کھلا ڑیوں کا انتخاب
جمعرات کو وزیراعظم عمران خان نے اپنے 8ما ہ کے دورحکومت کا سب سے بڑا دھماکہ کر ڈالا۔ علی الصبح انھوں نے اپنے اوپننگ بیٹسمین اسدعمر کو بلا کروزارت خزانہ کا قلمدان اچانک واپس لے لیا اور انھیں وزیر توانائی بننے کی پیشکش کی۔ حیران وششدر متنا زعہ وزیر خزانہ کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے۔ قدرے توقف کے بعد جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہو ئے انھوں نے وفاقی کابینہ سے ہی سبکدوش ہونے کی اجازت مانگ لی اوریوں لوٹ کر بدھو گھر کوآگئے۔ اقتدار کی طاقت بے رحم ہوتی ہے، اسد عمر خود کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے۔ عمران خان کی کچن کیبنٹ کے بعض سرکردہ ارکان اوراقتصادی مشیر تسلسل سے یہ کہہ رہے تھے کہ اگر معیشت کو بچانا ہے تو اسد عمر سے چھٹکارا حاصل کر نا ہو گا۔ میں چینل 92پر اپنے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے، میں دسمبر کے اوائل میں یہی بات کہہ چکا تھا کہ اسد عمر کو بالا ٓخر جانا ہو گا۔ بعدازاں میں نے8اپریل کو کچھ معلومات کی بنا پر بتایا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد اسد عمر فارغ ہوجائیں گے لیکن اسد عمر کی واشنگٹن روانگی کے بعد مخالف لابی مزید متحرک ہو گئی۔ ادھر خان صا حب کے دل میں بھی یہ احسا س جا گزین ہو گیا کہ پاکستانی معیشت کو ٹھیک کر نا یا آ ئی ایم ایف سے اچھی سودے بازی کر نا اسد عمر کے بس کی بات نہیں۔ گزشتہ اتوا ر کو ہنگا می طورپر بلا ئے گئے ایک اجلا س میں ان کی فراغت کا حتمی فیصلہ ہو گیا۔ اس دوران فو اد چودھری چیخ چنگاڑ کر کہہ رہے تھے کہ ایسی جھو ٹی خبر یں پھیلا نا قومی مفاد کے منا فی ہے اور میڈ یا کو اس قسم کی قیا س آرائیوں سے اجتناب کر نا چا ہیے۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ خود ان کی بھی چھٹی ہو نے والی ہے۔ پیر 15اپر یل کو میں نے اپنے پروگرام میں اپنی پہلی خبر میں ترمیم کر لی کہ اسد عمرکو آ ئی ایم ایف کے پیکیج سے پہلے ہی فارغ کیا جا رہا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ ا نھوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد ایک ٹویٹ کے ذریعے خوداپنی سبکد وشی کا اعلان کر دیا، بعدازاں دوپہر کو انھوں نے ایک پریس کا نفرنس بھی کی۔ جس کی خاص بات یہ تھی کہ سٹیج پر رکھی پانچ کر سیو ں میں سے چارخالی تھیں اور ایک پر اسد عمر حسر ت ویاس کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ جی ہاں !یہ وہی اسد عمر تھے جن کی میڈ یا ٹا ک کے دوران سٹاف کے علا وہ تحریک انصا ف کے کھلا ڑی اور خو اتین فوٹیج میں نمایاں ہونے کے لیے آگے آگے ہو رہے ہوتے تھے لیکن اب اسد عمر تنہا ہی میڈیا کے تابڑ توڑ سوالات کا سامنا کر رہے تھے۔ اسد عمر کو فار غ کرنا وزیر اعظم کا سیا سی فیصلہ تھا جس کا مقصد گزشتہ آ ٹھ ماہ کی بے تد بیریوں کا ملبہ ان پر ڈالنا تھا۔ 8ماہ کے دوران عمران خان اور اسد عمر سمیت حکمران جما عت کا بس یہی بیانیہ رہا کہ سابق حکومت اقتصادیات کا بیڑہ غرق کر گئی اوروطن عزیز کو اتنا مقروض کرگئی تھی کہ معاملات کو درست کر نے میں وقت لگے گا۔ سابق حکمرانوں نے کرپشن کی انتہا کردی تھی اور وہ سب کچھ ہڑپ کر گئے تھے۔ جزوی طور پر شاید بات درست بھی ہو لیکن اب تحر یک انصا ف کی حکومت ہے اور اسے اپنے اقدامات کا جواب دہ ہونا پڑے گا۔ شاید خان صاحب، اسد عمر اور قریبی مشیروں کوامید تھی کہ وہ جیسے ہی اقتدار میں آئیں گے ان کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی جا ئیں گی اور اتنا مال آئے گا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اسی لیے پہلے اعلان کیا گیا کہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں نہیں جائیں گے، کچھ عرصے بعد کہا گیا کہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں جارہے ہیں پھر یہ موقف اپنایا گیا کہ اس کی ضرورت نہیں، بالآخر احساس ہوا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ کا ر نہیں۔ کچھ اقتصادی ماہرین اورخان صاحب کی ٹیم کے اپنے ارکان اور مغربی سفارتکار انھیں یہ مشورہ دے رہے تھے کہ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد آ ئی ایم ایف کے پروگرام میں چلے جائیں جیسا کہ ان کی پیشرو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے کیا تھا لیکن اناڑی پن اور بول بچن پر مبنی منفی رویئے جس کے مطابق سابق حکومتوں نے ہر کام غلط کیا، ہم کیوں آئی ایم ایف کے پروگرام میں جائیں۔ بعدازخرابی بسیار جبکہ ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے، روپے کی قدر گرتی جارہی ہے، بے روزگاری اور مہنگائی زوروں پر ہے، ملک میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری رک چکی ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں شیئرز کی قیمت آدھی سے کم رہ گئی ہے۔ یہ بہانہ بھی گھڑاگیا کہ جی!ہم پہلے آئی ایم ایف کے پروگرام میں اس لیے نہیں گئے کہ امریکہ کا رویہ بہت سخت تھا لیکن اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ وزیراعظم عمران خان پر مہربان ہیں۔ عملی طور پر آئی ایم ایف نے جو پروگرام پاکستان کے لیے بنایا ہے اس میں سبسڈیز کا خاتمہ، سٹیٹ بینک کو مکمل آزادی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کے آزادانہ تعین، ٹیکسوں کا نیا نظام جس میں زراعت پر انکم ٹیکس بھی شامل ہو جیسی کڑی شرائط شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے مزید اصرار کیا گیا ہے کہ ان تمام شرائط کی تکمیل آ ئندہ بجٹ میں ہی کی جا ئے اور یہ بجٹ منظوری سے پہلے دکھایا جا ئے، اس کے بعد ہی آئی ایم ایف سے تین سال کے لیے قریبا ً9 ارب ڈالر ملیں گے۔ بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے ’سی پیک، چینی منصوبوں اور چین سے دفاعی تعاون کے حوالے سے بھی تفصیلات مانگی ہیں۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ شروع میں ہی کہہ چکے تھے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے چینی قرضے اتارنے کی اجازت نہیں دی جا ئے گی، جس کی حکومت پاکستان نے دوٹوک تردید بھی کی تھی۔ اس پس منظر میں جب عین آ ئی ایم ایف کی ٹیم معاملات طے کر نے کے لیے پاکستان آنے والی ہے۔ اسد عمر کی فراغت خاصی معنی خیز ہے۔ اسی شام دوسر ے وزراء پر جو نزلہ گرا وہ خاصا حیران کن تھا اور کابینہ میں ردوبدل کے ذریعے نئے چہرے ہونے کے باوجود جو اتنے بھی نئے نہیں تھے لائے گئے۔ وزارت خزانہ کا قر عہ فال ڈاکٹر حفیظ شیخ کے نام نکلا جو پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، اس سے پہلے وہ مشرف دور میں سندھ کے وزیر خزانہ اور بعد میں پرائیویٹائزیشن کے وزیر بنے تھے۔ وہ عا لمی بینک کے اعلیٰ عہد وں پرفائز رہے ہیں اب ٹیکنو کریٹ کی حیثیت میں پھر واپس آ گئے ہیں۔ فواد چودھری کو وزارت اطلاعات ونشریات سے ہٹا کر سائنس وٹیکنالوجی کا قلمدان دے دیا گیا ہے، ان کی تقرری پر آ ئی ٹی بورڈ کے سابق سربراہ عمر سیف نے ایک ٹویٹ کے ذریعے بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے" ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کی منسٹری لوگوں کو سزا کے طور پر دی جاتی ہے"۔ پیپلز پارٹی دور کی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان جوعام انتخابات سے چند روز قبل ہی تحریک انصاف میں شامل ہوئی تھیں وزیراعظم کی اطلاعات ونشریا ت کی معاون خصوصی بن گئی ہیں۔ غلام سرور خان جو دوحلقوں سے چودھری نثار کو شکست دے کر اسمبلی میں پہنچے تھے سے پٹرولیم کا قلمدان واپس لے لیا گیا ان کی جگہ ندیم بابر کو معاون خصوصی برائے پٹرولیم بنایا گیا ہے، موصوف اس سے پہلے شریف برادران کے غیررسمی مشیر رہ چکے ہیں۔ کرپشن کے الزام میں وزیر صحت عامر کیانی کو کابینہ سے فارغ کر کے صحت کا قلمدان بھی ایک ٹیکنو کریٹ ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا کو دے دیا گیا ہے۔ سب سے دلچسپ تقرری بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ کی ہے۔ موصوف جنرل پرویز مشرف کے قریبی دوست اور دست راست تھے، وہ اس دور میں پنجاب میں آئی ایس آئی کے سربراہ، سیکرٹری داخلہ اور بعدازاں ڈی جی انٹیلی جنس بیورو رہ چکے ہیں۔ عسکری حلقوں سے ان کی قربت کی بنا پر امید کی جا سکتی ہے کہ بطور وزیر داخلہ ان کا اداروں سے بہتر تال میل رہے گا، ان کی تقرری پر مسلم لیگ (ن) نے کسی ردعمل کا اظہارنہیں کیا لیکن پیپلزپارٹی یہ کہہ چکی ہے کہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ اگر انھیں کچھ ہو اتو اس کے ذمہ دار اعجاز شاہ ہونگے۔ اگرچہ اعجاز شا ہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ کر ہی اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ کابینہ میں ان تبدیلیوں کو ٹیکنوکریٹس کی حکومت سے ہی تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں عمران خان کی اس تڑی کوکہ جو ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا اسے تبدیل کردونگا سنجیدگی سے ہی لینا پڑے گا۔ انھوں نے حسب روایت کرکٹ کی مثال دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ کپتان اپنی ٹیم میں پرفارم نہ کرنے والے کھلاڑیوں کو فارغ کردیتا ہے۔ کرکٹ کی ہی مثال کو آگے بڑھایا جائے تو بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کھلاڑیوں کا انتخاب کپتان کے بجائے سلیکشن کمیٹی کرتی ہے۔ خدانخواستہ یہ نوبت نہ آ جائے کہ کپتان کو بھی ناقص یا عدم کارکردگی کی بنا پر گھر جانا پڑے۔