وبا کے دنوں میں ایک منفرد وصیت
چوبیس پچیس سال پہلے لاہور ملازمت کی غرض سے آیا تولاہور کو جاننے، سمجھنے اور یہاں کی ثقافتی، علمی تقریبات میں جانے کا شوق تھا۔ ہاسٹل میں رہائش تھی، دفتر سے فراغت کے بعد کسی نہ کسی سمیناریا پروگرام میں بطور سامع پہنچ جاتا۔ ان دنوں موٹیویشنل سپیکرز کا معاملہ بالکل نیا نیا تھا۔ زیادہ تر کتابیں بھی انگریزی میں تھیں، بلکہ اگر کہیں پر ورکشاپ یا کورس کرایا جاتا تو وہ بھی انگریزی میں ہوتا۔ عالمی شہرت یافتہ موٹیویشنل سپیکر اور ایکسپرٹ سٹیفن آر کووی ان دنوں اِن فیشن تھے، جم رون کا نام بھی مشہور تھا، مگر ان کی کتابیں عام نہیں تھیں، ان کا مواد ڈالروں میں خریدنا پڑتا۔ چند ایک لوگوں نے باہر سے وہ کورسز کئے اور پھر پاکستان میں بھی کرائے۔ مجھے تو موقعہ نہیں ملا، مگر برادرم عارف انیس ملک گواہ ہیں کہ سٹیفن آر کووی، جم رون کے مواد پر مشتمل کورسز ان دنوں ایک خاتون کراتی تھیں، آج کل وہ تحریک انصاف کی اہم رہنما ہیں۔ جی ڈاکٹر عندلیب عباس کی بات کر رہا ہوں، انہوں نے ایسے کئی کورسز کرائے اور نوجوانوں کو موٹیویشنل مواد سے روشناس کرایا، آج کل وہ فل ٹائم سیاستدان ہیں، البتہ ان کی صاحبزادی زینب عباس معروف سپورٹس اینکر ہیں۔
انہی ابتدائی دنوں کا قصہ ہے، پنجاب پبلک لائبریری میں ہونیوالے ایک موٹیو یشنل سمینارمیں خاصا کچھ نیا جاننے، سمجھنے کا موقعہ ملا۔ ماہر نفسیات عابد بلال تھے۔ ان سے بعد میں بہت اچھا، دوستانہ تعلق رہا۔ کئی برسوں سے رابطہ نہیں رہا، مگر ان کی ذہانت اور تیز فہمی کا آج بھی معترف ہوں۔ اسی سیمینار میں سیکھا کہ لک (LUCK) اگر ہو تو کامیابی لازمی ملتی ہے اور کیسے ٹارگٹ سمارٹ (SMART) ہوں تب وہ حاصل ہوجاتے ہیں۔ آج وہ پروگرام ایک اہم نکتے کی وجہ سے یاد آیا۔ سپیکر نے پوائنٹ اٹھایا، ہر آدمی کا ایک کام ہوتا ہے اور اسے وہی کرنا چاہیے۔ یہ بھی کہ آدمی اگر اپنی پسند کے شعبے میں جائے تو کتنی بڑی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ سوال پوچھا گیاکہ آدمی کیسے جانے کہ وہ کس کام کے لئے پیدا ہوا ہے؟ کئی بار نوجوانوں کو خود اندازہ نہیں ہوپاتا کہ وہ کس طرف جانا چاہتے ہیں۔ عابد بلال نے بتایا کہ ماہرین نفسیات اور مائنڈ ایکسپرٹ اس کے لئے بہت آسان ایکسرسائز بتاتے ہیں۔ کسی خاموش، تنہا جگہ پر کچھ دیر کے لئے بیٹھ جائیں، اپنے آپ کو یکسو کریں اور پھر یہ فرض کریں کہ آپ کی موت واقع ہوگئی ہے، اپنے جنازے کے منظر کو تصور میں دیکھیں اور پھر آخر میں قبر دیکھیں اور سوچیں کہ قبر کا کتبہ کیسا ہونا چاہیے؟ اپنے کتبے پر آپ کیا لکھوانا چاہتے ہیں؟ کون سی شناخت آپ کی خواہش ہے؟ وہی آپ بننا چاہتے ہیں۔ اس کا جائزہ لیں، تجزیہ کریں، اس کے لئے ماہرین کی رہنمائی حاصل کریں اور پھر عزم کے ساتھ اس منزل کو پانے کیلئے جت جائیں۔ دراصل اس کے پیچھے وہی فلسفہ ہے کہ انسان کی قبر کا کتبہ ہی اس کی پوری زندگی کا نچوڑ ہے۔ سعادت حسن منٹو کی قبر کا کتبہ ان کے طرز زندگی، طرز فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔ منٹو میں وہی طنطنہ، ناز، سرکشی اور دنیا سے بے نیازی تھی، جس کا اظہار اس نے اپنے کتبے کی عبارت لکھ کر کیا۔ ہمارے ہا ں تصوف کے سلسلوں میں موت کا مراقبہ کرایا جاتا ہے، قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں اس کی کچھ تفصیل بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ کیسے ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ مائنڈ ایکسپرٹس کی بتائی ایکسرسائز بھی دلچسپ ہے۔
یہ سب باتیں مجھے کورونا کے حوالے سے غور وفکر کرتے ہوئے یاد آئیں۔ خیال آیا کہ ملک کے بیشتر لوگ لاک ڈائون کا شکار ہیں، ان کے پاس وقت ہے۔ چند دنوں بعد رمضان کا مقدس مہینہ بھی شروع ہو رہا ہے۔ اگر ان دنو ں میں اپنی وصیت لکھنے کا تجربہ کیا جائے تو کیسا رہے گا؟ شرعی طور پر تو ویسے بھی وصیت کی بہت اہمیت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمان کی ایک رات بھی وصیت کے بغیر نہیں گزرنی چاہیے۔ بہت سے لوگ اسی وجہ سے اپنی تحریری وصیت لکھ رکھتے ہیں بلکہ قانونی تقاضے پورے کرنے کے لئے اسے رجسٹرڈ بھی کرا لیتے ہیں۔ ایک بار وصیت لکھنے کے بعد اسے بدلنے کا حق موجود رہتا ہے۔
میں البتہ جس وصیت کی بات کر رہا ہوں، اس کا تعلق جائیداد کی تقسیم سے نہیں۔ ایسا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر سوچ سمجھ کر، اپنی زندگی ہی میں جائیداد کی تقسیم کا فارمولہ وضع کر لیاجائے اور اس میں عدل وانصاف کو ملحوظ رکھیں تو اس سے اچھا کیا ہوگا۔ اسلامی روایت کے مطابق ایسا کرنے کیلئے بو ڑ ھا ہونے کا انتظار بھی نہیں کرنا چاہیے۔ کس کو خبر کہ اگلا سانس آئے یا نہ آئے۔ کورونا تو خیر وبا ہے، اللہ کرے گا، ٹل جائے گی، مگر ہماری زندگیاں ایسی حادثاتی ہوچکی ہیں، نوجوان لوگ بھی کسی ناگہانی کاشکار ہوجاتے ہیں۔ مومن کوتو ویسے بھی زندگی مسافر کی طرح گزارنی چاہیے، زاد سفر مختصر ہو اور اس نے ہمہ وقت کمر باندھ رکھی ہو۔ خیر میں کورونا کے دنوں میں موت کا تذکرہ کر کے قارئین کو ڈرانے کا الزام نہیں لگوانا چاہتا۔ ہمارے ہاں تو ویسے بھی یہ عجیب رواج ہے کہ مرنے کی بات کو بدشگونی سمجھتے ہیں۔ خاوند اگر اپنے مرنے کی بات برسبیل تذکرہ ہی کرے تو بیوی محبت کا یہ تقاضا سمجھتی ہے کہ آنکھوں میں آنسو بھر کر شکایتی نظروں سے دیکھے یا بھرائی ہوئی آواز میں فوری ٹوک دے، فرماں بردار اولاد الگ تلملانے لگتی ہے۔ گویا بڑوں نے دنیا سے جانا ہی نہیں۔ بھئی ہر ایک نے رخصت ہونا ہے تو یہ رویے کیوں؟ یہ مگر ہمارے مجلسی آداب کا حصہ بن گیا ہے کہ دوسرے کو اس کی موت یاد نہ دلائی جائے۔ جناب رسالت مابﷺ کے دور میں، صحابہ، تابعین اور ان کے بعد کے ادوار میں لوگ ایک دوسرے کو موت یاد دلانا ضروری سمجھتے تھے، صوفیا بادشاہوں کو خط لکھتے تو اس میں بھی موت اور روز آخرت یاد دلاتے تاکہ وہ ظلم سے بچے اور عدل سے کام لے۔ یہ پس منظر موجود ہے، مگر خاکسار کا کوئی ارادہ نہیں کہ اتوار کاپرسکون دن آپ کو موت یاد دلائی اور وصیت لکھنے کی ترغیب دی جائے۔
