹر کی یہ وادی کمراٹ مجھے عطا فرما دے۔

کمرٹ سے اپنا تعارف تین شخصیات کی وجہ سے ہوا۔ ایک عمران خان صاحب جو کمراٹ گئے تومیرے جیسوں نے ایک دوسرے سے حیرت سے پوچھا: یہ اتنا حسین علاقہ کہاں واقع ہے؟ دوسرے عظمت اکبر صاحب جو کمراٹ کے سفیر کی حیثیت سے لوگوں کو باور کراتے رہتے ہیں کہ کمراٹ کا راستہ مشکل ضرور ہے لیکن جہنم جیسے اس راستے کے اختتام پر جنت جیسی وادی بھی آپ کی منتظر ہے۔ اور تیسرے محمد علی صاحب جوجماعت اسلامی کے ٹکٹ پر اس علاقے کے منتخب رکن پارلیمان رہے اور وہ اپنے علاقے کی سیاحت اور جنگل کے تحفظ کے لیے جنون کی حد تک کام کر رہے ہیں۔

عمران خان صاحب جب کمراٹ آئے تو محمد علی ہی ان کے میزبان تھے۔ عمران خان چائے پینے لگے تو محمد علی صاحب نے ان سے کہا خان صاحب آپ دنیا کی سب سے مہنگی چائے پی رہے ہیں اور یہ ایک کپ چار ہزار روپے کا ہے۔ عمران خان نے حیرت سے چائے کا کپ میز پر رکھ دیا کہ اتنی مہنگی چائے؟ محمد علی نے انہیں بتایا کہ اس چائے کی تیاری میں دیار کی قیمتی لکڑی جلائی گئی ہے۔ اور اس کے دو فٹ کی یہی قیمت بنتی ہے۔ مزید یہ کہ چائے کو چھوڑیے یہاں کے لوگ سردیوں میں خود کو سردیوں سے بچانے اور عام دنوں میں بھی کھانا وغیرہ پکانے کے لیے یہی لکڑی استعمال کرتے ہیں۔ اگر یہاں لوگوں کو سولر پینل چولہے اور اس طرح کی کچھ سہولیات دے دی جائیں تو یہ لوگوں کے لیے بھی سہولت ہو گی اور جنگل بھی بچ جائے گا۔

شام ہوٹل گرینڈ پیلس میں، جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا، محمد علی صاحب بھی تشریف لائے اور کمراٹ پر گفتگو ہوتی رہی۔ یہ ہوٹل ان کے سیاحتی ذوق کا آئینہ دار ہے۔ میں نے پوچھا مہنگی ترین چائے کی کہانی سن کر عمران خان کا ردعمل کیا تھا؟ کہنے لگے اس وقت تو یوں سمجھیے کہ ایمر جنسی ہی نافذ ہو گئی تھی۔ عمران خان خوش تھے کہ آپ نے تو مسئلے کے ساتھ حل بھی بتا دیا۔ وہیں احکامات بھی جاری ہو گئے اور عمران خان نے وعدہ کیا کہ وہ واپس جاتے ہی جہانگیر ترین کے ذمے لگائیں گے کہ اس کام کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھیں لیکن اس کے بعد سے کوئی خبر نہیں کہ کیا ہوا۔

ہمارے دوست برادرم عظمت اکبر صاحب، اتفاق سے کمراٹ میں ہی تھے۔ ان سے تفصیلی ملاقات رہی۔ وہ ٹرپ ٹریلز کے سی ای او ہیں، سیاحت سے وابستہ ہیں اور کمراٹ میں برج الکمراٹ نام کے ایک کشادہ اور خوبصورت ہوٹل کے مالک ہیں۔ اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک سیاحت میں وہ ایک اتھارٹی ہیں۔ انگلش اخبار کے لکھاری ہیں اور سیاحت کے ڈان، ہیں۔ کمراٹ کی سیاحت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ محمد علی اور عظمت اکبر جیسے صاحبان یہاں موجود ہیں ورنہ تو عالم یہ ہے کہ بعض طاقتور لوگوں نے کمراٹ جنگل کے شروع میں ناجائز قبضے کر کے عجیب بے ہنگم سے ہوٹل اور کیمپ قائم کر رکھے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کمراٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اگر اس قبضہ گروپ کے آگے بے بس ہے تو عمران خان صاحب کو چاہیے وہ کے پی کے حکومت کو حکم دیں کہ اس خوبصورت جنگل کو ان قابضین سے نجات دلوائیں۔ کمراٹ ایک نیشنل پارک ہے اور اگر ہم اپنے نیشنل پارک کو ناجائز قابضین سے نجات نہیں دلا سکتے تو یہ ایک المیہ ہے۔

حسن اور علم مجھے متاثر کرتا ہے۔ مخاطب حسین ہو یا صاحب علم ہو، ہر دو صورتوں میں نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ کمراٹ کے حسن نے مجھے سحر میں لے لیا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے کو جی کر رہا ہو مگر الفاظ دستیاب نہ ہو۔ کمراٹ بھی ایسا ہی تجربہ ہے۔ کمراٹ کا حسن ایک کالم میں بیان ہو سکتا ہے نہ ایک نشست میں۔ یہ بیان کی چیز ہی نہیں، یہ مشاہدے کی چیز ہے۔ آئیے اور دیکھیے کمراٹ کیا ہے۔ یہ ایک وادی نہیں یہ خدا کی قدرت کی ایک نشانی ہے جس کا ایک ایک گوشہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے۔

کمراٹ کا سفر اسلام آباد سے قریب دس گھنٹے کا ہے۔ سوات موٹر وے سے چکدرہ تک، وہاں سے دیر کی جانب نکل جائیے۔ لوئر دیر سے آگے اور اپر دیر سے پہلے دائیں ہاتھ باب شرینگل ہے۔ دس منٹ کے فاصلے پر شرینگل یونیورسٹی ہے۔ یہاں تک آپ کے چھ گھنٹے لگتے ہیں اور یہاں سے کمراٹ قریب چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ لیکن یہ چالیس کلومیٹر چار گھنٹے میں طے ہوتے ہیں۔ راستہ کچا ہے اور خاصا مشکل ہے۔ رستے میں چند گائوں آتے ہیں، آخری گائوں کا نام تھل ہے۔ تھل تک آپ اپنی گاڑی پر جا سکتے ہیں۔ یہاں پارکنگز موجود ہیں، جہاں گاڑی کھڑی کر کے جیپ لی جا سکتی ہے۔

تھل کے اُس پاس جنت ہے۔ لوگ اسے کمراٹ کہتے ہیں۔ دریائے پنجکوڑا کا پل عبور کیجیے اور اس میں داخل ہو جائیے۔ آگے ایک پرستان ہے۔

Check Also

Insaan Rizq Ko Dhoondte Hain

By Syed Mehdi Bukhari