ایک نظر اِدھر بھی (2)
ماضی کے قصوں اور روائتوں کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی میں قسمت اور روحانی مدد کے کئی واقعات ایسے ہیں جو پہلی نظر میں ضعیف الاعتقادی کی پیداوار لگتے ہیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض احباب ایک باقاعدہ مشن کے تحت مذہب سے متعلق کچھ غیر متعلقہ مگر متاثر کرنے والی باتوں کو آپ کے ایمان کا حصہ بنا دیتے ہیں اور یوں روائت نہ صرف حقیقت کی جگہ لے لیتی ہے بلکہ بعض اوقات اُس سے بھی زیادہ مستحکم اور تقلید پرستی کی حامل بن جاتی ہے کہ اُس پر شک کرنا یا اُس کی کوئی عقلی یا علمی سند مانگنا ایمان کی کمزوری یا خدا کی موجودگی سے انکار تصور کیا جاتا ہے اور غالباً ایسے ہی لوگوں کے حوالے سے اکبرؔ الٰہ آبادی نے کہا تھا کہ
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
اب صورتحال یہ ہے کہ اس ردِّعمل کی عمومی فضا میں بہت سی اچھی اور دل کو چُھونے والی باتیں بھی محض اس لیے نظر انداز ہوجاتی ہیں کہ اُن میں کچھ بظاہر مافوق الفطرت یا غیر عقلی حوالے در آتے ہیں اور ہم اپنے نام نہاد عقل اور دلیل پسند روّیوں کی وجہ سے اُن سے متاثر ہونے اور ان میں موجود دل کو چھونے والی کیفیت کے باوجود اُن کے ذکر اور تائید سے محض اس لیے کتراتے ہیں کہ کہیں ہمیں بھی اوہام پسند یا ماضی پرست نہ سمجھ لیا جائے۔
عزیزی طاہر مسعود قریشی اکثر مجھے اس طرح کے واقعات بھجواتے رہتے ہیں جب کہ وہ ایک باقاعدہ پڑھے لکھے، زمانہ دیدہ اور حقیقت پسند انسان ہیں اور اپنے ایمان کو اتنا کمزور بھی نہیں سمجھتے کہ اُس کے نام پر ہر طرح کی بات کو ماننے پر مجبور یا قائل ہوجائیں۔ سو آج میں اُن کی بھجوائی ہوئی تین ایسی باتوں کو آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں جن کی کوئی عقلی دلیل یا تاریخی سند تو شائد نہ مل سکے مگر اُن کے اندر رُوح کو چُھونے والی جو صلاحیت اور کیفیت ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔
(1) مصر میں متعین سابق افغان سفیر شیخ صادق مجیدی کابل میں تھے کہ وزارتِ خارجہ کی طرف سے حکم ہوا کہ فوری طور پر ایک ضروری کام سے رُوس چلا جائے۔ وہ تیار ہوئے لیکن یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ غیر مسلم ملک ہے، وہاں اُن کا ذبیحہ تو مجھ سے کھایا نہیں جائے گا، گھر میں دو دیسی مرغیاں تھیں، بیگم نے ذبح کراکے زادِ سفر میں یہ کہتے ہوئے رکھ دیا کہ جب تک ان سے کام چلتا ہے چلائو آگے کا اللہ بندوبست کرے گا۔ وہ کہتے ہیں میں تاشقند پہنچا ہی تھا کہ وہاں کے ایک مسلمان شیخ نے گھر دعوت کی، اُن کے گھر جانے کے لیے نکلا ہی تھا کہ راستے میں ایک غریب عورت بھوک سے نڈھال اپنے بچوں کے ساتھ سڑک کنارے کھڑی تھی، میں نے بے اختیار وہ دونوں مرغیاں انھیں پکڑا دیں۔ ایک گھنٹہ نہیں گزرا تھا کہ کابل سے تار آئی کہ وہ کام جس کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا وہ ہوگیا ہے، آپ واپسی کی فلائٹ پکڑ لیں شیخ صادق مجیدی کہتے ہیں اس سفر کا مجھے کوئی اور مقصد سمجھ نہیں آیا سوائے اس بات کے کہ میرے گھر دو مرغیاں تھیں جو چار ہزار کلومیٹر دور کسی غریب ماں اور بچوں کا رزق تھیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کام کے لیے افغانستان سے تاشقند بھیج دیا کہ چل اس غریب ماں اور اُس کے بھوکے بچوں کو یہ رزق پہنچا۔ یاد رکھیں آپ کے نصیب کا لقمہ زمین کے جس حصے میں ہوگا اللہ تعالیٰ آپ تک پہنچائے گا۔
