امید جگانے والے
کیا ہم پاکستانیوں کو ایک حوصلہ بڑھانے، امید جگانے والے افراد کی ضرورت ہے؟ ایسے لوگ جوعوام کا مورال بلند کریں، انہیں احساس کمتری سے نکالیں، کچھ مثبت اہداف سامنے رکھیں اور درست سمت میں محنت کرنے پر اکسائیں۔ کیا یہ کام کسی موٹیوشنل سپیکر(Motivational Speaker)کے کرنے کا ہے؟ کوئی ایک یا متعدد موٹیوشنل سپیکرز جو زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کریں، حوصلہ جگائیں اور نئی روح پھونکیں۔ ہمارے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر صرف ایک ہفتہ گزارا جائے تو دیکھنے، پڑھنے والے کو شدت سے اس بات کا احساس ہوگا۔ یوں لگتا ہے جیسے چاروں طرف سے منفی، تندوتیز، کاٹ دار، زہریلے تبصروں کا طوفان سا امنڈ رہا ہو۔ ہر کوئی کلہاڑا، گنڈاسا، ڈانگ سوٹا لے کر شام سات سے گیارہ بجے تک ٹی وی سکرینوں پر موجود ہے۔ جس مرضی چینل پر چلے جائیں، تلواریں اور کلہاڑے چلتے نظر آئیں گے۔ اینکرز کا بس نہیں چلتا کہ فوری طور پر مخالفین کوٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمیشہ کے لئے ان سے جان چھڑا لیں۔ جن ٹاک شوزمیں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے لوگ شریک ہوتے ہیں، ان کا کام صرف اپنی پارٹی، لیڈر کا دفاع اور مخالف پر لگاتار حملے کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بدتمیزی، دوسرے کواپنے چست فقرے سے ذلیل کرنا اور تماشا بنانا ہی فن بن گیا۔ بعض پروگرام سن کر لگتا ہے کہ ملک میں کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا۔ ہر حکمران چور، کرپٹ اور دو نمبر ہے۔ ہر وزیر، رکن اسمبلی نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا، بیوروکریٹ پیدا ہی اس لئے ہوئے کہ ملک لوٹ کر کھاجائیں، جبکہ پاکستان میں ایک بھی تنظیم، ادارہ، کمیونٹی ایسی نہیں جس نے کچھ اچھا کیایا جو مثبت سوچ سکتی ہے۔ پروگرام دیکھنے کے بعد آدمی سناٹے میں آ جاتا ہے۔ اسے ہر طرف تاریکی اور خوفناک آندھیاں چلتی نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا نے معاملہ زیادہ بگاڑ دیا ہے۔ ٹی وی سے محفوظ رہنا آسان ہے، سوشل میڈیا سے گریز مشکل۔ آپ اپنے قریبی دوستوں، رشتے داروں سے انٹرایکشن بھی کرتے ہیں۔ دوستوں کی گپ شپ، تصاویر کی شیئرنگ، اپنے پسندیدہ بعض لکھاریوں کی پوسٹیں پڑھنااچھا لگتا ہے۔ سوشل میڈیا خاص کر فیس بک پر مگر منفی لہریں دن رات چلتی رہتی ہیں۔ جس کا جی چاہتا ہے، ایک عدد منفی، مایوس کن پوسٹ داغ ڈالتا ہے۔ کہیں کوئی سانحہ ہوجائے، کوئی معصوم بچہ، بچی درندوں کا نشانہ بنے، کسی اور نوعیت کا حادثہ، ایسے میں دو طرح کے کام ہوتے ہیں۔ بعض لوگ خون آلود تصاویر لگا کر اپنی دانست میں دیکھنے والوں کے جذبات پر ضرب لگاتے ہیں، کچھ دوسرے جذباتی الفاظ میں یہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ پڑھنے والے انسان ہیں، پتھر نہیں اور اس طرح آپ انہیں ذہنی مریض بنا رہے ہیں۔ پھر ایک اور مسئلہ یہ کہ چونکہ بہت بار آئی ڈی فیک یا نامعلوم ہوتی ہے، لوگ دل کھول کر اپنے اندر کا زہر، بغض، نفرت سوشل میڈیا پر الٹ دیتے ہیں۔ راہ چلتے کسی فیس بکی پوسٹ پر رکے اور ایک دو گالیاں، زہریلے کمنٹ لکھ کر چلتے بنے۔ آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ اس بدبخت سے واقفیت اور سلام دعا تک نہیں، پہلی بار اس کی منحوس ڈی پی(فیس بک اکائونٹ پر لگی تصویر) دیکھی، اس کے باوجود اس نے ایسی بدتمیزی کر ڈالی۔ ایسے فضول تبصرے کہ پڑھنے والے سے رہا نہ جائے اور وہ جواب دینے پرمجبور ہو۔ سوال مگر یہ ہے کہ جب منوں، ٹنوں کے اعتبار سے منفی چیزیں سماج میں انڈیلی جا رہی ہوں تو پھر جو توازن بگڑے گا، اسے کون درست کرے گا؟ منفی سوچ والے ہمیشہ سے رہے ہیں، مگر پہلے بہت لوگ ایسے بھی تھے جو مثبت بات کرتے اور سماج میں شائستگی، دلیل کے چلن کو فروغ دیتے۔ منفی لہروں کا جواب یہ اپنی مثبت لہروں سے دیتے اور یوں بیلنس برقرار رہتا۔ اب یہ بیلنس خوفناک انداز میں بگڑ گیا ہے۔ مین سٹریم میڈیا پر معتدل، شائستہ بات کرنے والے کی کوئی جگہ نہیں، سوشل میڈیا پر بدتمیزی اور بدزبانی کے خوف سے یہ لوگ نہیں آتے۔ پھریہ عدم توازن کون ٹھیک کرے گا؟ مغرب میں یہ کام موٹیوشنل سپیکرز نے سنبھالا ہے۔ ایک پورا غیر رسمی سا انسٹی ٹیوشن اس سے وجود میں آیا۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں، اپنے اپنے انداز سے جنہوں نے مطالعہ کیا، ترقی اور کامیابی کے راز معلوم کئے اور پھر انہیں آسان، عام فہم انداز میں بیان کیا۔ بے شمار کتابیں لکھی گئیں، انٹرنیٹ پر سینکڑوں، ہزاروں تقاریر، ویڈیو کلپس اس حوالے سے مل جاتے ہیں۔ چند ایک نے اتنی مہارت حاصل کی کہ ان کا پروگرام دیکھنے کے لئے لوگ منہ مانگی قیمت ادا کرنے پر تیار ہوگئے۔ ٹونی رابنز، ٹونی بوزان، برائن ٹریسی وغیرہ چند ایسے ہی مشہور نام رہے ہیں، لاکھوں ڈالر جو ایک شو کے لیتے ہیں، مگر ان کا لیکچر سننے والا کچھ نہ کچھ تبدیل ضرور ہوجاتا ہے۔ جم رون نے بہت شہرت کمائی، چند سال پہلے وہ دنیا سے رخصت ہوگئے، مگر ان کی کتابیں، ویڈیوز اور ویب سائٹ آج بھی مشہور ہے۔ ٹونی بوزان ایک حیران کن شخص تھے۔ چند دن پہلے وہ بھی دنیا سے چلے گئے، دو سال پہلے ان کے ایک سمینار میں شامل ہوا اور ان سے خصوصی انٹرویو کیا۔ ٹونی بوزان پر ان شااللہ جلد لکھوں گا۔ مجھے لگتا ہے کہ جس پیمانے پر پاکستان میں مایوسی پھیلانے والا منفی مواد پھیل رہا ہے، اسے کائونٹر اور بیلنس کرنے کے لئے خاصے بڑے پیمانے پر مثبت مواد تخلیق کرنا چاہیے۔ اس کے لئے جھوٹ بولنے یا مصنوعی مواد بنانے کی ضرورت نہیں۔ ہر سماج کی طرح ہمارے ہاں بہت سا مثبت، اچھا کام ہو رہا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ انہیں سامنے لایا جائے۔ بہت سی اچھی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر امجدثاقب کی اخوت، ڈاکٹر اعجاز قریشی کی کارواں علم فائونڈیشن، فلاحی تنظیم الخدمت جس کے روح رواں عبدالشکور صاحب کے اخلاص کو دیکھ کر رشک آتا ہے، عامر محمود کے زیراہتمام غزالی ٹرسٹ سکول، ڈاکٹر انتظار بٹ کی نادار آنکھوں کے مریضوں کے لئے بنائی گئی تنظیم پی اوبی، ڈاکٹر آصف جاہ کی کسٹمزویلفیئر فائونڈیشن وغیرہ وغیرہ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان مثبت کاموں کو بیان کرنے والے، لوگوں میں خیر اور امید کی روشنی جگانے والے بہت کم ہیں۔ پاکستان میں موٹیوشنل لٹریچر بہت سا دستیاب ہے، مقامی موٹیوشنل سپیکرز بھی کام کر رہے ہیں، مگر ان کا بھی مسئلہ وہی ہے کہ مغربی لٹریچر، مصنفین سے متاثر ہیں اورکسی نے اپنے انداز میں مقامی ضروریات، کلچر، نفسیات کو سامنے رکھ کر مواد اکٹھا نہیں کیا۔ پاکستان کے موٹیوشنل سپیکرز میں سے ایک نوجوان سید قاسم علی شاہ نے مجھے متاثر کیا ہے۔ قاسم علی شاہ سے چند سال پہلے واقفیت ہوئی، جب یہ ایک اکیڈمی چلاتے تھے اور میں جس اخبار میں شعبہ میگزین کا سربراہ تھا، یہ وہاں تعلیم پر اپنے مضامین دینے آئے۔ مجھے لگا کہ اس نوجوان کی تحریر دوسروں سے مختلف ہے اوربنیادی مقصد پڑھنے والوں کو کچھ نیا مواد دینا، ان کی فکری، شعوری تربیت کرنا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سے زیادہ اندازہ نہیں لگا سکا تھا۔ سید قاسم علی شاہ مگر صرف ایک میگزین رائٹربننے تک محدود نہیں رہنا چاہتا تھا، اس کے اپنے خواب اور اپنی ہی دنیا تھی۔ اگلے چند برسوں میں قاسم علی شاہ نے بہت کچھ کر ڈالا۔ کئی کتابیں لکھیں، بہت سی ویڈیوز تخلیق کیں۔ آج کل تو ہمارے ہاں یو ٹیوب ویڈیوز بنانے کا ٹرینڈ چل نکلا، قاسم شاہ نے اس وقت یہ کیا، جب پاکستان میں کسی کی اس طرف دلچسپی ہی نہیں تھی۔ سب سے بڑھ کر اس نے صوفی فکر کا مطالعہ کیا، صوفی شعرا کو پڑھا، واصف علی واصف سے لے کرقبلہ سرفراز شاہ صاحب جیسے صوفیوں کی فکر کو اپنا شعار بنایا۔ سرفراز شاہ صاحب سے وہ سیکھتااور رہنمائی لیتا ہے۔ قاسم علی شاہ نے مختلف موضوعات پرنیا، تخلیقی، تروتازہ مواد تو اکٹھا کیا، مگر اسے اپنے دیسی کلچر کی مٹی میں گوندھ کر صوفی ازم کی پھوار سے سینچا۔ یوں جو مٹی بنی، اس سے جو فکری ظروف بنے، وہ اس کے اپنے، دوسروں سے مختلف اور منفر د ہیں۔ ہمارے من پسند اشفاق احمد (ہم میں سے بہت سے انہیں بابا بھی سمجھتے ہیں )نے اپنے پروگرام زاویہ کے ذریعے شاندار کنٹری بیوشن کیا۔ سید قاسم علی شاہ بھی اسی راہ کا مسافر ہے، اس پر اشفاق احمد سکول آف تھاٹ کے اثرات بھی ہیں، واصف علی واصف کو وہ اپناپہلا مرشد کہتا ہے، مگر اصل بات یہ کہ قاسم شاہ نے اپنی ایک نئی ڈکشن اور اسلوب بنایا۔ اس نے نقل کرنے کے بجائے اپنے الگ سے نقوش بنائے۔ آج سید قاسم علی شاہ ایک برانڈ بن چکا ہے، ایک ایسا نام جسے سن کر کارپوریٹ ورلڈ بھی متاثر ہوجاتی اور نوجوان بھی اس میں کشش محسوس کرتے۔ قاسم علی فائونڈیشن بہت سے تربیتی پروگرام چلا رہی، سینکڑوں ٹرینر یہ تیار کر چکے، موٹیوشنل مواد پر ایک پورا اشاعتی ادارہ بن چکا، کئی یوٹیوب چینلز ہیں، جن کے لئے بے شمار موضوعات پر تربیتی ویڈیوز دن رات بن رہی ہیں۔ نوجوانوں کو مثبت انداز میں کام کرنے، روٹین سے کچھ ہٹ کر اپنے آپ کو منوانے اور حالات سے نہ گھبرانے کا درس ملتا ہے۔ ہمیں پاکستانیوں کو منفی لہروں کے گرداب سے نکالنے کے لئے قاسم علی شاہ کی طرح کے موٹیوشنل سپیکرز، رائٹرز، سکالرز چاہیئیں۔ جوسماج کا صرف منفی، بدصورت چہرہ نہ دیکھیں بلکہ جو کچھ اچھا، خوبصورت ہو رہاہے وہ بھی دکھائیں۔ عام آدمی کو حوصلہ دیں کہ وہ اپنی کوشش سے نہ صرف اپنی تقدیر بدل سکتا، بلکہ ان شااللہ ملک کو بھی بہت اوپر لے جا سکتا ہے۔