ہمیشہ یاد رہنے والا دن
یوں تو سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ کوئی نہ کوئی غیرمعمولی واقعہ یا کسی عظیم شخصیت کا ذکر وابستہ نہ ہو مگر 25 دسمبر کئی اعتبار سے اہم اور منفرد ہے جہاں روحانی حوالے سے اس کا تعلق ربِ کریم کے فرستادہ ایک عظیم پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہے جن کی پیدائش کے حوالے سے تیار ہونے والا عیسوی کیلنڈر آج ساری دنیا میں رائج ہے اور جو کرسچن کمیونٹی کے ساتھ ساتھ ہم مسلمانوں کے لیے بھی خاص طور پر ایک محترم ہستی اور اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں میں ایک عظیم درجے کے حامل ہیں کہ اُن پر ایمان ہمارے ایمان کی شرائط میں شامل ہے۔
تو سب سے پہلے تو پاکستان اور دنیا بھر کے کرسچن بہن بھائیوں کو اس روزِ سعید کی بہت بہت مبارک اور دُعا کہ رب کریم ہم سب انسانوں کو ایک دوسرے سے مل کر اور باہمی عزت اور محبت سے اس زمین پر رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں نے چند برس قبل دنیا بھر کے افتادگانِ خاک کے لیے جنابِ مسیح کی ایک بہت خوب صورت دُعا کو منظوم کرنے کی سعادت حاصل کی تھی، سو آج کے دن کے حوالے سے اُسے دہرانا مناسب بھی ہے اور برمحل بھی۔ انگریزی میں یہ ایک لائن کی دُعا کچھ اس طرح تھی۔
O God forgive them for they know not۔ اس کا اُردو ترجمہ میں نے اس طرح سے کیا تھا:
اے خدا، اے خدا
اے رحیم و کریم و سخی اے خدا
ان کو ہر اک خطا کی معافی ملے
کہ درست اور غلط میں کہاں فرق ہے
اور کیا فرق ہے
یہ نہیں جانتے… یہ نہیں جانتے
جہاں تک "پاکستانی قوم" اور "قیام پاکستان" کا تعلق ہے، اس حوالے سے بھی یہ دن بہت غیرمعمولی اور رحمتوں والا ہے کہ آج سے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل اسی روز ایک ایسے شخص نے جنم لیا تھا جس پر یہ شعر پُوری طرح فٹ بیٹھتا ہے کہ
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کے لیے
آج صبح فیس بک پر نظر پڑی تو پتہ چلا کہ یہ کئی ایسے لوگوں کا یومِ پیدائش اور یومِ وفات بھی ہے جن سے ہم کسی نہ کسی حوالے سے کم یا زیادہ آشنا ہیں اور اُن میں سے کچھ تو ہمارے قریب ترین احباب میں سے ہیں، جیسے شاعروں میں آج عزیزہ عشرت آفرین اور امریکا ہی میں مقیم بیٹیوں کی طرح پیاری کنول جہانگیر اور اُن کے بیٹے رافع کی یہ سالگرہ ہے تو بھائی احمد بشیر کی یہ سولہویں برسی بھی ہے، سو اِن سب کے لیے مبارک اور دعائے مغفرت کے بعد ہم اُس عہدساز شخصیت کی طرف آتے ہیں جو اہلِ پاکستان کے لیے سب سے روشن ستارا بھی ہے اور امن اور آزادی کا استعارا بھی۔
بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد اُن کو زندگی اور صحت نے اجازت نہیں دی کہ وہ اس ملک اور معاشرے کو اُن خطوط پر استوار کر سکتے جس کے لیے اسے حاصل کیا گیا تھا، انھیں اس بات کا مکمل احساس اور ادراک تھا کہ امت مسلمہ کی تقریباً ہزار سالہ مجموعی خواب زدگی اور ہندوستانی مسلمانوں کی دو سو سالہ براہ راست انگریزی استعمار کی غلامی نے عمومی طور پر ہم سے سر اُٹھاکر جینے کا وصف اور وہ روشن وژن چھین لیا تھا جس سے قومیں بنتی اور معاشرے ترقی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود جو تیرہ ماہ انھوں نے آزادی کے بعد ہمارے درمیان گزارے، اُس میں انھوں نے مستقبل کے "پاکستانی معاشرے" کو قائم کرنے والے بہت سے اصولوں کی نشاندہی بڑے واضح انداز میں کردی تھی۔
میں آج بھی یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم بحیثیت قوم اُن کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے تو نہ تو وہ سب کچھ ہوتا جو ان 73 برسوں میں ہوا ہے اور نہ ہم آج اتنے مایوس، بے سمت اور منتشر ہوتے جیسا کہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے تمام اہلِ فکر و نظر دوسروں کے ساتھ ساتھ خود اپنے احتساب، ایک عوام دوست اور مبنی بر انصاف معاشرے کے قیام اور باہمی مکالمے کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی اپنی بات کو منوانے کے بجائے اُس مشترکہ حل کی تلاش کریں جس سے یہ معاشرہ اپنی فراموش کردہ مگر زندہ روایات کے جلائو میں اکیسویں صدی کے تمام تر چیلینجز کا سامنا کرنے کے قابل ہوسکے۔
زیارت ریذیڈنسی پر حملہ، جہاں قائد نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے تھے، بہت ہی تکلیف دہ واقعہ تھا مگر اُس کی اُسی انداز میں تعمیرنو اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ہم بنانے والوں کے ساتھ ہیں، ڈھانے والوں کے ساتھ نہیں۔ سو یہ نظم جو پرانی ریذیڈنسی کی مخصوص فضا میں لکھی گئی تھی، پھر سے توجہ کی مستحق ہے کہ اس میں قائد کے خواب اور تعبیرِ خواب کے ساتھ ساتھ اُن کی دُعا بھی ہمارے شامل حال ہے۔
یہیں کہیں تھی وہ خوشبو کہ جس کے ہونے سے
ہمیں بہار کے آنے کا اعتبار آیا
یہیں کہیں تھا وہ بادل کہ جس کے سائے میں
نجانے کتنی ہی صدیوں کے دھوپ کھائے ہوئے
ہر ایک دل کو ہر اک جان کو قرار آیا
یہیں کہیں کسی دالان میں رُکی ہوگی
سمے کے رُخ کو بدلتی وہ خوش خبر آواز
کہ جس نے چاروں طرف روشنی سی کردی تھی
کہ جس کو سن کے ہوا تھا یہ گل سفر آغاز
یہیں کہیں تھا وہ بستر کہ جس کی ہر سلوٹ
گماں میں رینگتے خدشوں کی اِک گواہی تھی
وہ دیکھتا تھا انھی کھڑکیوں کے شیشوں سے
سنہری دھوپ کے دامن میں جو سیاہی تھی
وہی فضا، وہی منظر ہے اور وہی موسم
پھر آج جیسے ستاروں سے بھر گئی ہے رات
اُتر رہی ہے تھکن بے جہت مسافت کی
مہک رہی ہے سماعت میں اُس کی ایک اِک بات
اُبھر رہی ہے کہیں دُور سے وہی منزل
کہ جس کو بُھولے ہوئے ہم کو اک زمانہ ہوا
یہیں کہیں پہ وہ لمحہ کھڑا ہے بادِ دگر
کہ جس نے بھیڑ کو اک قافلے کی صورت دی
کہ جس کے سائے میں یہ کارواں روانہ ہوا
کروں میں بند جو آنکھیں تو ایسا لگتا ہے
کہ جیسے رکھا ہو اُس نے دلِ حزیں پر ہاتھ
یہیں کہیں پہ جو اُس کے لبوں سے نکلی تھی
اُس دُعا کا اثر چل رہا ہے میرے ساتھ