یکساں قومی نصاب ، دو انتہائی مختلف اعتراض
تحریک انصاف کی حکومت پر بہت سے حوالوں سے تنقید کی جا سکتی ہے۔ اتنے زیادہ پوائنٹس ہیں کہ کسی بھی ناقد کے لئے یہ طے کرنامشکل ہوجاتا ہے کہ کونسانکتہ ابھی لے اور کن کو چھوڑ دے۔ دو تین کام البتہ ایسے ہیں کہ ان کی تحسین ہونی چاہیے۔ ان میں سرفہرست کورونا ویکسینیشن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پورا عمل نہایت شفاف، عمدہ اور منظم طریقے سے ہوا۔ جس کسی نے یہ ویکسی نیشن سکیم ڈیزائن کی اور اس پر عمل درآمد کا طریقہ وضع کیا، اسے ضرور ایوارڈ ملنا چاہیے۔ یہ شائد واحد کام ہے جس میں کوشش کے باوجود مخالفین کیڑے نکالنے میں ناکام رہے ہیں۔
دوسرا اہم کام یکساں قومی نصاب(سنگل نیشنل کریکولم) کی تشکیل ہے۔ اس پورے عمل کو بڑی ذمہ داری اور عمدگی سے سرانجام دیا گیا۔ یہ پراسیس ڈیڑھ دو سال تک چلتا رہا۔ تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی ہر اہم این جی او کو مشاورت میں شامل کیا گیا، سرکاری اور نجی سطح پر معروف ماہرین تعلیم اس میں شریک رہے، نصاب شائع کرنے والے کئی اچھے اداروں جیسے آفاق وغیرہ کو بھی آن بورڈ لیا گیا۔ بے شمار مصنفین جو برسوں سے بچوں کی کتابیں لکھ رہے ہیں، ان سے رائے لی گئی۔ مذہبی حلقوں کو تو خاص طور سے ہر مرحلے پر مشاورتی عملے میں رکھا گیا۔ خاصے لمبے چوڑے حساب کتاب کے بعد یکساں قومی نصاب کی تشکیل ہوئی اور پہلے مرحلے پر جماعت اول سے پنجم (پانچویں) تک کے نصاب کونافذ کر دیا گیا ہے۔ اگلے سال ان شااللہ چھٹی سے آٹھویں جماعت تک کا یکساں قومی نصاب نافذ ہوجائے گا۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد چونکہ تعلیم صوبائی شعبہ ہے، اس لئے وفاق نے صوبوں پر بہت زیادہ دبائو نہیں ڈالا، مگر پنجاب اور خیبر پختون خوا کے ساتھ وفاقی سکولز میں یکساں قومی نصاب نافذ ہوچکا ہے، آزاد کشمیر میں بھی اسی نصاب کے تحت کام شروع ہوگیا ہے، بلوچستان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے سال مارچ سے اپنے ہاں بھی یکساں قومی نصاب کو رائج کر دے گی۔ سندھ میں البتہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے کچھ تحفظات ہیں، اس لئے وہاں ابھی چیزیں اس طرح نہیں آ گے بڑھ رہیں۔
یہ نکتہ یاد رکھیں کہ بڑے لمبے چوڑے اور تفصیلی پراسیس کے بعدیہ یکساں قومی نصاب تشکیل کیا گیا ہے جسے سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر لازمی پڑھایا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں کوئی بھی سکول اس نصاب کو نظرانداز نہیں کر سکے گا، خواہ وہ کسی پسماندہ علاقے کا ٹاٹ سکول ہو یا پھر مہنگی فیسیں لینے والا کوئی نجی سکول۔ یہ نکتہ بڑا اہم ہے اور اس کی اہمیت کو اچھی طرح جاننا اور سمجھنا چاہیے۔ اس سے پہلے اس سطح پرایسی غیر معمولی کوشش نہیں کی گئی تھی۔
