1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Hamari Jameat Mein Tehqeeq Kyun Nahi Hoti?

Hamari Jameat Mein Tehqeeq Kyun Nahi Hoti?

ہماری جامعات میں تحقیق کیوں نہیں ہوتی؟

مغربی ممالک میں جامعات کے اندر متنوع موضوعات پر تحقیق ہوتی ہے اور ہم آئے روزپڑھتے ہیں کہ فلاں یونیورسٹی میں فلاں موضوع پر تحقیق ہوئی اور یہ اس کے نتائج فکر ہیں۔ حتی کہ پاکستان کے آبی، معاشی اور سماجی مسائل پر بھی ہمیں غیر ملکی جامعات اور تحقیقی اداروں کی تحقیقات ملتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی جامعات کیا کر رہی ہیں؟

یاد نہیں کہ کبھی کسی سنجیدہ موضوع پر کوئی تحقیق قومی بیانیے کا حصہ بنی ہو اور ہمیں معلوم ہوا ہو کہ یہ فلاں یونیورسٹی کے فلاں شعبہ کے طلباء اور اساتذہ کی فکری کاوش ہے۔ مستثنیات یقینا ہوں گی لیکن عمومی تاثر یہی ہے کہ کسی قومی موضوع پر ڈھنگ کی کوئی فکری مشق کسی یونیورسٹی سے سامنے نہیں آ سکی۔

انتخابی اصلاحات، آئینی مبادیات، سماجیات، ماحول، سائنسی علوم کسی ایک موضع پر کسی ایک یونیورسٹی نے کوئی ایسا فکری اور علمی کام نہیں کیا، جس علم کی دنیا میں کوئی حوالہ بن سکے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں یوں بانٹی جا رہی ہیں جیسے جوتوں میں دال بٹ رہی ہو۔ لیکن ردی کے انبار میں اضافے کے سوا ان محققین کرام کی علمی کاوش کی ہے؟ مقالے لکھے جاتے ہیں اور پھر ردی کے ڈھیر میں دو چار کلومیٹر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان مقالہ جات میں اگر کوئی جان ہے اور ان کا کوئی وزن ہے تو یہ سامنے کیوں نہیں آتا؟

اگر یہ تحقیق اتنی ہی اعلی معیار کی ہے کہ پاکستان کا نیم خواندہ معاشرہ اس کو سمجھنے سے قاصر ہے تو کیا اس تحقیق کا بین الاقوامی سطح پر کوئی اعتبار ہے؟ ہماری جامعات سے دنیا کے کسی موضوع پر کوئی ایسی تحقیق ہے تو بتا دیجیے جو بین الاقوامی سطح پر علم کی دنیا میں کوئی حوالہ بن گئی ہو؟

افغانستان ہمارے پڑوس میں ہے۔ وہاں جنگ ہو یا امن ہمارے اوپر اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔ لیکن اتنے اہم تزویراتی معاملے پر تحقیق اور تجزیے برطانوی اور امریکی جامعات اور اداروں میں تو ہو رہے ہوتے ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ افغانستان کے بدلتے حالات پاکستان پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں لیکن خود پاکستان کی جامعات میں اس پر کوئی کام نہیں ہو سکا کہ پاکستان کے تزویراتی چینلجز کیا ہیں اور امکانات کہاں کہاں موجود ہیں؟ وطن عزیز کے دو چار اداروں میں جوعلمی، کام ہوو رہا ہے، وہ بھی بنیادی طور پر غیر ملکی اداروں کی تحقیق کیکاپی پیسٹ، ہی ہے۔ سوال یہ ہے ہماری اپنی فکر کہاں ہے؟ کیا ہم صرف نقال بن کر رہ گئے ہیں اور کیا تحقیق صرف دوسروں کی کاوش کی جگالی کا نام ہے؟ ہماری ندرت خیال کو کیا ہوا؟

کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ بھارت کی نئی قانون سازی سے کشمیر کی زمینی حقیقتیں کیسے بدل رہی ہیں اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے کیسے کیسے منصوبوں پر کام ہورہا ہے، اس مو ضوع پر جو تھوڑا بہت کام ہو رہا ہے ملک سے باہر ہو رہا ہے۔ سوال یہی ہے کہ ہمارے محققین اور ہماری جامعات میں کیا ہو رہا ہے؟

پاکستان میں سیلاب کے خطرات کی نوعیت کیا ہے، ماحولیات کو کیسے خطرات لاحق ہیں، موسم کیسے روٹھ رہے ہیں، خشک سالی کا بحران کیسا ہو سکتا ہے، غذائی بحران کی نوعیت کتنی سنگین ہونے جا رہی ہے، ان موضوعات پر کبھی کچھ درکار ہو تو بالٓاخر اگر کچھ ہاتھ آ ہی جائے تو کسی غیر ملکی ادارے ہی کوئی تحقیق ہاتھ آئے گی۔ آدمی پڑھتا ہے اور سوچتا ہے وطن عزیز کے محققین کرام کس قسم کی تحقیق میں مصروف ہیں؟ انہوں نے ڈھنگ کے کسی موضوع پر کام کرنا ہے یا ردی کا انبار لگانا ہے۔

