امریکہ پیچھے کیوں ہٹا؟
ٹرمپ کا آگ اگلتا لہجہ اتنا متوازن کیسے ہو گیا اور امریکہ نے جوابی حملے کی بجائے اقوال زریں سنانے پر اکتفا کیسے کر لیا؟ کیا یہ جنگ پر آمادہ ایران کی قوت تھی جس نے امریکہ کو پسپا کر دیا؟ میرے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ٹرمپ کی افتاد طبع پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کا تدبر غالب آ گیا ہے تو اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ ایران کی فوجی طاقت امریکہ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اس وقت صدام حسین کے پاس دنیا کی چوتھی بڑی فوج تھی۔ اس کا جو انجام ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ ایران تو اپنی عسکری قوت کے اعتبار سے مصر سے بھی نیچے کھڑاہے۔ امریکہ کو اس سے کیسا خوف؟ آبنائے ہر مز کے حوالے سے ایران کی اہمیت اپنی جگہ لیکن امریکہ اس سے بڑی حد تک بے نیاز ہو چکا ہے۔
امریکہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت ہے۔ 2018ء میں ایران نے اپنی عسکری قوت پر 13 بلین ڈالر خرچ کیے۔ لیکن کیا ہمیں معلوم ہے اسی سال امریکہ نے اسی مقصد کے لیے کتنی رقم خرچ کی؟ 649 بلین ڈالر۔ یعنی ایران سے "صرف" 49 گنا زیادہ۔ یوں کہہ لیں کہ ایران جیسے 49 ملکوں کے برابر یا یوں سمجھ لیجیے کہ ایران کے 49 سالوں کے خرچ کے برابر امریکہ نے ایک سال میں اپنی عسکری قوت پر لگا دیا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے دونوں میں کوئی مقابلہ ہے؟
ایران کی تنہائی کا عالم یہ ہے کہ دنیا میں بشار الاسد کے شام کے علاوہ ایک ملک بھی کھل کر اس کے ساتھ نہیں کھڑا۔ دوسری جانب امریکہ کی قوت کا حجم دیکھیے کہ امریکہ سے باہر دیگر ممالک میں امریکی فوجی اڈوں کی تعداد 800ہے۔ ایران کا ایران سے باہر ایک بھی اڈہ نہیں۔ یورپ امریکہ کی پشت پر کھڑا ہے لیکن کوئی ایک ملک بھی ایران کا عسکری حلیف نہیں ہے۔ ایران کے باہر ایران کا عسکری اثاثہ کچھ طاقتور پراکسیز ضرور ہیں لیکن ان کے پاس کوئی ملک نہیں جس کی عسکری قوت ایران کا دست و بازو بن سکے۔
فضائی قوت جدید جنگ میں بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور ایران کا امریکہ سے یہاں کوئی مقابلہ نہیں۔ ایران کے پاس مجموعی طور پر 850 ایئر کرافٹ موجود ہیں جب کہ امریکہ کے پاس 12 ہزار سے زیادہ ایئر کرافٹ ہیں۔ ایران کے پاس قریبا سوا تین سو ہیلی کاپٹرز ہیں جب کہ امریکہ کے پاس ہیلی کاپٹرز کی تعداد پونے پانچ ہزار سے زیادہ ہے۔ معیشت کو دیکھ لیجیے۔ ایک امریکی ڈالر کے 42 ہزار ایرانی ریال ملتے ہیں۔ حالیہ تنائو کے چند ایام میں غیر سرکاری شرح تبادلہ بیالیس ہزار کے بجائے گر کر ایک لاکھ چالیس ہزار ریال ہو گئی تھی۔
ایران کے پاس البتہ بیلسٹک میزائل موجود ہیں اور اس شعبے میں اس نے خاصی ترقی کی ہے۔ اسرائیل اور جنوب مشرقی یورپ اس کے میزائلوں کی رینج میں ہیں۔ لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اپنی ساری تاریخ میں ایران اسرائیل پر ایک بھی میزائل فائر نہ کر سکا۔ اسے معلوم ہے کہ جو میزائل ایران سے اسرائیل جائے گا اسے اسرائیل روک لے گا لیکن جواب میں جو میزائل اسرائیل سے ایران آئے گا اسے روکنا ایران کے بس کی بات نہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی حفاظتی شیلڈ گویا عملی طور ایرانی میزائلوں کی افادیت بہت کم کر چکی ہے۔ پابندیوں کے شکار ایران کے میزائل کی تو معلوم نہیں کیا قیمت ہے لیکن اسرائیل نے آج ہی جو لیزر گائیڈڈ حفاظتی حصار متعارف کرایا ہے اس کے ذریعے ایرانی میزائل روکنے میں اسرائیل کے مبلغ ساڑھے تین ڈالر خرچ ہوں گے۔ یعنی لگ بھگ سوا پانچ سو روپے۔
کوئی سمجھتا ہے کہ ایران کی قوت سے امریکہ پسپا ہو گیا تو وہ جان لے وہ خود کو دھوکہ دے رہا ہے۔ ٹرمپ کا لہجہ تھم گیا ہے تو اس کی وجہ ایرانی عسکری قوت ہے نہ ہی آبنائے ہر مز پر اثر انداز ہونے کی ایرانی غیر معمولی صلاحیت۔ بات کچھ اور ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک حد سے زیادہ طاقتور ایران اگر امریکہ کے لیے خطرہ ہے تو ایک حد سے کمزور ایران بھی امریکی مفادات کے متصادم ہے۔ ایران مشرق وسطی میں غیر معمولی تصادم کا ایک بنیادی فریق ہے۔ ایک طرف ایران ہے اور دوسری جانب عرب دنیا ہے۔ مشرق وسطی سلگ رہا ہے۔ ایرانی پراکیسز کا کردار مشرق وسطی میں جتنا بڑھتا ہے عرب دنیا کی پریشانی بھی اتنی ہی بڑھتی ہے اور اس پریشانی کے عالم میں اسے امریکہ سے معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ معاملہ امریکہ کی مرضی کی شرائط پر ہوتا ہے۔۔ وہ اس سے محروم ہونا کیسے گوارا کرے گا؟
امریکہ ایران کو ایک حد سے زیادہ طاقتور ہوتا برداشت نہیں کر سکتا، اسے یہ گوارا نہیں کہ ایران ایٹمی قوت بن جائے اور اسرائیل کے لیے خطرہ بن جائے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ ایران کو دشمن سمجھنے کے باوجود اسے اس حد تک کمزور نہیں کرنا چاہتا جہاں عرب دنیا اس کے خوف کے اثرات سے نکل جائے۔ ٹرمپ سعودی عرب کو اگلے دس سالوں میں 350 ارب ڈالر کا اسلحہ بیچنا چاہتے ہیں۔ اس سال مشرق وسطی کے ممالک کو بیچے جانے والے امریکی اسلحے کی مالیت دگنی ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے سال دنیا بھر میں بیچے جانے والے امریکی اسلحے کا 22 فیصد صرف سعودی عرب نے خریدا تھا۔ 2013ء سے 2017ء تک امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار سعودی عرب تھا۔ عرب دنیا کا یہ خوف امریکہ کا بہت بڑامعاشی سہارا ہے۔ ذرا سوچیے، سعودی عرب، یو اے ای اور دیگر عرب ریاستیں اتنا بھاری اسلحہ کس لیے خرید رہی ہیں؟ انہیں فرانس سے خطرہ محسوس ہوتا ہے یا چین سے؟ افسوسناک حقیقت ہے کہ مسلم دنیا آپس میں دست و گریبان ہے۔ عرب ایران تنازعہ نہ ہوتا تو شاید عرب دنیا اتنا بھاری اسلحہ امریکہ سے نہ خریدتی۔ امریکہ اگر ایران کے خلاف عراق یا افغانستان جیسی کوئی غیر معمولی کارروائی کرتا ہے تو وہ خوف ختم ہو جائے گا جو عرب دنیا کو اربوں ڈالر کا امریکی اسلحہ خریدنے پر مجبور کرتا ہے۔ امریکہ اپنے ہاتھوں اپنی اس مارکیٹ کو کیوں گنوائے گا؟ ایران اسرائیل کے لیے چیلنج نہ بن سکے یہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہے۔ لیکن اس سے کم تر درجے میں ایران مشرق وسطی میں ایک قوت کے طور پر موجود رہے، یہ شاید امریکہ کی معاشی پالیسی کا بنیادی اصول ہے۔