پنجاب ٹیکسٹ بورڈ ہمیشہ سے ایک خاص نصاب تشکیل دیتا ہے اور سرکاری سکولوں کے ساتھ بہت سے نجی سکولوں میں بھی وہ پڑھایا جاتا تھا، خاص کر درمیانے سطح کے کئی معروف سکول گروپ اپنے طلبہ کو پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی کتابیں ہی پڑھایا کرتے تھے، تاہم بہت سے سکولوں میں آکسفورڈ، کیمبرج اور دیگر غیر ملکی پس منظر رکھنے والے ناشر اداروں کی کتابیں پڑھائی جاتیں۔ ان کتابوں میں جو بھی مواد ہو، اس پر کسی قسم کی روک ٹوک موجود نہیں تھی۔ اب ایسا نہیں۔ اب ہر نجی سکول کو یہی نصاب پڑھانا پڑے گا۔ اسی وجہ سے ایچی سن کالج جیسے اشرافیہ کے ادارے بھی پریشان ہیں کہ ہم پر بھی یہ نصاب نافذ ہوجائے گا۔ ہر جگہ نافذ کرنے میں ممکن ہے تھوڑا بہت مزید وقت لگ جائے، مگر فیصلہ یہی ہے کہ ہر پاکستانی کو یہی یکساں قومی نصاب پڑھنا پڑے گا۔
اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں سختی سے اس پر عمل درآمد کرائیں اور یکساں قومی نصاب کی پابندی نہ کرانے والے مشہور اور مہنگے سکولوں کو بھی بند کرنے کا حوصلہ رکھیں تو یہ یکساں نصاب ہر جگہ نافذ ہوجائے گا۔ ایسا کرتے ہوئے یہ بھی خیال رکھا گیا ہے کہ بعض معروف اشاعتی اداروں جیسے آکسفورڈ، کیمبرج، آفاق وغیرہ کی کچھ عمدہ کتابوں کو بھی اپروو کرتے ہوئے این او سی دے دیا گیا۔ بعض حلقے اس پر تنقید کر رہے ہیں، مگر مجھے ذاتی طور پر اس میں کوئی برائی نظر نہیں آئی۔ مثال کے طور پر اگر آفاق نے کسی کلاس کے لئے میتھ کی اچھی کتاب تیار کی ہے یا آکسفورڈ، کیمبرج کی سائنسی موضوعات پر بعض عمدہ کتابیں ہیں جو یکساں قومی نصاب کے بنیادی اصولوں اور فریم ورک سے میچ کرتی ہیں تو انہیں پڑھانے کی اجازت کیوں نہ ملے؟ اصل مقصد تو طلبہ کو اچھی، معیاری، بامقصد تعلیم دینا ہے، وہ پورا ہونا چاہیے۔ ایک دینی جریدے میں تنظیم اساتذہ پنجاب کے کسی عہدے دار کامضمون چھپا، جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا کہ یہ بڑے پبلشر اور بڑے سکول اپنے تعلقات کی وجہ سے این او سی لے لیں گے اور یوں قومی نصاب کی یہ پوری کاوش ناکام ہوجائے گی۔ یہ بات عملی طور پر درست نہیں۔ این او سی لینے کا پورا پروسیجر ہے، دو تین ریویو کمیٹیاں ہیں، ماہرین کی مشاورت، رائے اور پھر نظرثانی کے بعد ہی کسی کو این اوسی مل سکے گا۔ اس لئے خواہ مخواہ کے خدشات سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ زندگی سازشی نظریات سے بسر نہیں ہوتی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قومی نصاب پر دو متضاد قسم کے کیمپوں سے اعتراضات آ رہے ہیں۔ واٹس ایپ گروپوں میں بعض نامعلوم لکھاریوں کے مضامین گردش کر رہے ہیں۔ ایک حلقہ یہ ہے جس کے خیال میں چونکہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود ایک سیکولر شخص ہیں، عمران خان کی حکومت میں لبرل، سیکولر وزرا اکثریت میں ہیں، اس لئے اس نئے قومی نصاب میں یقینا بہت کچھ گڑ بڑ ہوئی ہوگی۔ بعض ٹریڈیونینسٹ ٹائپ اساتذہ اور یکساں نصاب کی وجہ سے خسارے میں جانے والے کچھ فرسٹریٹ ناشر بھی اس پروپیگنڈے کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ ان کا اعتراض ہے کہ فلاں جماعت کی کتاب سے فلاں اسلامی موضوع ہٹا دیا گیا ہے، قرآن پاک کی فلاں آیات اور احادیث کو شامل نہیں کیا گیا، کسی کتاب سے نشان حیدر والے ایک قومی ہیرو کو نکال دیا گیا، حکومت لگتا ہے جہاد کے نام سے الرجک ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ٹھیٹھ مذہبی کیمپ یا ہمہ وقت سازشی نظریات میں بسر کرنے والے کاغذی انقلابیوں کی یہ تنقید بڑی حد تک بلاجواز اور حقیقت سے بے خبری کی وجہ سے ہے۔ اس موضوع پر پچھلے کچھ عرصے سے کام کر رہا ہوں، اس شعبے سے تعلق رکھنے والے بعض مصنفین سے بھی بات ہوئی ہے، ان تمام اعتراضات کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔
