کلبھوشن جادیو: خواجہ آصف کیوں برہم ہیں؟
کلبھوشن جادیو کے معاملے پر خواجہ آصف صاحب کو ایون میں گرجتے برستے سنا تو احساس ہوا ایک نیم خواندہ سماج میں سیاست کرنا کتنا آسان ہوتا ہے۔ ابولکلام آزاد نے کہا تھا : سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سوچتا ہوں سینے میں دل بھلے نہ ہو، تھوڑی سی یادداشت تو ہونی ہی چاہیے۔ معلوم نہیں خواجہ آصف بھولے بہت ہیں یا ہشیار بہت، لیکن معاشرے کی اجتماعی یادداشت سے کلبھوشن کیس کی جزئیات ابھی محو نہیں ہوئیں کہ خواجہ آصف ہمیں اقوال زریں سنا کر محفل لوٹ لیں۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ مشاعرے کے بیچ صرف مکرر مکرر کی آوازیں بلند ہوتی تھیں، اب گاہے سوال بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
عمران خان نے کلبھوشن تک قونصلر کو رسائی کیوں دی اور حکومت کو عدالت میں کلبھوشن کے لیے اپیل کیوں دائر کرنا پڑی؟ اس کا سادہ سا سوال ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا۔ کلبھوشن جادیو کے معاملے کو جب بھارت عالمی عدالت انصاف لے گیا اس وقت مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ حکومت کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ اس عدالت کے حق سماعت پر اعتراض اٹھا دیتی اور کہہ دیتی کہ عدالت کا اس مقدمے کو سننے کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ کوئی نیا کام نہ ہوتا۔ 1990 میں جب رن آف کچھ کے علاقے میں بھارت نے پاکستانی نیوی کا جہاز مار گرایا تو پاکستان نے اسی عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا تھا۔ لیکن بھارت نے عالمی عدالت کا حق سماعت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی کام پاکستان بھی کلبھوشن کے معاملے میں کر سکتا تھا۔ خواجہ آصف کی جماعت کی حکومت نے یہ آپشن استعمال نہیں کیا۔ یہ کیسی بے نیازی ہے کہ خواجہ آصف اپنی حکومت کے ایک غلط فیصلے پر نادم ہونے کی بجائے ایوان میں کھڑے ہو کر عمران خان کے خلاف رجز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔
اب عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ دیا کہ کلبھوشن تک بھارت کو قونصلر رسائی دی جائے اور چونکہ اسے سزا ملٹری کورٹ سے ہوئی ہے تو اب کلبھوشن کو سول عدالت میں اپیل کا حق دیا جائے۔ پاکستان یہ دونوں کام کر رہا ہے۔ بھارت نے جان بوجھ کر معاملے کو خراب کیا ہے اور کلبھوشن کی اپیل نہیں کر رہا۔ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل کرنا ہے اور کلبھوشن کو اپیل کے مرحلے سے گزارنا ہے۔ بھارت پیچھے ہٹ گیا تو یہ کام پاکستان نے خود کر دیا اور عدالت سے کہا کہ کلبھوشن کو وکیل دیا جائے تا کہ اس کی اپیل سنی جا سکے۔ اس میں عمران خان کی بھارت نوازی کہاں سے آ گئی؟ جب حق سماعت کو چیلنج کرنے کا موقع تھا تب تو خواجہ صاحب کی جماعت سوئی رہی اور اب جب عمران کی حکومت عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل کر رہی ہے تا کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کا موقع نہ ملے تو خواجہ آصف صاحب نے آستین چڑھا لی ہے۔
کیا خواجہ صاحب یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل نہ کرے اور بھارت کے بچھائے جال کی تکنیکی بھول بھلیوں میں پھنس کر اپنا کیس خراب کر لے؟ کیا خواجہ صاحب کو معلوم نہیں کہ عالمی عدالت جب فیصلہ سنا دیتی ہے تو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 94 اور ویانا کنونشن کے آپشنل پروٹوکول کے تحت اس سے انحراف کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ محض ضابطے کی ایک کارروائی بھی نہ کی جائے اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو پامال کر کے پاکستان کی پوزیشن خراب کر لی جائے اور بھارت کو واک اوور دے دیا جائے؟
اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 94میں لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کی ہر رکن ریاست عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کی پابند ہو گی۔ عالمی عدالت کا فیصلہ جنرل اسمبلی کی قرارداد نہیں ہوتی کہ اس کی رسمی سی حیثیت ہو۔ آرٹیکل 94 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت اس فیصلے سے انحراف کی صورت میں دوسرے فریق کو براہ راست سلامتی کونسل سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔ خود تو خواجہ صاحب کی حکومت حق سماعت پر اعتراض کا دستیاب قانونی آپشن بھی استعمال نہ کر پائے اور عمران سے کہا جائے کہ وہ فیصلے پر عمل نہ کرے تا کہ بھارت معاملے کو سلامتی کونسل میں لے جائے؟ خواجہ صاحب نے پوچھا ہے : مودی کا یار کون؟ اول تو قومی قیادت ن کی ہو پی پی کی ہو یا تحریک انصاف کی مودی کا یار کوئی نہیں ہوتا لیکن اس سطحی سوال کا جواب حاصل کرنے پر اگر اصرارہے تو پھر صورت حال آپ کے سامنے ہے، جمع تفریق کر کے خود ہی دیکھ لیجیے کہ بادی النظر میں اس" منصب جلیلہ " پر کون فائز ہے۔
نیم خواندہ قوم کے المیے مختصر نہیں ہوتے۔ اہل ستم میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اسے فکری طور پر اپاہج رکھنا ہے تاکہ اس کا خوب استحصال کیا جا سکے۔ چنانچہ عالم یہ ہے کہ ایسی ایسی چیزیں ہمارے سیاسی بیانیے میں طرح مصرع بنی ہوتی ہیں علم اور معقولیت کی دنیا میں جن کا کوئی اعتبار ہی نہیں ہوتا۔ بیرون ملک جا کر عالمی میڈیا سے بات کرتے ہوئے سبھی معقول گفتگو کرتے ہیں، پاکستان میں سبھی کے ہاتھ میں ایک لٹھ ہوتا ہے اور جو جی میں آئے کہہ دیا جاتا ہے۔
امور خارجہ پر ہمارے ہاں سیاست فرمائی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سماج کا عمومی شعور امور خارجہ کی نزاکتوں کو سمجھ ہی نہیں پاتا۔ ان کے نزدیک سفارت کاری اور خارجہ امور بھی " جٹ دا کھڑاک" ہوتے ہیں جنہیں سلطان راہی کی طرح " گنڈاسہ" لہراتے ہوئے حل کرنا ہوتا ہے۔ عوام کے اس فکری استحصال پر سبھی کے ہاں اتفاق پایا جاتا ہے۔ چنانچہ معاملات کی تفہیم میں ہم دنیا سے کم از کم نصف صدی پیچھے ہیں۔ ایک خوفناک سطحیت نے ہمیں لپیٹ میں لے رکھا۔ اسی جہالت سے یہاں کاروبار سیاست مشروط ہے۔
دیکھ لیجیے، نیم خواندہ سماج میں سیاست کتنا آسان کام ہے؟ سیاست نہ ہوئی ہجوم گریہ کا ساماں ہو گیا۔