نصیر ترابی
جس تیزی اور کثرت سے اہلِ علم وفن گزشتہ ایک برس سے ہمارے درمیان سے اُٹھتے چلے جا رہے ہیں کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ اس کالم کا عنوان "چشمِ تماشا" کے بجائے "چشمِ گریہ" رکھ دیا جائے کہ ابھی ایک کا ماتم ختم نہیں ہوتا تو کسی دوسرے کی سناونی آجاتی ہے۔
جانا تو سب کو ہے اور اس حوالے سے کوئی بھی خبر کسی بھی وقت متوقع ہوسکتی ہے مگر جس طرح یار عزیز نصیر ترابی نے سب کو خداحافظ کہا ہے اُس پر اب تک یقین نہیں آرہا کہ چند دن قبل جب اُس سے فون پر بات ہوئی تو اُس کی آواز میں معمول سے بھی زیادہ زندگی اور گرمجوشی تھی، وہ ایک ہم عصر نامور مشترکہ دوست کے کچھ روّیوں سے نالاں تھا اور غصے میں اُس کے کچھ حالیہ بیانات پر تنقید کے ساتھ ساتھ اُس کی کچھ پرانی باتیں یاد دلا رہا تھا۔ یہ اس کا مخصوص انداز تھا کہ وہ اپنی ناراضی کو دل میں رکھنے کا سرے سے قائل نہ تھا یہ اور بات ہے کہ وہ ایک sorry پر راضی ہوجاتا تھا اور پھر سب کچھ ایسے بھول جاتا تھا جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
نصیر سے ابتدائی تعارف گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے آخری برسوں میں ہوا جب وہ کراچی میں عبیداللہ علیم، ذکاء الرحمن ا ور دیگر ساتھیوں کے ساتھ وہاں کی نئی نسل کا نمایندہ بن کر اُبھر رہا تھا اور اِدھر ہم پنجاب میں اپنی پہچان بنانے کے چکر میں تھے لیکن ہم میں ایک بات مشترک تھی کہ دونوں گروہ افتخار جالب اینڈ کمپنی کی مخصوص "مغربی جدیدیت"کے بجائے اپنی مقامی روایت کے تسلسل اور احیا کے حامی تھے اور چند معمولی سے اختلافات سے قطع نظر اس بات پر متفق تھے کہ ہماری اصل پہچان ہماری عربی، فارسی اور ہندی کی مشترکہ روایت ہی ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے تاریخ ساز جریدہ "فنون" کے جدید غزل نمبر سے جس رشتے کا آغاز ہوا آیندہ تقریباً پچپن برس تک اُس میں کم یا زیادہ اضافہ تو ہوتا رہا لیکن کبھی کمی نہیں آئی۔
کسی بڑے علمی خانوادے میں پیدا ہونے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ کو پہلے سے اونچی کی ہوئی بار تک پہنچنے میں دوسروں سے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور اکثر لوگ اس دباؤ کا سامنا نہیں کرپاتے مگر نصیر نے بہت نوجوانی کے دنوں میں ہی یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ اپنے والد رشیدترابی کی چھوڑی ہوئی عظیم روایت کا امین بھی ہے اور علم بردار بھی۔
اُس کے بارے میں یہ شکایت عام تھی کہ وہ اپنی ہی صحبت میں رہنا زیادہ پسند کرتا ہے لیکن اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ فروعات میں وقت ضایع کرنے کا قائل نہیں تھا صحبتِ ناجنس اور معمول کی محفل بازی سے اس گریز کی وجہ سے وہ مشاعروں میں کم کم نظر آتا تھا لیکن جو لوگ اُسے قریب سے جانتے ہیں وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ اپنی مرضی کی محفل میں وہ ایسے چمکتا تھا کہ "وہ کہے اور سُنا کرے کوئی"۔ فیس بُک اور سوشل میڈیا کا ایک روشن پہلو یقیناً یہ ہے کہ ان کی معرفت اب شاعر اور شاعری عام لوگوں کی دسترس میں بھی رہنے لگے ہیں اور وہ اشعار جو کتابوں اور مشاعروں کے حوالے سے بمشکل ہزاروں تک پہنچتے تھے اب لاکھوں بلکہ بعض صورتوں میں کروڑوں تک بآسانی پہنچ جاتے ہیں۔
نصیر کی بہت سی شاعری اُس کی یا کسی گلوکار کی زبانی اُس کی زندگی میں بھی گردش میں تھی مگر اُس کی اچانک وفات سے تو جیسے ایک سیلاب سا آگیا ہے اور اُس کے ایسے ایسے شعر بھی دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں جو کسی وجہ سے حافظے میں یا سامنے موجود نہیں تھے اسی طرح اُس کی بہت سی باتیں بھی پہلی بار سننے کو ملیں۔
آخر میں اس کے لیے مغفرت کی دعا کے ساتھ ساتھ میں اُس کے چند ایسے اشعار اپنے قارئین سے شیئر کرتاہوں جو شائد بہت زیادہ مشہور نہ ہوں مگر یہ کسی طرح بھی اس کے اُن اشعار سے کم تر نہیں جو فی الوقت سوشل میڈیا پر تکرار کے ساتھ پیش کیے جارہے ہیں۔
تم شہر آشنا ہو تمہی یک دلاں کہو
اب کون مہرباں ہے کسے مہرباں کہو
شہر میں کس سے سخن رکھیئے کدھر کو چلئے
اتنی تنہائی توگھر میں بھی ہے گھر کو چلیئے
پرائی آگ میں جل کر سیاہ پوش ہوئے
خود اپنی آگ میں جلتے تو کیمیا ہوئے
وہ بے وفا ہے تو کیا، مت کہو بُرا اُس کو
کہ جو ہُوا سو ہُوا، خوش رکھے، خدا اُس کو
وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا
ہوا کے ساتھ چلا، لے اُڑی، ہوا اُس کو
آخر کو وحشتوں کا سلیقہ سا ہوگیا
چلتے رہے تو راستہ اپنا سا ہوگیا
یوں دلد ہی کو دن بھی ہُوا رات بھی ہوئی
گزری کہاں ہے عمرگزارا سا ہوگیا
دِیا سا دل کے خرابے میں چل رہا ہے میاں
دیے کے گِرد کوئی عکس چل رہا ہے میاں
کچھ اُس کی کم سخنی پر بھی حرف آجاتا
میں بولتا تو مجھی کو بُرا کہا جاتا
کیا بڑے لوگ ہیں یہ عشق میں مارے ہوئے لوگ
اپنے امروز میں فردا کو گزارے ہوئے لوگ
تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے
جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے
دل کو بہاکے آنکھ کا سیلاب لے گیا
دریا سے تیز تر ہیں رووں کی روانیاں
جب اُس گلی میں نہ ہم جیسے وحشتی ہوں گے
تو دیکھنا درودیوار حسرتی ہوں گے
دیکھ لیتے ہیں اب اُس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے