زمین کانمک
جناب احفاظ الرحمن کے بارے میں اگر ایک دو جملے لکھنے پڑیں تو یہی لکھوں گا کہ وہ ایسے بانکے سجیلے شمشیر زن تھے، جوآخری سانس، لہو کے آخری قطرے تک ڈٹے رہنے پر یقین رکھتے تھے۔ اپنی عملی، صحافتی زندگی میں انہوں نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے قلم سے تلوار کا کام لیا، وہی تیزی، وہی کاٹ۔
احفاظ صاحب سے میری پہلی ملاقات 2005ء کے اواخر میں ہوئی، ان دنوں ایکسپریس میں میگزین انچارج تھا، احفاظ الرحمن ایک اخبار سے ریٹائر ہوئے تو انہیں یہاں میگزین ایڈیٹر کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کراچی مقیم تھے، لاہور آفس ان کا آنا ہوا۔ میگزین سیکشن میں کئی گھنٹے ان کے ساتھ نشست رہی۔ یہ کسی میگزین ایڈیٹر کی اپنے ماتحت انچارچ میگزین کے ساتھ نشست نہیں بلکہ ایک سینئر صحافی کی اپنے سے پچیس تیس سال چھوٹے نوجوان اور کسی حد تک بڑبولے صحافیوں کے ساتھ محفل تھی۔ نہایت تحمل، برداشت، سکون سے انہوں نے ہماری سب باتیں، گلے شکوے، اعتراضات سنے۔ مجھے یاد ہے کہ جس میگزین کے وہ برسوں سربراہ رہے، اس کی لے آئوٹ، مواد اور انتخاب پر میں نے خاصی بے رحم تنقید کی۔ یہ تک کہہ ڈالا کہ اس میں بے تحاشہ خشک اور بور کر دینے والا مواد شامل ہوتا تھا۔ یہ نہ سوچا کہ جس شخص کی مرضی سے وہ مواد شائع ہوا، وہ اس وقت میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا مزے سے سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جا رہا ہے۔ سب باتیں سنتے رہے، پھر دھیرج سے بولے، آپ کے خیال میں سنڈے میگزین کو کیسا ہونا چاہیے؟ جو ہماری سمجھ میں آیا وہ کہہ ڈالا۔ ان کی بڑائی تھی کہ چھوٹوں کو شرمندہ نہیں کیا۔ حوصلہ افزائی کا یہ رویہ آخر تک برقرار رہا۔
سات برس تک ان کا ساتھ رہا۔ ہماری خوش قسمتی یا بدقسمتی کہ وہ کراچی میں تھے اور ہم لاہور میں۔ یوں ہمیں ان کے آئیڈیاز، گفتگو سے استفادہ کا موقعہ تو ملتا رہا، مگر ان کے اندر جو ایک سخت نظم وضبط کا پابند صحافی تھا، اس کے "مضمرات" سے ہم محفوظ رہے۔ کراچی میگزین کے دوستوں سے سے فون پر گپ شپ لگاتے توپتہ چلتا رہتا کہ کون کون احفاظ الرحمن صاحب کے ڈسپلن کی زد میں آتا رہا۔ عر بی شاعری کے مشہور مقامات حریری میں ایک جگہ کہانی کا کردار اساطیری جاہلی عرب شاعر زید بن ابی سلمہ کے بارے میں کہتا ہے، وہ شاعری کو گھلاتا تھا اور شاعری اس کو گھلاتی تھی۔ احفاظ صاحب بھی صحافت کی اس نسل سے تھے جو اپنے کام میں ہڈیاں، گوشت سب کچھ گھلا دیا کرتے، کام ان کے لئے عبادت کی طرح تھا اور وہ سوفی صد سے زیادہ ہی محنت کرنے کے قائل تھے۔ اسی معیار کا وہ اگلی نسل سے تقاضا کرتے۔ جو نوجوان ان کی کسوٹی پر پورا اترتا، اس کی بے پناہ حوصلہ افزائی کرتے، نئے آئیڈیاز دیتے، آگے بڑھنے کے مواقع پیدا کرتے، سالانہ انکریمنٹ کے موقعہ پر کچھ زیادہ کرانے کی کوشش کرتے۔ لیڈنگ فرام دی فرنٹ کی بات انہیں دیکھ کر سمجھ آتی تھی۔ ہر کڑے موقعہ پردیوار کی مانند سامنے کھڑے ہوجاتے۔ کراچی کی ٹیم میں اقبال خورشید اپنی محنت اور ٹیلنٹ سے احفاظ صاحب کے فیورٹ بنے، ویسے تواس ٹیم کے انچارج عثمان جامعی کی بھی ہمت ہے جو ان جیسے پرفیکشنسٹ کے ساتھ دس بارہ سال نبھاہ کر گئے۔