(2) میرا نام محمد بشیر ہے عمر 62 سال ہے، میں گوجرانوالہ گھنٹہ گھر کے پاس 1970 سے چاول کی ریڑھی لگایا کرتا تھا۔ وقت گزرتا گیا، شادی ہوئی اللہ نے دو بیٹیاں عطا کیں، اپنی حیثیت کے مطابق اُن کی پرورش کی، دونوں بچیاں جوان تھیں لیکن میرے حالات ایسے نہیں تھے کہ اُن کی شادی کرسکتا گھنٹہ گھر کے پاس ہی ایک مغل صاحب کی کپڑے کی دکان تھی، سن 2008 کی بات ہے وہ میرے پاس آئے اور کہا بشیر صاحب مجھے اپنے بیٹوں کے لیے آپ کی بیٹیوں کا رشتہ چاہیے۔ میرے لیے حیرت کی بات تھی مجھ غریب پر یہ کرم کیسے خیر گھر جا کے بیوی سے مشورہ کرکے ہاں کردی سال گزر گیا، وہ شادی کا تقاضا کرنے لگے اور میرے پاس دس ہزار روپے بھی نہیں تھے کہ میں بچیوں کو رخصت کر سکتا۔ ہم نے تاریخ طے کردی، 25 نومبر2009 شادی کوسات دن رہ گئے تھے، میں پریشان کہ اب کیا کروں میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مغرب کا وقت تھا، اپنی سوچوں میں گُم تھا کہ دروازے پر کسی نے دستک دی، دروازہ کھولا، سامنے ایک باریش نوجوان کھڑا تھا جس کو آج سے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ نوجوان بولا، بشیر صاحب کا گھر یہی ہے جو چاول کی ریڑھی لگاتے ہیں؟ جی میں ہی بشیر ہوں، میں نے جواب دیا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ بولا میں کراچی سے آیا ہوں اور دو دن سے آپ کو تلاش کر رہا ہوں، مجھے بتائیں آپ ایسا کیا عمل کرتے ہیں کہ مجھے مدینہ پاک سے حکم ملتا ہے گوجرانوالہ جائو ہمارے غلام کی مد د کرو، اُس کی بیٹیوں کی شادی ہے۔ عرض کی بیٹا میں تو بہت گنہگا ر ہوں، ہاں پچھلے 45 برس سے بلاناغہ سرکارؐ کی بارگاہ میں درودو سلام پڑھا کرتا ہوں اور تو کچھ نہیں وہ نوجوان رونے لگا، بولا جن پر آپ دُرود پڑھتے ہیں۔ انھوں نے ہی مجھے بھیجا ہے، اُس کے ہاتھ میں بریف کیس تھا، وہ مجھے دیا۔ مجھے گلے سے لگاکربِنا اپنا نام بتائے، مجھے مل کر رخصت ہوگیا۔ میں نہیں جانتا وہ کون تھا، کہاں سے آیا بعد میں بریف کیس کھول کر دیکھا، اُس میں تیس لاکھ روپے تھے اور ایک خط کہ آپ بچیوں کی شادی کریں یہ مدد وہاں سے ہے۔ میں نے بچیوں کی شادیاں کیں پھر حج بھی کیا، مدینہ حاضری بھی ہوئی اور آج میرا کاروبار بھی بہت اچھا ہے۔
(3) خلیفہ عبدالمالک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا، اُس کی نظر ایک نوجوان پر پڑی جس کا چہرہ بہت پُروقار تھا مگر وہ لباس سے مسکین لگ رہا تھا۔ خلیفہ عبدالمالک نے پوچھا، یہ نوجوان کون ہے؟ تو اُسے بتایا گیا کہ اس نوجوان کا نام سالم ہے اور سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا پوتا ہے۔ خلیفہ کو دھچکا لگا اور اُس نے اُس نوجوان کو بُلا بھیجا اور کہا کہ بیٹا میں تمہارے دادا سیدنا عمر فاروقؓ کا بڑا مداح ہوں اور مجھے تمہاری یہ حالت دیکھ کر بہت دُکھ ہوا ہے اور مجھے خوشی ہوگی اگر میں تمہارے کچھ کام آسکوں، تم اپنی ضرورت بیان کرو۔ جو مانگو گے تمہیں دیا جائے گا۔ نوجوان نے جواب دیا، اے امیر المومنین میں اس وقت اﷲ کے گھر بیت اﷲ میں ہوں اور مجھے شرم آتی ہے کہ اﷲ کے گھر میں بیٹھ کر کسی اور سے کچھ مانگوں۔ خلیفہ نے اپنے غلام سے کہا، یہ نوجوان جیسے ہی عبادت سے فارغ ہوکر بیت اﷲ سے باہر آئے، اسے میرے پاس لے کر آنا۔ سالم بن عبداللہ بن عمرؓ جیسے ہی فارغ ہوکر حرم کعبہ سے باہر نکلے تو غلام آئے، اُن سے کہا کہ امیر المومنین نے آپ کو یا دکیا ہے۔ سالم بن عبداللہ خلیفہ کے پاس پہنچے تو اس نے کہا "نوجوان اب تو تم بیت اﷲ میں نہیں ہو، اب اپنی حاجت بیان کرو۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں "سالم بن عبداللہ نے کہا، اے امیر المومنین آپ میری کون سی ضرورت پوری کرسکتے ہیں۔ دنیاوی یا آخرت کی؟ امیر المومنین نے جواب دیا کہ میری دسترس میں تو دنیاوی مال و متاع ہی ہے۔ سالم بن عبداللہ نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین دنیا تو میں نے کبھی اﷲ سے بھی نہیں مانگی جو اس دنیا کا مالکِ کُل ہے، آپ سے کیا مانگوں گا؟ میری ضرورت اور پریشانی تو صرف آخرت کے حوالے سے ہے اگر اس سلسلے میں آپ کچھ مدد کرسکتے ہیں تو میں بیان کرتا ہوں۔ خلیفہ حیران وششدر ہوکر رہ گیا اور بولا، نوجوان یہ تُو نہیں تیرا خون بول رہا ہے۔ یُوں ایک نوجوان حاکمِ وقت کو آخرت کی تیاری کا بہت اچھا سبق دے گیا۔