وصیت سے میری مراد اپنے حساب کتاب کو چکتا کر دینا، بیلنس شیٹ صاف کر لینا ہے۔ ہر ایک کی زندگی میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جس کے بارے میں ہم دانستہ نہیں سوچتے۔ زندگی کے سفر میں کسی مرحلے پر ہم نے کسی کے ساتھ زیادتی کی، اس کے مال سے بلااجازت لیا، کتابیں یا کچھ اور چیزیں ہی ہتھیا لیں، گالی گلوچ یا پیٹھ پیچھے برا بھلاکیا، کسی دفتری سازش کا حصہ بن کر مخالف کی نوکری ختم کرانے کا باعث بنے۔ اگرخوش قسمتی سے آپ نہایت مثبت انسان ہیں اور ایسا کوئی دھبہ نہیں، پھر بھی کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی کے خلاف غیب، چغلی وغیرہ کے مرتکب ہوئے ہوں۔ قرضہ لیا ہو، واپس نہ لوٹا پائے، جس سے لیا، وہ آدمی بھی بچھڑ گیا وغیرہ وغیرہ۔ زندگی کا سفر جاری ہے، اس کا مطلب ہے کہ قدرت نے مہلت دے رکھی ہے۔ کیوں نہ موقعہ سے فائدہ اٹھا کر وہ حساب کتاب کر لیا جائے۔ جس سے معافی مانگنی ہو، مانگ لیجائے، اگر کچھ دے دلا کر تلافی ممکن ہو تو کر لی جائے۔ روز آخرت اپنی مشکل سے کمائی نیکیوں سے حصہ دینے سے بہت بہتر آج ہی حساب کتاب کلیئر کر دینا ہے۔ لائبریری یا کسی صاحب کے گھر سے چرائی ہوئی کتابیں واپس بھجوا دیں یا کم از کم صاحب کتاب سے معذرت ہی طلب کر لیں۔ کتاب کی چوری بھی چوری ہے، دل کو بہلانے کیلئے کچھ اور نہ سو چیں۔ اگرقرضہ لیا ہے تو اسے تحریر میں لے آئیں، اپنے اہل خانہ کو اس کے بارے میں بتائیں کہ وہ قرض لازمی اتارنا ہے، ورنہ تاقیامت آپ اس کے بوجھ تلے دبے رہ جائیں گے۔ بہت سے اور پہلو ہوسکتے ہیں، غور کریں فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
اس بیلنس شیٹ کا ایک حصہ اپنے اوپر کئے گئے احسانات سے متعلق ہے۔ زندگی میں کئی ایسے روشن کردار ہوں گے جنہوں نے آپ کے ساتھ نیکی کی، ہاتھ پکڑا اور منجدھار سے باہر نکالا۔ آگے بڑھنے میں مدد کی۔ علم دیا، کچھ سکھایا، تربیت دی، ہنر، ملازمت میں رہنمائی دی۔ وہ جو مشکل وقت میں کام آئے۔ آپ ان سب کے قرضدار ہیں۔ اگر کسی کی اچھائی، نیکی کا جواب اچھائی، مالی مدد کی صورت میں دے سکتے ہیں تو لازمی طور پر ایسا کریں۔ آپ کے بھولے بسرے ماضی کا کوئی محسن تھا، آج وہ دنیا میں نہیں، اس کے ورثا کا پتہ کریں۔ ممکن ہے آپ کی مدد کی انہیں ضرورت ہو، انہیں آپ کا مدد دینے والا ہاتھ درکار ہو۔ آگے بڑھ کر کھلے دل سے تعاون کریں۔ کسی کا تحریری شکریہ ادا کریں، کچھ کا زبانی شکریہ ادا کریں۔ جو آنکھوں سے اوجھل ہیں، آپ کا ان سے رابطہ بھی نہیں، انہیں اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ اپنی نمازوں، عبادات میں با قاعد گی سے ایسے ہر شخص کیلئے دعا کریں جس نے آپ پر احسان کیا، اچھا ئی کی۔
زندگی کے تیز رفتار سفر میں، وقت کے طوفانی ریلے میں بہتے ہوئے ہم اپنے آج ہی میں گتھم گتھارہتے ہیں۔ کورونا وبا کے ان دنوں میں اپنے ماضی کو کھنگالیں اور بیلنس شیٹ صاف کر لیں، مستقبل کا لائحہ عمل بنا لیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس دنیا میں آپ کی باقی ماندہ زندگی اور بعد میں لافانی زندگی کا رخ ہی بدل جائے۔ اللہ آپ پر، ہم سب پر رحم فرمائے، آمین۔