احفاظ صاحب کی کئی خوبیوں نے بڑا متاثر کیا۔ وہ نہایت دیانت دار اور بااصول صحافی تھے، انگریزی محاورے کے مطابق Dead Honest۔ انہیں کسی بھی قیمت پر خریدنا تو درکنار نرم کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ اپنے اصولوں میں وہ بڑے واضح اور یکسو تھے۔ طاقتور، استحصالی طبقات سے شدید نفرت کرتے۔ سامراج دشمن، عوام دوست، غریب نواز۔ ان میں شدت احساس بہت تھی، عام آدمی کا دکھ درد دل سے محسوس کرتے۔ ظلم اور جبر کے خلاف دل میں شدید نفرت تھی۔ یہی غصہ، نفرت اور تلخی ان کی تیز دھار نظموں میں اتر آتی۔ ان کی نظمیں پرشکوہ اور بلند آہنگ تھیں۔ تحریر میں بھی یہی تیزی اور کاٹ تھی۔ جب کالم لکھنے شروع کئے، تب مسائل پیدا ہوئے۔ سید عباس اطہر(شا ہ جی ) گروپ ایڈیٹر تھے، پیپلزپارٹی کا دور حکومت تھا، جناب زرداری ایوان صدر میں براجمان تھے۔ عباس اطہر صاحب پیپلزپارٹی حکومت کے زبردست حامی تھے۔ وہ حکومت کے خلاف کالم شائع نہ ہونے دیتے۔ ہم جیسے رخصت کی راہ اپنانے والوں نے سیاسی کالم لکھنے چھوڑ دئیے، اپنے لئے نئے موضوعات تلاش کر لئے۔ عبداللہ طارق سہیل اخبار کے ایڈیٹر تھے، ان کا تقریباًہر کالم ایڈٹ ہوتا، مگر عبداللہ طارق صاحب نے اپنی وضع نہ بدلی، پورے استقلال کے ساتھ وہ کئی برسوں تک روزانہ اسی اسلوب میں لکھتے اورہر روز شاہ جی تلملاتے، جھنجھلاتے ہوئے کالم جتنا ہوسکتا، کاٹ پیٹ ڈالتے۔ احفاظ الرحمن اور عباس اطہر صاحب نے ایک ساتھ کام کیا تھا، پرانا تعلق تھا، مگر شاہ جی نے احفاظ صاحب کے کالم بھی ایڈٹ کرنے شروع کر دئیے۔ احفاظ صاحب اس کے عادی نہیں تھے، ایک آدھ بار برداشت کیا، پھر جب ایک دن زرداری حکومت پر تنقیدی کالم ایک تہائی کے قریب کٹ گیاتو بڑے بھنائے۔ اگلے روزپیغام بھجوا دیا کہ میں نے اب نہیں لکھنا۔ شاہ جی یقینا اس پر مسرور ہوئے ہوں گے۔ احفاظ صاحب کی البتہ کیا رائے بنی ہوگی، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے مگر میگزین کے رنگین صفحات میں کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں مضامین لکھتے، تیز، کاٹ دار نظمیں لکھتے رہے۔
احفاظ الرحمن کی صحافتی زندگی کا بڑا اہم حصہ ٹریڈ یونین پالیٹکس ہے۔ وہ فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر بھی رہے، اس سے پہلے انہوں نے منہاج برنا کی قیادت میں طویل جدوجہد کی۔ ضیاء دور میں مساوات اخبار کی بندش کے لئے بڑی تحریک چلائی گئی، احفاظ صاحب برنا صاحب کے ساتھ گرفتار ہوئے، اسیر رہے۔ یہ وہی تحریک ہے جس میں جناب خاور نعیم ہاشمی سمیت چار صحافیوں کو کوڑوں کی سزا بھی دی گئی۔ احفاظ صاحب کو ضمیر نیازی مرحوم سے بھی شکوہ تھا کہ انہوں نے آزادی صحافت اور قید وبند کے حوالے سے اپنی کتابوں میں اتنی بڑی تحریک کو بالکل نظرانداز کیا۔ زندگی کے آخری برسوں میں اس تحریک پر کتاب "سب سے بڑی جنگ" تحریر کی۔ ذہنی طور پر احفاظ صاحب لیفٹ کے قریب تھے، سامراج دشمنی ان کے رگ وپے میں سرائیت کر چکی تھی۔ میگزین میں انہوں نے نوم چامسکی، ایڈورڈ سعید، البرٹ مائیکل، جون لینن وغیرہ پر شاندار تفصیلی مضامین لکھے تھے، یہ سب مضامین "جنگ جاری رہے گی " میں شامل کئے گئے۔ پرویز مشرف کے دور میں بحالی عدلیہ کی جدوجہد میں عملی طور پر شامل ہوئے، پولیس کے ڈنڈے کھائے، ایک احتجاجی جلسے میں ان کی زمین پر گری ہوئی ایک تصویر مشہور ہوئی تھی۔ احفاظ صاحب کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ بعض مذہب بیزار لیفٹسٹوں کی طرح اہل مذہب کی تضحیک کرتے نہ ہی کبھی کسی کے عقائد، سوچ کے حوالے سے کبھی کوئی جملہ کیا۔ زبان وبیاں کے حوالے سے بڑے محتاط اور سخت تھے۔ وہ اس لسانی تحریک کے نمایاں لوگوں میں سے تھے جو اردو کے بہت سے رائج الفاظ کو توڑ کر لکھنے کی ترغیب دیتی ہے کہ ان کی اصل یہی ہے۔ کامیابی کی جگہ کام یابی، کامرانی کو کام رانی، خوشبو کے بجائے خوش بو، مہنگی کی جگہ منہگی، بلکہ کی جگہ بل کہ۔ اہل کراچی کے ساتھ لاہور کے صحافیوں کا ایک دیرینہ تنازع تو الف کا ہے، اسپتال، ہسپتال، اسکول، سکول، اسپیشل، سپیشل وغیرہ۔ مسلکی اختلافات کی طرح ان لسانی مسائل پر بھی بے شمار بحثیں ہوچکی ہیں، مگر نتیجہ کچھ نہیں نکل پایا۔ الف کے پرانے جھگڑوں کے بعد یہ نئی توڑ پھوڑ ہمیں پریشان کرتی رہتی۔ احفاظ صاحب کا اصرار ہوتا کہ الفاظ کو اسی املا کے ساتھ لکھنا ہے۔ کبھی ہم مان لیتے، کبھی اپنی چلاتے۔
احفاظ صاحب کئی برسوں تک چین میں بیجنگ ریڈیو کے لئے کام کرتے رہے، چینی زبان بھی سیکھ لی۔ اس عرصے کا حاصل ان کی ترجمہ شدہ کئی کتابیں تھیں۔ چو این لائی کی یاداشتیں، چینی تاریخ پر کتاب کے ساتھ" ایک وارڈن کی ڈائری(انعام یافتہ چینی افسانے)"، سورج نکل رہا ہے (چینی ڈراما)، چاند گرہن(چینی افسانے)، چینی مسلمان اور دوشو، سات افسانے (سات ممتاز چینی افسانہ نگار خواتین)، گوڈر شاہ کے کارنامے (بچو ں کے لئے چینی ناول)، تارس بلبا(گوگول)، چین کی مقبول لوک کہانیاں، چرواہا اور عقاب (چینی لوک کہانیاں )وغیرہ ان میں شامل ہیں۔"نئی الف لیلہ"ان کا شعری مجموعہ جبکہ" زندہ ہے زندگی" اخبار کے لئے لکھی گئی نظموں پر مشتمل کتاب ہے۔
احفاظ الرحمن نے سادہ، بے عیب زندگی گزاری، وہ رات دس بجے سو جانے والے لوگوں میں تھے۔ سگریٹ نوشی ان کی سب سے بڑی کمزوری تھی، سگریٹ سے سگریٹ جلاتے، دن بھر میں دو تین ڈبیاں پھونک ڈالتے ہوں گے۔ اسی وجہ سے گلے کا کینسر ہوا، بڑی تکلیف سہی، آپریشن کے بعد سائونڈ کارڈ نکال دئیے گئے تو آواز بالکل بند ہوگئی، پرچی پر لکھ کر بات کرتے۔ پھر انکا بیٹا باہر سے ایک ڈیوائس لے آیا تو اس کے ذریعے کچھ گفتگو کرلیتے، دل کے بھی مریض ہوگئے، آخر صحت ایسی نہ رہی کہ کام کر پاتے۔ آخری دن گھر ہی پر گزرے۔ اخباری خبروں کے مطابق انہوں نے ستتر یا اٹھتر سال زندگی گزاری، مگرکیا واقعی وہ اتنے برس جیے؟ بعض لوگ اپنی ایک زندگی میں دو تین چار افراد کی زندگی جی لیتے ہیں، اتنا کام کر ڈالتے ہیں۔ احفاظ الرحمن بھی ایسے ہی ایک آدمی تھے۔ ایک بڑے آدمی، شاندار تخلیق کار، غیر معمولی شخص۔ ایسے جن پر صحافت فخر کر سکے۔ وہ ان منتخب لوگوں میں سے تھے، جنہیں زمین کا نمک کہا جاتا ہے۔ اللہ ان کی خطائوں سے درگزرکرے اور مغفرت فرمائے، آمین۔