تحقیقی مقالہ جات کے نام پر جعلی جریدے وجوومیں آ چکے ہیں۔ پیسے دے کر مقالات شائع کروائیے اور پھر محکمہ ایچ ای سی کے فارمولے کے تحت ترقیاں پاتے پاتے سینیئر، قسم کے پروفیسر بن جائیے۔ سوال مگر وہی ہے کہ اس قسم کے ڈاکٹر ز اور پرفیسرز کی قومی زندگی میں افادیت کیا ہے؟

آج ہی قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر عزیز الرحمن صاحب نے ہائر ایجو کیشن کمیشن کے ڈیٹا بیس میں شامل ایک جعلی جریدے کی اس واردات پر لکھا ہے کہ "یہ جریدہ جو ایچ ای سی کے HJRS ڈیٹا بیس میں شامل ہے ایک جعلی اور فراڈ جریدہ ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یہ فریبی یا predatory جریدے کی کیٹیگری سے بڑھ کر cloned جریدے کے زمرے میں آتا ہے۔ اس قسم کے جرائد اصلی و حقیقی جرائد کے ناموں کو اختیار کر کے ان کی طرح کی ویب سائٹس بنا کر مصنفین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتے ہیں۔ بعض قدیم و متروک جرائد کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

مذکورہ جریدے نے سن 2022 میں اب تک بارہ سے زائد ایشوز شائع کئے ہیں جن میں سوشل سائنسز اور آرٹس کے تقریبا ہر ڈسپلن کے ہزاروں صفحات پر مشتمل سینکڑوں مضامین شامل ہیں۔ پاکستان میں بہت سے predatory اور cloned جریدے اس وقت مشہور ہیں اور دھڑا دھڑ آرٹیکلز شائع کر کے لاکھوں روپے مصنفین سے پبلیکیشن فیس' پراسس فیس یا ایڈیٹنگ فیس کے نام پر بٹور رہے ہیں۔ چونکہ ان کا نام HJRS میں موجود ہے سو بظاہر فراڈ کرنے کے باوجود بہت سے مصنفین ان جرائد میں اپنے آرٹیکلز شائع کر رہے ہیں۔ اس سے قبل بی بی سی پر اس طرح کے جرائد کے بارے میں ایک رپورٹ بھی شائع ہو چکی ہے مگر ان جرائدکو HJRS سے ہٹانے کے بارے میں عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے اس طرح کے جریدوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ "

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ناک کے نیچے اگر تحقیق کے نام پر یہ واردات ہو رہی ہے تو جامعات میں علم دوست ماحول کیسے پروان چڑھ سکتا ہے۔ سوال وہی ہے کہ زندہ موضوعات پر ہمارے ہاں تحقیق کیوں نہیں ہوتی؟ اور جامعات میں جو تحقیق ہو رہی ہے اس کا معیار کیا ہے اور وہ تحقیق معاشرے کی حقیقی ضروریات سے کتنی ہم آہنگ ہے۔ قومی زندگی میں اس تحقیق کی کوئی افادیت ہے یا نہیں؟

یونیورسٹیاں علم و تحقیقق کا مرکز ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں انہیں طرح طرح کے انقلابات کے لیے اکھاڑا بنا دیا گیا ہے۔ کئی جامعات میں طلباء کے فکری استحصال سے ایشیاء کو سرخ کرنا چاہتا ہے تو کوئی سبز۔ ایشیاء کے منہ میں زبان ہو توو ہ ان دونوں سے پناہ مانگے۔ سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں طلباء کو قبضہ گروپ اور انقابی جتھوں کی شکل میں منظم کر دیا گیاہے۔ کوئی اسلامی انقلاب لانا چاہتا ہے تو کوئی لسانی انقلاب۔ کاش کوئی ایسا بھی ہوتا جو علمی اور فکری انقلاب کا خواہاں ہوتا۔

علم اس معاشرے کو ویسے ہی راس نہیں۔ اسے جنون اور جذباتیت راس آتی ہے۔ مقرر بھی اس سماج کو وہ نہیں چاہیے جو علم اور دلیل کی بات کرے، یہاں شعلہ بیان مقرر پسند کیا جاتا ہے۔ ابلاغ کی دنیا اہل علم کے لیے اجنبی ہو چکی۔ ایسے میں کیا ہمیں کسی آئن سٹائن کی ضرورت ہے جو آ کر بتائے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے؟

Check Also

Kitabon Ki Faryad

By Javed Ayaz Khan