دوسرا اعتراض بالکل ہی دوسری انتہائی قسم سے کیا گیا ہے۔ ہمارے لبرل، سیکولر کیمپ کی جانب سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ یکساں قومی نصاب میں مذہب اسلام کو ضرورت سے زیادہ جگہ دے دی گئی ہے۔ ان لوگوں کا اعتراض ہے کہ اسلامیات کے علاوہ اردو، انگریزی، معاشرتی علوم وغیرہ میں بھی مذہبی مواد شامل کر دیا گیا ہے۔ اگلے روز ایک ٹی وی ٹاک شومیں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جنہیں اپنے سبجیکٹ فزکس کے سوا دنیا کے ہر موضوع پر بولنے کا شوق ہے، وہ بھی خوب گرجے برسے۔ سرخ چہرے اور ابلی آنکھوں سے ساتھ چیختے چلاتے پرویز ہود بھائی کا بس نہیں چلتا تھا کہ نیا نصاب بنانے والوں کے خلاف کوئی تکفیری فتویٰ جاری کر دیں یا انہیں اٹھا کر بحرہند میں پھینک دیں۔
اپنی "عالمانہ"، " فاضلانہ " گفتگو میں انہوں نے یہ فرمایا کہ پہلے یونیورسٹیوں میں لڑکیاں نارمل ہوا کرتی تھیں، آج کل تو کلاس میں زیادہ تر لڑکیاں حجاب پہن کر آتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کی کلاس میں سرگرمی اور شمولیت بہت کم ہوگئی ہے۔ پرویز ہود بھائی کے اس انتہائی جاہلانہ، متعصب اور صنفی تعصب سے بھرپور کمنٹ پر شدید ردعمل آیا ہے۔ بے شمار پڑھی لکھی خواتین نے جو حجاب لیتی ہیں، انہوں نے سوشل میڈیا پر کھل کر تنقید کی۔ بہت سی ایسی خواتین نے جو حجاب نہیں لیا کرتیں، انہوں نے بھی لکھا کہ یہ تبصرہ فضول تھا اور حجاب لینے والی لڑکی کو نارمل نہ کہنا پرلے درجے کی زیادتی ہے۔
اسی پروگرام میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا یہ بھی شکوہ تھا کہ اسلامیات کی کتاب کو اتنا بھرپور کیوں بنا دیا گیا، اب بچوں کو قرآن کا ترجمہ بھی سمجھنا پڑے گا، احادیث اور دعائیں بھی یاد کرنا پڑیں گی۔ یہ فقرہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پر چھائی یتیمی اور خودترسی کی کیفیت دیدنی تھی۔ ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ کوئی مسلمان اس بات سے خائف ہو کہ اس کی اولاد قرآن سمجھ لے گی یا اسے چند احادیث اور مسنون دعائیں زبانی یاد ہوجائیں گی۔ ہم جیسے گناہ گار لوگوں کی خواہش ہی یہی ہوتی ہے کہ بچے کچھ دینی تعلیم حاصل کر لیں اور دعائیں یاد کر لیں تاکہ ہمارے دنیا سے جانے کے بعد ایصال ثواب کے لئے کچھ پڑھ سکیں، اور شائدبچوں کو دینی تعلیم وتربیت کایہ اہتمام ہی روز آخرت بخشش کا باعث بن جائے۔ خیر اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ جس بات سے ہود بھائی کو خطرہ ہے، ہمیں اسی پر خوشی ہے۔
اسی سیکولر کیمپ کی جانب سے مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ نئے نصاب میں مذہبی مواد زیادہ شامل کر دیا گیا ہے۔ اس اعتراض پر اگلے کالموں میں بات کرتے ہیں، ویسے یہ بات کتنی دلچسپ ہے کہ ایک کیمپ کہتا ہے مذہبی مواد نکال دیا گیا، دوسرا کہتا ہے مذہبی مواد بڑھا دیا گیا۔ دونوں میں سے کوئی ایک ہی ٹھیک ہوسکتا ہے، ویسے مجھے لگتا ہے دونوں اپنی بے خبری کی وجہ سے غلط ہیں۔