بلاوضاحت
عام طور پر کسی تحریر سے لیے گئے کسی اقتباس کے لیے مختلف طرح کی وضاحتوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس اقتباس کے پسِ منظر اور پیش منظر کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس میں شامل کرداروں یا اُن کے بیانات کو بھی درست طریقے سے سمجھا جا سکے مگر اب یہ مسئلہ آن پڑا ہے کہ اگر میں اس کام میں پڑتا ہوں تو یہ سلسلہ جانے کتنے کالموں تک پھیلتا جائے کہ مسعود مفتی صاحب کی یہ کتاب "دو مینار" وطنِ عزیز کی تقریباً پوری تاریخ کا احاطہ ہی نہیں کرتی بلکہ اس میں اس قدر موڑ، واقعات اور کردار ہیں کہ جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر ایک کہانی ہے۔
سو میں نے بہت غور کرنے کے بعد اس کام میں نہ پڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کی ایک ضمنی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے مصنف خود ہر بات کو ترتیب اور وضاحت سے کرنے کے عادی ہیں چنانچہ بیشتر مقامات پر زیر بحث موضوع اپنے پسِ منظر اور بیان کی غایت کو خود بھی واضح کرتے جاتے ہیں البتہ اس اعتبار سے مجھے ایڈیٹنگ ضرور کرنا پڑی ہے کہ میرے منتخب کردہ اقتباسات کسی وضاحتی نوٹ کے بغیر بھی تیس سے اُوپر نکل گئے تھے، سو میں نے ا نہیں مختصر کرنے کے بجائے بہت سے ایسوں کو ڈراپ کر دیا ہے جن کا کوئی حصہ کسی اور اقتباس میں کسی نہ کسی حد تک بیان ہو گیا ہے۔ سو آیئے!اب ہم مزید وقت اور کالم کی گنجائش ضایع کیے بغیر اپنے مقصد کی طرف چلتے ہیں۔
"کہاں غلام ہندوستان کے بیرونی حاکموں کا نچلا آدمی اور کہاں آزاد پاکستان کے اندرونی حاکموں کا تم جیسا نچلا آدمی جس کے دور میں تاریکی پھیل رہی ہے ? میں نے چاہا کہ میں گلا پھاڑ کر اسے بلند آواز میں بتائوں کہ تمہارے نچلے آدمی کو تمہارا اوپر والا آدمی ریاست کے لیے سنوارتا اور تراشتا ہے مگر ہمارا اوپر والا آدمی ہمارے نچلے آدمی کو اپنی ذات اور اپنے مفادات کے لیے سُدھارتا ہے"
"علامہ مشرقی کا دستور تھا کہ ہر شام ملک کے جس شہر میں بھی موجود ہوتے وہاں بعداز نماز عشاء مقامی خاکساروں کے ساتھ عام سپاہی کی طرح پریڈ میں شرکت کرتے تھے۔ ایک دفعہ پریڈ کے دوران کسی بے ضابطگی کے مرتکب ہوئے تو سالارنے "جیش باش" کا حکم دے کر پریڈ روکی اور عام خطاکاروں کی طرح علامہ مشرقی کو بھی قطار سے باہر بلا کر اتنے ہی درّے لگائے گئے جتنے ایسی خطا کے لیے مخصوص تھے۔"
"نوگزے کی قبر کے پاس ایک پھل والے کی دکان تھی وہ اسے چھوڑ کر بھاگا اور جب گولیاں تھم جانے کے بعد دوبارہ واپس لوٹا تو اس کی نشست پر ایک آنے کا خون آلو د سکہ پڑا تھا اور ساتھ ہی ایک خاکسار کی لاش پڑی ہوئی تھی جو قیمت کی ادائیگی کے بعد دکان سے سنگترہ اُٹھا کر چھیلتے چھیلتے اپنی پیاس بجھانے سے پہلے ہی فوت ہو گیا تھا"
"بظاہر تو ایسے شیشے چند برس پہلے ایجاد ہوئے ہیں جن کے ایک طرف آئینہ سازی سے آپ اندر سے باہر تو دیکھ سکتے ہیں مگر باہر سے اندر نہیں دیکھ سکتے مگر یوں لگتا ہے کہ مسلم اُمّہ صدیوں سے ان شیشوں سے ملتی جلتی ذہنی کیفیت میں ایسے عجب انداز میں جکڑی ہوئی ہے کہ اسے اپنے بارے میں وہ کچھ نظر ہی نہیں آتا (بلکہ محسوس بھی نہیں ہوتا جو دوسروں پر روز ِروشن کی طرح عیاں رہتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ زبانِ خلق کے معاملے میں ہم "سُن تو سہی" پر آمادہ ہی نہیں ہیں کیونکہ ہمیں ملائیت کی اس خود فریبی نے جکڑ رکھا ہے کہ ہم خدا کی بہترین اُمت ہیں "
"ہمارے وطن کا مینار بھی اس ارتقائی انداز میں لاہور کی سرزمین پر 1940 میں اُٹھنے لگا تھا فرق صرف یہ تھا کہ اس کی Tectonic Plates ارضی اجزائے ترکیبی کے بجائے کئی تہذیبوں کے تار و پود اور تانے بانے سے بنی تھیں جن میں مخصوص تہذیبی تیور نظریات کے پتھریلے مواد، معاشرتی رویے اور قربت و دُوری کے گنجلک ایک دوسرے پر کیمیائی عمل کی طرح اثر انداز ہوتے رہے۔ باہمی محبتوں اور نفرتوں سے حاسدانہ اور رشک بھرے روّیوں کی غیر ہموار جنبش ان تہذیبی پلیٹوں کو خفیف حرکت دیتی رہی جس سے ان کے نفسیاتی اور جذباتی کنارے باہمی ٹکرائو سے اوپر اُٹھنے لگے جیسے قرن ہا قرن کے ماضی میں کوہ ہمالیہ کی چوٹی سطح زمین پر پہلے پہل نمودار ہوئی تھی"
