یاددہانی
یہ نظم آج سے 49 برس پہلے سقوطِ ڈھاکا کے بعد ایک ایسے ہنگام اور ذہنی کیفیت میں لکھی گئی تھی جب اپنے آپ سے ایمان اُٹھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
اپنی اجتماعی گمراہی، بے بسی ا ور بد عملیوں کا احساس کچھ ایسا شدید تھا کہ یہ مکالمے اور خودکلامی کے درمیان ایک موج کی طرح خود ہی اپنا راستہ بناتی رہی۔ اس کا عنوان "فریب خوردہ نسل کا عہد نامہ" بھی اس کے اندر سے خود بخود نکل آیا۔
تب سے ہر سال دسمبر کے آخری دنوں میں اس کو پھر سے پڑھتا ہوں اور اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کہیں ہم بحیثیت قوم کسی ایسے رستے پر تو نہیں جا رہے جہاں ہمیں یا ہمارے بعد آنے والوں کو خدانخواستہ پھر کسی ایسے ہی عہد نامے کی ضرورت پڑ جائے، کہتے ہیں مومن کسی ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا تو یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے یا تو ہمیں اپنے اندر مومن کے اوصاف پیدا کرنا ہوں گے یا سوراخ کو بدلا جائے گا تا کہ اُس صورتِ حال کے اعادے سے بچا جا سکے۔
جس کی کوکھ سے اس نظم نے جنم لیا تھا نظم اگرچہ طویل ہے مگر اس کو پورا اور غور سے پڑھنے کے بعد ہی اُس جواب کو دریافت کیا جا سکتاہے جو اس کے اندر ہی کہیں موجود ہے اور بائی دی وے یہ اعترافِ جرم ہے تو بظاہر تخلیق کاروں کی طرف سے مگر اس کا اطلاق ہم سب پر ایک جیسا ہوتا ہے۔
ہم گنہگار ہیں
اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے جہاں تاب قصے لکھے
پھول چہروں پہ شبنم سی غزلیں کہیں، خواب آنکھوں کے خوشبو قصیدے لکھے
تیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گنا، تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھے
جن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں، ہم نے تیری جبیں پر وہ لمحے لکھے
جو تصور کے لشکر میں لڑتے رہے ہم وہ سالار ہیں
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں
جاگتی آنکھ سے خواب دیکھے، انھیں اپنی مرضی کی تعبیر دیتے رہے
ہم ترے بارور موسموں کے لیے بادِ صرصر میں تاثیر دیتے رہے
ہم اندھیرے مناظر کو روشن دنوں کی امیدوں سے تنویر دیتے رہے
تیرے ساحل کی آزادیوں کے لیے ہم تلاطم کو زنجیر دیتے رہے
جو ہمیشہ تجھے آرزو کے جھروکے سے تکتے رہے ہم وہ فنکار ہیں
اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں ہم تیرے دکھ سمندر سے غافل رہے
تیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئی اور ہم رہیں حدیثِ غمِ دل رہے
ظلم کے روبرو لب کشائی نہ کی، اس طرح ظالموں میں بھی شامل رہے
حشرآور دنوں میں جو سوئے رہے ہم وہ بیدار ہیں
اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
جب تیرے زرد پڑتے ہوئے موسموں کو مہکتی شفق کی ضرورت پڑی
ہم نے اپنا لہو آزمایا نہیں
تیری خوشبو سکُوں کی تمنا لیے آندھیوں کے جلو میں بھٹکتی رہی
ہم نے روکا نہیں
تیری مٹی نگاہوں میں بادل لیے خشک موسم کی رستے میں بیٹھی رہی
ہم نے دل کو سمندر بنایا نہیں
تیری عزت زمانے کے بازار میں دل جلاتی ہوئی بولیوں میں بکی
ہم نے کانوں میں سیسہ اتارا نہیں
ہم گنہگار ہیں اے زمینِ وطن! پر قسم ہے ہمیں اپنے اجداد کی
سرحدوں سے بلاتے ہوئے خون کی، اپنی بہنوں کی حرمت کی، اولاد کی
ہاں قسم ہے ہمیں آنے والے دنوں کی اور آنکھوں میں ٹھہری ہوئی یاد کی
تیرے دامن کے رسوائیوں کے نشاں
آنسوؤں کے سمندر سے دھوئیں گے ہم
آخری مرتبہ اے متاعِ نظر
آج اپنے گناہوں پہ روئیں گے ہم
تیری آنکھوں میں اب اے نگارِ وطن
شرمساری کے آنسو نہیں آئیں گے
ہم کو تیری قسم اے بہارِ وطن
اب اندھیرے سفر کو نہ دہرائیں گے
گر کسی نے ترے ساتھ دھوکا کیا تو وہ کوئی بھی ہو
اس کے رستے میں دیوار بن جائیں گے
جان دے کر تیرا نام کر جائیں گے
اس واقعے اور اس عہد نامے کی یاد دہانی ہر آنے و الے دسمبر کے ساتھ اور زیادہ ضروری ہوتی جا رہی ہے کہ بدقسمتی سے ہم نے اپنی غلطیوں سے سیکھا کم اور انھیں دہرایا زیادہ ہے۔ اگلے سال سقوطِ ڈھاکا کو پچاس برس ہو جائیں گے کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس آنے والے سال کے ہر دن کے ماتھے پر اس یاد دہانی کو ایک ایسے نقش کی طرح ثبت کر دیں جو ہمیں صبح و شام یہ یاد دلاتی رہے کہ ہم نے کبھی اپنے آپ سے اور اپنے وطنِ عزیز سے ایک ایسا وعدہ کیا تھا جسے نبھانا ہمارا فرض بھی ہے ا ور اعزار بھی۔