انتہا پسندی!
پاکستان سپر لیگ فور کا فائنل بخیروخوبی کراچی میں ہو گیا، سخت سکیورٹی کے باوجود سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پی ایس ایل کے انعقاد سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ پاکستان کے عوام اپنے مثالی اتحاد کے ذریعے دہشتگردوں کے دانت کھٹے کر چکے ہیں اور وہ دہشتگردوں کو اپنا مخصوص ایجنڈا ڈکٹیٹ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دینگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ایس ایل کے میچز کے انعقاد کیلئے کراچی کا انتخاب کیا گیا، یہ وہی شہر ہے جو 2013ء تک مذہب کے نام پر دہشتگردی پھیلانے والوں اور ایم کیو ایم کے بھتہ مافیا کا دو دہائیوں سے شکار تھا۔ اس وقت کی سویلین وفاقی و صوبائی حکومتوں اور فوجی قیادت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے کراچی کی روشنیاں بحال کیں۔ پی ایس ایل کے فائنل کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھی سٹیڈیم میں موجود ہونا علامتی طور پر اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ پاک فوج نے پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا ٹویٹ کہ" آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کی ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پی ایس ایل کا انعقاد اللہ کی رحمتوں کی بدولت ممکن ہوا، اللہ پاکستان کو ہمیشہ اپنی رحمت کے سائے میں رکھے"۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ انشاء اللہ اگلا پورا پی ایس ایل پاکستان میں ہوگا، انہوں نے پاکستان سپر لیگ فور کے کامیاب انعقاد پر پاکستان کرکٹ بورڈ، انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کو مبارکباد پیش کی۔ پی ایس ایل کے فائنل کا انعقاد لاہور میں طے ہوا تھا اور اس حوالے سے تیاریاں بھی عروج پر تھیں لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پاکستان کے خلاف بزدلانہ جارحیت کے بعد جس انداز سے فلائٹ شیڈول متاثر ہوا اور لاہور بھارتی سرحد سے کم فاصلے پر ہونے کے باعث اسے کراچی منتقل کرنا پڑا لیکن کراچی کے عوام نے لاہور سے بھی زیادہ غیر ملکی کھلاڑیوں کو والہانہ انداز سے خوش آمدید کہا۔ لیکن سانحہ نیوزی لینڈنے کسی حد تک پی ایس ایل کے فائنل کی تقریب کو گہنا دیا۔ فائنل سے دو روز پہلے جمعہ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد النور اور لینوڈو ایونیو میں ایک سفیدفام اسلام دشمن آسٹریلوی برینٹن ٹیرنٹ کے ہاتھوں قتل عام جس میں نو پاکستانیوں سمیت پچاس مسلمان شہید ہوگئے، اس سانحہ کا دنیا بھر میں سوگ منایا گیا اور دعائیہ تقریبات میں کئی رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ اس سانحہ کی مذمت کرنے والوں میں مغرب کے عام شہری جن میں مسیحیوں کے علاوہ یہودی بھی شامل تھے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے خاتون ہونے کے ناتے جس انداز سے مسجد النور پہنچ کر شہدا کے لواحقین کے زخموں پر پھاہا رکھنے کی کوشش کی، اس سے لگتا تھا کہ وہ واقعی ان کے غم میں برابر کی شریک ہیں۔ نیوزی لینڈ کو مغربی دنیا میں امن کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا، شاید اسی لئے اسلاموفوبیا کا شکار آسٹریلوی دہشتگرد درندے نے کرائسٹ چرچ کی مساجد کا انتخاب کیا۔ نیوزی لینڈ کی کابینہ نے اس واقعہ کیتحقیقات کیلئے کمیشن مقرر کر دیا ہے اس کے علاوہ نیوزی لینڈ کے’گن لاز، کو سخت بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سارے واقعہ میں بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کا بچ جانا ایک معجزہ ہے جو اسی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کیلئے تھوڑی سی لیٹ ہو گئی تھی لیکن یہاں ایک تلخ حقیقت کا ذکر کرنا بھی نامناسب نہ ہوگا کہ بنگلہ دیش کی ٹیم کئی بار دہشتگردی کے خطرے کا بہانہ بنا کر پاکستان میں کھیلنے سے انکاری رہی ہے۔ یقیناً کراچی میں پی ایس ایل اور کرائسٹ چرچ کے اس سانحے سے بنگلہ دیش کے کرکٹ کے کار پردازوں کو یہ احساس ہو ہی گیا ہو گا جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے سانحہ نیوزی لینڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ دہشتگردی کا کوئی مذہب یا علاقہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح 3 مارچ 2009ء کو لاہور میں دہشتگردوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کیا تھا لیکن ہمارے سکیورٹی اداروں بالخصوص پولیس کی بہادری کی وجہ سے مہمان ٹیم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ مئی 2002ء میں کراچی کے جس ہوٹل میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیمیں قیام پذیر تھیں اس کے گیٹ پر خود کش حملے کے باعث مہمان ٹیم کا یہ ٹور منسوخ کر دیا گیا تھا۔ کراچی میں ہونے والے ہلے گلے کے مابعد اسلاموفوبیا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف مغربی انتہا پسندوں کی یلغار کے محرکات پر سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایسا ملک ہے جس میں مذہب کی غلط تاویل کر کے دہشتگردی کا بازار گرم رکھا گیا، اس سے جہاں سکیورٹی فورسز سمیت ستر ہزار عام شہری شہید ہوئے وہاں ملکی معیشت کے علاوہ جسد سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اس سے آج تک نبرد آزما ہونے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ آج کل بھی پاکستان بعض جہادی گروپوں کی موجودگی اور ایف اے ٹی ایف کے تحت بلیک لسٹ ہونے کے حوالے سے خطرات کا شکار ہے۔ بدقسمتی سے اسلام کو دہشتگردی کے ساتھ غلط طور پر نتھی کرنے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپ کے کئی حکمرانوں اور سیاستدانوں کا گہرا ہاتھ ہے۔ کرائسٹ چرچ میں مسجدوں پر حملہ کرنے والا دہشتگرد امریکی صدر ٹرمپ کے مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف نفرت انگیز بیانئے سے خاصا متاثر تھا۔ اس نے سوشل میڈیا پر اپنا جو منشور جاری کیا اس میں امریکی صدر ٹرمپ کو سفید فام تشخص کے احیا کا پیامبر قرار دیا ہے۔ اس دہشتگرد نے فیس بک کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنی گھناؤنی واردات کی لائیو روداد بھی دکھادی جو بعداز خرابی بسیار سوشل میڈیا سے اتار دی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا دہشتگردوں کا ٹول بن چکا ہے اور اب یہ مطالبے ہو رہے ہیں کہ اس کے نفرت پھیلانے اور اس کے بے بہا اور بلا روک ٹوک استعمال پر کچھ قدغن ہونی چاہئے۔ 17 منٹ کی اپنی ویڈیو میں اس دہشت گرد کے مطابق ’مسلم حملہ آور، یورپ پر قبضہ کر رہے ہیں اور وہ برملا طور پر خود کو نازی ازم کا پیروکار کہتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے نسل پرستی اور تعصب کے زہر میں بجھے ہوئے کئی بیانات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب سفید فام انتہا پسندوں نے کچھ عرصہ پہلے امریکہ کے شہر Charlotte میں شب خون ماراتو امریکی صدر نے ٹویٹ کرتے ہوئے ان فاشسٹوں کی تعریف کی۔ اسی طرح ٹرمپ نے مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر ہر قسم کی پابندی لگانے کی پوری کوشش کی۔ ٹرمپ کی مسلم و سیاہ فام دشمنی، تارکین وطن کیلئے متعصبانہ رویے کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے سابق صدر باراک اوباما کو غلط طور پر مسلمان برانڈ کرنے کی کوشش کی۔ ٹرمپ کے قریبی حلقوں میں مسلمان دشمن افراد کی کمی نہیں، اسی طرح کا رویہ اختیار کرنے والوں میں یورپ کے کئی حکمران اور لیڈر بھی اسی صف میں شامل ہیں۔ لیکن مقام شکر ہے اس کے باوجود کہ ہمارے ہاں بعض حلقے مغرب کے رویے کو منفی انداز سے پرکھتے ہیں اور دوہرے معیار کے طعنے دیتے نہیں تھکتے۔ مغرب کے عوام کی کثیر تعداد جمہوریت، جمہوری اداروں، رواداری اور برداشت پر یقین رکھتی ہے۔ جس انداز سے نیوزی لینڈ سمیت مغربی ممالک کے عوام نے اسلامو فوبیا اور اس سانحے کی دو ٹوک اور بھرپور مذمت کی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہاں مسلمانوں سے نفرت کرنے والا فاشسٹ طبقہ جو عموماً بدنام ہے پنپ رہا ہے۔