وزیرستان میں کسی بلنڈر کی گنجائش نہیں
والدہ محترمہ کی علالت کی وجہ سے پچھلے چند دنوں سے بری طرح الجھا ہوا ہوں۔ ماں اگر آئی سی یو میں ہو تو ظاہر ہے تما م تر توجہ ادھر ہی مرکوز ہوگی۔ انتظار گاہ میں بیٹھے سامنے لگے ٹی وی سیٹ پر البتہ نظر پڑ جاتی توخبروں کے ٹکرز دیکھ لیتا۔ وزیرستان میں جس طرح اچانک کشیدگی بڑھی، اس سے بڑی تشویش ہو رہی ہے۔ فورسز اور مقامی آبادی کے درمیان ٹکرائو ہمیشہ خطرناک اور نہایت نقصان دہ ہوتاہے، خواہ اس کا دائرہ کار جتنا بھی محدود ہو۔ محسن داوڑ اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے چیک پوسٹ پر فائرنگ کی خبر اور پھر اس تصادم میں تین مقامی افراد کی ہلاکت ایک نئے خوفناک طوفان کی خبر دے رہا ہے۔ ذہنی یکسوئی اور وقت میسر نہیں، چند نکات البتہ سمجھ میں آتے ہیں جو قارئین سے شیئر کرنا چاہ رہا ہوں۔ پی ٹی ایم اور مقامی قبائل کے مسائل دو الگ الگ معاملات ہیں، انہیں گڈمڈ کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔ ہمارے اداروں اور فیصلہ ساز حلقوں میں اگر پی ٹی ایم کی قیادت کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو مطالبات پی ٹی ایم کر رہی ہے یا مقامی قبائل جن مسائل کی نشاندہی کر رہے ہیں، وہ بھی غلط اور من گھڑت ہیں۔ نہیں ایسا سوچنا اور سمجھنا غلط ہوگا۔ پی ٹی ایم کے منظور پشتین، علی وزیر، محسن داوڑ یا کوئی اور لیڈر غلط ہوسکتا ہے، اس کی نیت، اخلاص، وابستگی، سوچ کے حوالے سے کوئی بھی رائے قائم کی جا سکتی ہے، مگر یہ ماننا پڑے گا کہ مقامی آبادی نے بڑے دکھ سہے ہیں اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے بلکہ مسلسل، بار بار مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ریاست اپنے شہریوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال کے حوالے سے کئی آزمائشوں میں اس طرح کامیاب نہیں ہوئی، جیسی اس سے توقع کرنی چاہیے تھی۔ سوات اور فاٹا میں آپریشن ہونا چاہیے تھا یا نہیں، اس پر آرا مختلف ہوسکتی ہیں۔ البتہ سب متفق ہوں گے کہ آپریشن کے بعد مقامی آبادی کے لئے جو کچھ کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کیا گیا۔ جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد فوج نے سٹرکیں بنائی، اور بھی خاصا انفراسٹرکچر بنا، مگر بہت کچھ وہاں ہونے والا ہے، جو نہیں کیا گیا۔ دنیا بھر میں آپریشن انتہائی صورت سمجھی جاتی ہے کہ اس میں عوام متاثر ہوتے ہیں، جس قدربھی احتیاط کی جائے، کچھ نہ کچھ نقصان ہوہی جاتا ہے۔ اس لیے آپریشن سے پہلے ہی پوسٹ آپریشن یعنی بعد میں کئے جانے والے تعمیر وترقیاتی کاموں کا منصوبہ بنا لیتے ہیں۔ فورسز آپریشن کے بعد ایک سائیڈ پر ہوجاتے ہیں یا ان کا عمل دخل محدود ہوجاتا ہے۔ سول انتظامیہ پھر بحالی کا کام کرتی ہے۔ لوگوں کی املاک، جائیدادوں کو نقصان پہنچا ہوتوبرق رفتاری کے ساتھ اس کی تلافی کی جاتی ہے تاکہ زندگی بحال ہو اور عوام اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں شروع کر سکیں۔ وزیرستان میں ایسا نہیں ہوا۔ وہاں ابھی تک بے شمار لوگوں کی جائیداد کے نقصان کی تلافی ہونا باقی ہے۔ لینڈ مائنز(بارودی سرنگیں )ایک ڈرائونا خواب بن چکی ہیں۔ اب تک علاقہ کلیئر ہوجانا چاہیے تھا، نہیں ہوپایا۔ سرنگوں کی صفائی کا عمل جاری تو ہے، مگر اس کی رفتار سست ہے۔ زیادہ بڑے پیمانے پر وسائل اور افرادی قوت استعمال کر کے اس اہم مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ ان لینڈ مائنز سے آئے روز کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا ہے، بچے، عورتیں، بزرگ نشانہ بن رہے ہیں۔ ایسا ہر سانحہ پوری مقامی آبادی میں غصے کے ساتھ بیزاری، تلخی کی لہر پیدا کر دیتا ہے جو کہ فطری بات ہے۔ تعلیم، صحت کی سہولتوں کے حوالے سے سابقہ فاٹا کی ایجنسیاں خاص کر وزیرستان بڑے پیکیج کا مستحق ہے۔ اعلانات تو ہوتے رہے، مگر جس طرح کام ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا۔ مسنگ پرسنز والا گمبھیر معاملہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اس میں جس حد تک بہتری لائی جا سکتی ہے، وہ تو لائی جائے۔ چیک پوسٹوں کی تعداد میں مزید کمی کی جائے اور خاص کر جہاں جہاں عوام سے انٹرایکشن کی صورت ہے، وہاں پشتو بولنے والے ایف سی کے جوان ہوں یا پھر بلوچستان کی طرز پر قبائلی لیوی ٹائپ کوئی میکنزم بنایا جائے۔ چیکنگ کرنے والے وہ لوگ ہوں جو مقامی زبان بولتے، مقامی رسم ورواج سے واقف ہوں اور ترشی کے بجائے عمدگی سے پبلک ڈیلنگ کر سکیں۔ پی ٹی ایم سے معاملہ کرنے، مقامی آبادی کے مسائل اور ان کے مطالبات سننے، حل کرنے کے لئے منتخب سیاسی حکومت کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ مجھے حیرت ہے کہ عمران خان جو قبائل کو جانتے ہیں، ان کے معترف رہے ہیں، غیر ت مند پاکستانی کے نام سے ایک نہایت دلکش کتاب ایک زمانے میں انہوں نے تحریر کی۔ عمران خان حالیہ تصادم پر بھی خاموش رہے اور بطور وزیراعظم انہیں جس قدر سرعت اور سمجھداری کے ساتھ فرنٹ پر آ کر قبائل کے ساتھ ڈیل کرنا چاہیے تھا، ویسا نہیں کر پائے۔ وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں اور کئی وزرا کا تعلق کے پی کے سے ہے، خان صاحب کو چاہیے کہ اگر ان کے پاس وقت نہیں تو ایک اعلیٰ سطحی اختیاراتی کمیٹی بنا دیں جو صرف اسی ایجنڈے پر کام کرے۔ پرویز خٹک اس کے سربراہ ہوسکتے ہیں یا کسی اور کو ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ منتخب سیاسی حکومت کوفرنٹ پر آ کر اسے فاٹا کے ایشو کو اون کرنا چاہیے۔ قبائل کے ساتھ مذاکرات، تصفیہ بھی سول حکومت(وفاقی، صوبائی)کا کام ہے، اسے ہی کرنا چاہیے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی اپنا مذاکراتی اور مصالحانہ کردار ادا کرنے کے بجائے اس وقت تماشا دیکھنے میں مشغول ہیں۔ پارلیمنٹ کوفعال بنایا جائے۔ ایک خصوصی سیشن صرف قبائل کے مسائل پر بلایا جائے، جہاں ڈسکشن کے بعدکشیدگی کم کرنے اور امن کے ساتھ لوگوں کو ریلیف دینے کا پلان سامنے لایا جائے۔ حکومت چاہے تو وہ پہل کر سکتی ہے، ورنہ اپوزیشن کو فاٹا کے مسائل اور تصادم کے بڑھتے ہوئے خطرے کے سدباب کے لئے آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے۔ کسی بڑے المیے سے بچنے کے لئے جو اجتماعی کاوش کی جانی چاہیے، ابھی تک اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آیا۔ ذاتی طور پر میری رائے پی ٹی ایم کی قیادت کے حوالے سے زیادہ مثبت نہیں۔ مجھے ان کے نام پختون تحفظ موومنٹ ہی سے اختلاف ہے۔ یہ پشتونوں کا ایشو ہے ہی نہیں۔ یہ صرف آپریشن متاثرین کا معاملہ ہے، بدقسمتی سے اس خاص کیس میں متاثرین وزیرستان کے رہائشی پشتون تھے، انہیں پریشانی سے گزرنا پڑا۔ ایسا آپریشن اگر ہزارہ میں ہوتا تو ہزارہ متاثر ہوتے، بلوچ علاقے میں آپریشن ہو تو بلوچ آبادی تکلیف اٹھاتی ہے، اگر سندھ میں ہوتا تو سندھی اور اسی طرح جنوبی پنجاب میں ہونے کی صورت میں سرائیکی جبکہ سنٹرل پنجاب میں کسی وجہ سے آپریشن کرنا پڑے تو پنجابی عوام پریشان ہوں گے۔ یہ آپریشن اس لئے نہیں کیا گیا تھا کہ وہاں پشتون آباد ہیں اور انہیں ان کی زبان، نسل کی وجہ سے کوئی ہدف بنانا چاہ رہا ہے۔ اس کی سادہ دلیل یہ ہے کہ خیبر پختون خوا کے ڈیڑھ درجن سے زائد پشتون آبادی والے اضلاع میں کسی بھی قسم کا آپریشن نہیں ہوا اور نہ ہی وہاں پشتونوں کو کسی نے تنگ کیا۔ پنجاب میں لاکھوں پشتون آباد ہیں، کراچی تو ملک کا سب سے بڑا پشتون آبادی والا شہر ہے، وہاں کسی نے پشتونوں کے خلاف آپریشن کیا؟ مسائل چونکہ ایم کیوایم الطاف کے ٹارگٹ کلرز نے پیدا کئے تھے، بدقسمتی سے وہ اردو بولنے والے تھے، اس لئے اس خاص کیس میں اردو سپیکنگ ہی ہدف بنے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی مہاجر تحفظ موومنٹ بنا ڈالے۔ ایسا کرنا بدنیتی ہوگا۔ ایک خاص ایجنڈے کے تحت محسود تحفظ موومنٹ کو پختون تحفظ موومنٹ میں بدلا گیا۔ مقصد یہی تھا کہ پشتونوں کا نام لے کر زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کی جائے۔ اس سوچ سے ہمارا اختلاف ہے۔ پی ٹی ایم کے لیڈر جس طرح کی جارحانہ زبان بولتے، فوج اور ریاستی اداروں کو ہدف بناتے ہیں، وہ بھی بڑا عجیب اور خطرناک لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ لوگ کسی دشمن ملک کی زبان بول رہے ہوں۔ ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم محب الوطن یا غیر محب الوطن کے سرٹیفکیٹ تقسیم کریں نہ ہی یہ رجحان پسندیدہ ہے۔ البتہ تحفظات پیدا ہونا فطری ہے۔ یہ بات مگر ضروری ہے کہ پی ٹی ایم کے خلاف کچھ بھی اگر کیا جائے تو وہ قانون کے دائرے میں رہ کر ہو۔ عدالتیں موجود ہیں، کسی شخص نے زہرآلود تقریر کی تو اس کے لئے قانون موجود ہے۔ کسی نئے بحران کو جنم نہ دیا جائے۔ وزیرستان کسی اور نواب اکبر بگٹی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ نواب اکبر بگٹی کو مارنا ایک بلنڈر تھا۔ بگٹی مرحوم کی ہلاکت نے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا۔ بلوچستان میں اس کے بعد جو آگ بھڑکی، وہ ابھی تک نہیں بجھ سکی۔ وہ ایک تباہ کن غلطی تھی۔ وزیرستان میں قطعی طور پر اس طرح کا کوئی دوسرا بلنڈر نہیں کرنا چاہیے۔ علی وزیر ہو یا محسن داوڑ، جس کے خلاف جو بھی شکایت ہے، عدالت کے سامنے رکھی جائے۔ وہی مناسب فورم ہے۔ پی ٹی ایم میں کچھ عناصر اگر سیاسی شہیدوں کے طلب گار ہیں تو انہیں مایوس ہی کرنا چاہیے۔