"کول دراوڑ کے زمانے کے بعد سے بیسویں صدی کے وسط تک برعظیم ہندوستان ان گِنت حملے سہتا رہا، متعدد تہذیبوں کا گہوارہ بنا رہا تقریباً درجن بھر مذاہب کو اپنی گود میں پالتا رہا اس طویل ارتقائی عمل میں آریائی قابض صرف ایک ارتقائی کڑی تھے جس پر سے35 صدیوں کی زندگی گزر چکی ہے اس دوران دوسرے لوگ بھی اس طرح قابض رہے ہیں جیسے آریائوں کا قبضہ تھا اگر قبضہ ہی حق ہے تو دوسرے تیسرے چوتھے اور دیگر قابض کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا پہلے قابض کا تھا مگر وہ اب بھی پہلے دن کی طرح اس سرزمین کے کلی مالک ہونے کے دعویدار ہیں، نہ اپنے سے پہلے بسنے والوں کو قبول کرتے ہیں نہ اپنے سے بعد آنے والوں کو قبول کرتے ہیں۔"
"اس بات کو غلطی سے ہمیشہ مان لیا گیا ہے کہ مسلمان ایک اقلیت ہیں، مسلمان ہرگز ایک اقلیت نہیں ہیں بلکہ ہر لحاظ سے ایک قوم ہیں ہندوستان کے مسئلے کی نوعیت فرقہ وارانہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک بین الاقوامی نوعیت کا مسئلہ ہے اور اسی حیثیت سے اس پر غور ہونا چاہیے۔ ہندو اور مسلمان دو جداگانہ مذہبی فلسفوں، سماجی روایات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں، وہ نہ تو آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں اور نہ مل بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے جو بنیادی طور پر متصادم خیالات و تصورات پر مبنی ہیں۔ ان کا تصورِ حیات ایک د وسرے سے مختلف ہے۔ ان کی رزمیہ داستانیں، ہیرو، قصے اور تاریخ الگ الگ ہیں۔ اکثر ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہوتا ہے، اس طرح ان کی تاریخ میں ایک فریق کی فتوحات دوسرے کی شکست رہی ہے۔"
"پاکستان قائم ہوا تو اپنی ذات کی توسیع کے خواہش مندوں نے مختلف لبادے اوڑھ لیے اور مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے۔ مثلاً انگریزی سامراج کے خدمت گار وڈیروں نے "خاندانی" لوگوں کا چوغہ پہن لیا۔ صدر ایوب کے بیان کردہ جاہ طلب بونا پارٹ "اصلاحی چوغہ" زیب تن کرنے لگے۔ ملائیت نے مذہب کی عبا پہن لی اور منبر و محراب میں سج گئی اور مغلیہ دربار کے انحطاط کی باقیات نے "تہذیب" کی چادر اوڑھ لی جب تک انگریز کی تربیت یافتہ بیوروکریسی کا چلن قائد اعظم کی تقاریر کے مطابق رہا اور قواعد اور قانون کا پابند رہا وطن کا مینار بلند تراور مضبوط تر ہوتا رہا اور اس پوشیدہ خرابی کی تمام تر اشکال بھی زیرِ زمین پانی کی طرح ڈھکی چھپی رہیں مگر انگریز نے دو صدیوں کے دوران برعظیم کی سرزمین پر ریاستی نظام کے تراشیدہ پتھروں کا جو مضبوط فرش بنایا تھا اُسے توڑ کر یہ سطح زمین پر آنے کو بے تاب ہوتی رہیں۔"
1۔"برٹش دور کے عسکری اور جاگیرداری نظام دن بدن پختہ ہوتے گئے، پھر حصہ دار بن کر ایک دوسرے کو باہمی تقویت دینے لگے۔" 2۔"برٹش دور کی متروک پالیسی یعنی تقسیم کر کے حکومت کرو Divide and Rule ازسرِ نو زندہ کی جانے لگی جس کی ابتدائی شکل تو یہ تھی کہ دونوں حصوں کے سرکاری ملازمین اپنے اپنے حصے میں تعینات رہیں گے۔ 3۔ تعلیم کا رخ انگلش میڈیم اسکولوں کی طرف مُڑنے لگا کیونکہ سیاسی آزادی کے باوجود اب پابہ جولاں قوم پر لیڈروں کی غلامانہ ذہنیت نیچے کی طرف لپکنا شروع ہو گئی۔"4۔ سماجی اسلام کے نقیب ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو اسلامی ایڈوائزری کونسل کا سربراہ مقرر کرنے کے بعد مولویوں کے اعتراض پر فارغ کر دیا گیا اور عُلما کو برٹش دور کی فرقہ پرستی پھیلائے کی اجازت دے دی گئی۔ 5۔ برٹش ایمپائر کے انگریز حاکم جس من مانی کا تختہ، مشن، غلام قوموں کو بناتا تھا وہی من مانی اب پاکستانی حاکم اپنوں پر مسلط کرنے لگے۔
"کسی کا قول ہے کہ قومی قیادت کے لیے تین خصوصیات لازمی ہیں۔ دیانت، ذہانت اور قوت۔ ان میں سے دیانت سب سے اہم ہے کیونکہ اگر دیانت داری نہیں ہو گی تو باقی دو خصوصیات کا بھی بد دیانتی سے غلط استعمال ہو گا"۔