والدین کی نعمت
بلاشبہ والدین اس کائنات میں سب سے بڑی نعمت ہیں۔ ماں کی مسکراہٹ آنکھوں کا نور ہے تو باپ کی ایک جھلک میں دل کا سرور ہے۔ ان کی موجودگی سے زندگی کے سارے رنگ ترنگ بھلے لگتے ہیں۔ انہیں کے دم سے ہی سفر زیست کے پہاڑ جیسے مسائل روئی کے گالے محسوس ہوتے ہیں اور ہمارے روز و شب کے سارے لمحات پوری رعنائیوں کے ساتھ ہماری راہوں میں گل و لالہ بکھیرتے نظر آتے ہیں۔
ان بے مثل ہستیوں کا وجود ہمارے لئے مشعل راہ بنا رہتا ہے اور ان کے سایہ عاطفت میں ہم آسمان سے آگے اور جہاں کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ ہمیں یہی لگتا ہے کہ زمین و آسمان کی وسعتوں میں جو کچھ ہے وہ ہمارے پاس ہے کیونکہ ماں باپ خزاں رت کی ساری ویرانی اپنے دامن میں سمیٹ کر ہر دم ہمیں بہاروں کے حصار میں لئے رکھتے ہیں۔
وہ سارے جہاں میں ہمارے برینڈ ایمبیسیڈر بن کر فخریہ انداز میں ہماری صلاحیت، ذہانت اور فطانت کے گن گاتے پھرتے ہیں۔ ہماری کامیابیوں کا رتی بھر کریڈٹ بھی خود نہیں لیتے بلکہ لوگوں کے سامنے کسر نفسی اور عاجزی کا استعارہ بن کر اپنے بچوں کی وہ خوبیاں بھی گنوانے لگتے ہیں جن کا سرے سے شاید ان میں وجود بھی نہیں ہوتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ صرف ماں اور باپ ہی وہ بے لوث رشتے ہیں جو اپنی اولاد کو خود سے زیادہ کامیاب دیکھ کر فخر کرتے ہیں۔ باقی تو ہر رشتے میں مقابلہ ہے، رشک ہے، حسد ہے، ضرورت ہے، لالچ ہے، دنیا داری اور ملاوٹ ہے۔ اخلاص، سچائی اور بے نیازی تو صرف ماں باپ کے رشتوں میں ہے۔ وہ کبھی اولاد سے اپنی قربانیوں کا صلہ نہیں مانگتے بلکہ تادم حیات ان کی ایک ایک سانس میں ان کے بچوں اور پھر ان کے بچوں کی عافیت، خوشی اور خوشحالی کی فکر نمایاں رہتی ہے۔
یہ کیسے انمول رشتے ہیں اور کس مٹی میں گوندھے ہوئے سراپا ایثار و محبت ہیں کہ سارے غم اپنے سینے میں دفن کرکے اپنی پریشانیوں کو گھول کر پی جاتے ہیں اور بچوں کے سامنے ہمہ وقت ایک مضبوط و توانا تصویر بنے رہتے ہیں۔ کبھی بیمار بھی پڑ جائیں تو اولاد سے ذکر تک نہیں کرتے، حتی کہ ہسپتال جا پہنچیں تو بھی اپنے بچوں کی فکر زیادہ کرتے نظر آئیں گے۔
آپ ان کے پاس ذرا دیر بیٹھیں تو فوراً آپ کو گھر روانہ کر دیں گے کہ گھر بچے اکیلے ہونگے اور آپ نے صبح سویرے دفتر بھی جانا ہوگا، جائیں وقت پر سوئیں اور نیند پوری کریں۔ وہ اپنے دکھ بچوں کے سامنے آشکارا نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے اپنی اولاد کی تکلیف برداشت ہوتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اس نعمت بے پایاں کو اولاد بسااوقات فار گرانٹیڈ لے لیتی ہے۔ جس طرح ہر اس چیز کے ساتھ ہوتا ہے جو آسانی سے میسر ہو جائے یا مفت ہاتھ آئے تو وہ اپنی قدر کھو دیتی ہے۔ ماں باپ کے رشتوں میں یہ دونوں عناصر فطری طور پر موجود ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر آئے روز ہمیں کئی اندوہ ناک واقعات سے آگاہی ملتی رہتی ہے جس میں بد کردار اولاد اپنے بد نصیب والدین کو تھانے کچہری میں ذلیل و رسواء کرتے نظر آتی ہے۔ کہیں باپ کو گھر سے نکال دیا گیا ہے تو کہیں ماں تشدد کا نشانہ بن چکی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بد قسمت ماں کو بیٹے نے موت کے گھاٹ اتارا تو موت کے منہ میں جاتے ہوئے بھی وہ اپنے قاتل بیٹے کو یہ کہتے ہوئے معاف کر گئی کہ دراصل اس کا بیٹا ذرا زیادہ جذباتی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ لرزہ خیز خبر وائرل ہوئی تو کئی روز دل میں عجیب سی اداسیوں کے ڈیرے رہے۔
اسی طرح چند ماہ قبل لاہور میں ایک بد قسمت صاحب حیثیت ڈاکٹر کو اس کے سگے بیٹے نے کرائے کے قاتلوں کی خدمات لے کر قتل کروادیا جس کو بر تھ ڈے پر سرپرائز دینے کے لئے اسی باپ نے کروڑوں کی گاڑی بک کروا رکھی تھی۔ آج کل پاکستان ٹیلی ویژن کا ایک نامور اداکار جس نے کئی دہائیوں سے اپنی جاندار اداکاری سے نہ صرف ٹیلیویژن سکرین بلکہ لاکھوں مداحوں کے دلوں پر راج کیا اپنی اولاد کے ہاتھوں رسوا ہو چکا ہے اور اس کے بچے اسے یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ آخر اس نے ساری زندگی ان کے لئے کیا کیا۔ وہ باپ جس نے اپنے پچاس سالہ طویل فنی سفر کے دوران اپنا سب کچھ اسی اولاد پر وار دیا جو اسے آج زمانے بھر میں سرعام بدنام کرتی پھرتی ہے۔
مگر اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ المیہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب والدین کی یہ نعمت خداوندی چھین لی جاتی ہے تو گویا پوری کائنات کی ساری خوشیاں اچانک ہم سے روٹھ جاتیں ہیں، زندگی کے سبھی رنگ بھیکے پڑ جاتے ہیں اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں۔ وہ منوں مٹی کی چادر اوڑھ کر ایسے نگر میں جا بستے ہیں جو ہم سب کی آخری آرام گاہ اور ابدی ٹھکانہ ہے۔
خوش نصیب وہ ہیں جنہیں والدین کی نعمت بے پایاں زیادہ دیر میسر رہے اور ان سے بھی زیادہ خوش بخت وہ ہیں جنہیں والدین کی آغوش محبت میسر ہوئی تو انہوں نے اسے غنیمت سمجھتے ہوئے ان کی خدمت، تابع فرمانی اور عزت واکرام سے اپنے لئے دونوں جہاں کی نعمتیں سمیٹ لیں۔ ہماری بد قسمتی کہ دست اجل نے ہمارے باپ کا سایہ عاطفت لگ بھگ چار دہائیاں قبل ہم سے چھین لیا مگر ہماری باہمت ماں کی سرپرستی اور شفقت نے ہمیں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی اور ہمیشہ ہمیں بے پناہ محبتوں سے نوازا۔
اس دنیا میں بھلا کون ہمیشہ رہنے کے لئے آیا ہے۔ گزشتہ سال انہی دنوں میں وہ بھی اپنے رب کے حضور پیش ہوگئیں اور تین دن بعد ان کی پہلی برسی ہے۔ آپ سب سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے کہ اللہ کریم ہمارے والدین سمیت سب مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