تین اصول
شوگر سکینڈل کی فرانزک آڈٹ کی رپورٹ سامنے آ چکی ہے۔ جب یہ سطریں لکھی جا رہی تھیں، تب ٹی وی سکرین پر محترم شہزاد اکبر کے بیان کردہ حیران کن انکشافات جھلملا رہے تھے۔ اس رپورٹ میں بہت کچھ ایسا ہے جو جہانگیر ترین، مخدوم خسرو بختیار اور اس معاملے سے جڑے دیگر اہم شخصیات کے امیج کو سخت نقصان پہنچائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کو یہ کریڈٹ تو دینا پڑے گا کہ انہوں نے چینی سکینڈل کو سابقہ حکومتوں کی طرح چھپانے کے بجائے اسے گہرائی سے کھوجنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے یہ رپورٹ پبلک کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ فرانزک آڈٹ میں کچھ وقت مزید لیا گیا تو ن لیگ کے رہنمائوں نے یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ مقصد چینی سکینڈل کو چھپانا ہے۔ ایسا نہیں ہوا اوراب رپورٹ کے تہہ در تہہ انکشافات سامنے آ چکے ہیں۔ اس رپورٹ پر آنے والے دنوں میں بہت کچھ کہا، سنا جاتا رہے گا۔ بے شمار پروگرام ہوں گے، کالم لکھے جائیں گے۔ اصل بات جو پہلے سے واضح تھی، مگر اب ایک بار پھراسکی تصدیق ہوگئی کہ ہمارا پورا نظام اس درجہ گل سڑ چکا ہے کہ بڑے پیمانے پراصلاحات ہی اسے بچا پائیں گی۔ یہ سب کارپوریٹ فراڈ آج تک کیسے ہوتے رہے؟ سوال یہ ہے کہ ہماراسسٹم اسے کیو ں نہیں روک پایا؟ جن اداروں کا کام ان چیزوں کو دیکھنا، چیک رکھنا اور محاسبہ کرنا تھا، وہ کیوں ناکام ہوئے؟ آگے بڑھنے کے لئے ہمیں اپنے سسٹم کو بدلنا ہوگا۔ اپنے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا، ان میں شفافیت لانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ جب تک ہمارے عوام میں شعور نہ پیدا ہو، وہ تب تک انہی لٹیروں، کرپٹ طبقات کے ساتھی بنے رہیں گے۔ کوئی ایک شخص یا لیڈر کچھ نہیں کر سکتا۔ جب تک ادارے مضبوط نہ ہوں، اس کا ساتھ نہ دیں اور باشعور عوام اس کے ساتھ نہ کھڑے ہوں، تب تک وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ میں اس موضوع پر ایک زمانے میں تاریخ کے گوشے کھنگال کر کچھ نتائج اخذ کئے تھے۔ قارئین سے وہ نتائج شیئر کرتا ہوں۔ یہ قصہ ڈھائی ہزار سال پرانا ہے، اس کا تعلق ایتھنز سے ہے، جسے دنیا میں جمہوریت کا پہلا گھر مانا جاتا ہے۔
یونانی دارالحکومت ایتھنز دنیا کے چند قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس کی تین ہزار سالہ قدیم تاریخ کے مستند شواہد موجود رہے، مختلف ادوار میں عظیم فلسفیوں، شاعروں اور فن کاروں کی بڑی تعداد کا تعلق یہاں سے رہا۔ جنگ کی یونانی دیوی ایتھینا کے نام سے مشہور ہونے والے اس شہر کی گلیاں سقراط کے مکالموں اور سوفسطائی فلاسفروں کے مباحث کی عینی شاید رہیں۔ افلاطون کی اکیڈمی اور ارسطو کا لائسیم یہیں واقع تھے۔ ایتھنز کا ایک طرہ امتیاز دنیا کی پہلی جمہوریہ ہونا بھی ہے۔ مورخین کا ماننا ہے کہ ڈھائی ہزار سال پہلے ایتھنز نے سب سے پہلے جمہوریت کی جانب پیش قدمی کی تھی۔ تاریخ دان اسے کلاسیکل ڈیموکریسی کا نام دیتے ہیں۔ ڈیموکریسی کا لفظ بھی یونانی زبان سے نکلا ہے اور پہلی بار" ڈیموکریٹ" کے نام سے جماعت یا گروہ بھی ایتھنز میں بنا تھا۔ بعد میں دوسری یونانی ریاستوں نے اس کی پیروی کی اور آہستہ آہستہ جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں وہاں بھی رائج ہوگئی۔
ایتھنز میں ڈائریکٹ ڈیموکریسی رائج تھی۔ جس میں عوام ارکان اسمبلی منتخب نہیں کرتے، بلکہ وہ خود کسی قانون یا بل پر ووٹ دیتے ہیں۔ یعنی ہر ووٹر ایک طرح سے خود رکن اسمبلی تھا۔ البتہ عورتوں، غلاموں اور ان لوگوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا جن کے والدین ایتھنز کے شہری نہیں تھے۔ ان قباحتوں کے باوجود اس زمانے کے حوالے سے اسے غیرمعمولی نظام تصور کیا جاتا ہے۔ اس جمہوری عمل میں کئی فلاسفروں اور دانش ورں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان میں سولون، کلیستھینیزاور ایفایلٹس قابل ذکر ہیں۔ ان مدبرین نے آئینی ادارے بنانے اور مضبوط بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ ان کی کوشش ہی سے ایتھنزکے عوام میں جمہوری شعور پیدا ہوا۔ انہیں احساس ہوا کہ ان کے ووٹ کی کس قدر اہمیت ہے۔ پہلے یہاں امراکی گرفت مضبوط تھی۔ تمام اہم مناصب ان کے سپرد تھے۔ عوام کے پاس صرف ووٹ دینے کا حق تھا یا پھروہ عدالتی جیوری کے رکن ہی بن سکتے تھے۔ ایفایلٹس نے آواز اٹھائی کہ عوام سے تعلق رکھنے والے ذہین افراد کوبھی اہم عہدوں پر فائز ہونے کا حق ہے۔ اس یونانی دانش ور نے جمہوری سوچ رکھنے والے افراد پر مشتمل دنیا کی پہلی ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ اس کا ایک شاگرد پیریکلزجس کا تعلق ایتھنز کی اشرافیہ سے تھا، پارٹی کا اہم رکن بن گیا۔ پیریکلز ایک غیرمعمولی انسان تھا۔ اس نے سیاست میں آنے سے پہلے چالیس سال تک اپنی سحر انگیزشخصیت، دیانت اور دانش مندی سے ایتھنز میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی تھی۔ وہ اپنے امیج کے بارے میں اس قدر سنجیدہ تھا کہ عمر بھر تھیٹر یا کوئی میلہ دیکھنے نہیں گیا۔
اس وقت کا حکمران "کمون" رجعت پسند شخص تھا، اس کے خیال میں عوام کو اس سے زیادہ جمہوریت نہیں دی جاسکتی۔ تمام اختیارات ایک کونسل "ایروپیگس"کے پاس تھے جس کے تمام ارکان ایتھنز کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے پہلے کمون کے خلاف عوامی مقدمہ کے ذریعے اس سے نجات پائی پھر کونسل کے اختیارات کم کر دئیے۔ اس انقلابی اقدام کو ریڈیکل ڈیموکریسی کے آغاز کا نام دیا جاتا ہے۔ ایفایلٹس کے قتل نے پیریکلز کو ڈیموکریٹک پارٹی کا سربراہ اور ڈی فیکٹو حکمران بنادیا۔ اگلے برسوں میں پیریکلز کی قیادت میں ایتھنز کا سنہرا دور شروع ہوا۔ پیریکلز نے پاپولسٹ سوشل پالیسی اپنائی۔ اس نے متوسط اور نچلے طبقے کے نوجوانوں کو انتظامیہ اور فوج میں شامل کیا۔ عوام کے لئے تھیٹر دیکھنے پر عائد ٹیکس معاف کر دیا گیا۔ جیوری کے ارکان کی تنخواہیں بڑھا دی گئیں۔ پیریکلز نے ایتھنز کو ایک بڑی سلطنت میں تبدیل کر دیا۔ ان کامیابیوں کی سب سے بڑی وجہ عوامی حمایت اور تائید تھی۔
1991ء میں ایک امریکی مصنف پروفیسر ڈونلڈ کیگن کی کتاب "ایتھنزکاپیریکلز اور ولادت جمہوریت (Pericles of Athens and the birth of Democracy) شایع ہوئی۔ پروفیسرکیگن ممتاز امریکی دانش ور اور مورخ ہیں۔ وہ امریکا کی معروف یونیورسٹی ییل (Yale) میں مشرقی علوم اور یونانی تاریخ پڑھاتے رہے۔ پروفیسر کیگن کو قدیم یونان پر ایک اتھارٹی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس تصنیف میں انہوں نے ڈھائی ہزار سال پہلے کے ایتھنز اور وہاں کے جمہوری نظام کے گہرے مطالعے کے بعد چند اصول بیان کئے جو آج بھی اتنے ہی سچے اور درست ہیں جتنے پیریکلز کے زمانے میں رہے تھے۔ پروفیسر کیگن کہتے ہیں :
پہلا اصول یہ ہے کہ ادارے مضبوط اور اچھے ہونے چاہیں۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ شہری بالعموم جمہوریت کے اصولوں کو سمجھتے ہوں یا ان کا کردار جمہوری طریق زندگی سے مطابقت رکھتا ہو۔
تیسرا یہ کہ قیادت اعلیٰ پائے کی ہو، کم از کم قومی زندگی کے نازک مرحلوں میں۔
پروفیسر کیگن کہتے ہیں، " یونانی مدبرین کی کاوش ومحنت سے ایتھنز کے شہریوں میں جمہوری شعور پیدا ہوگیا، انہوں نے خاصی محنت سے اپنے ادارے مضبوط کر لئے، پھر انہیں پیریکلز کی صورت میں اعلیٰ قیادت مل گئی جس نے بڑی دانش مندی سے انہیں بحرانی حالات سے نکالا۔ پہلے دونوں اصولوں کی عدم موجودگی میں پیریکلز جیسا نابغہ بھی کچھ نہیں کر سکتاتھا۔ آج کے دور میں بھی اگر کوئی ملک یا قوم جمہوری استحکام حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ ان تین اصولوں کو اپنا کر بآسانی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔"
اگر پاکستان کے حالات پر نظر ڈالی جائے توبڑی افسوس ناک صورت حال نظر آتی ہے۔ گزشتہ ستر تہتر برسوں میں تقریباً ہمارے قومی ادارے تباہ ہوگئے یا تباہی کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ قطع نظر یہ کہ زیادہ ذمہ دار کون ہے، یہ تو بہرحال طے ہے کہ ہمارے حکمران ا پنا کردار نبھانے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ سیاستدانوں میں سے کچھ تو قیادت کے اہل ہی نہ تھے، بعض نے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینا ہی مناسب سمجھا۔ جس نے بغاوت کا جرم کیا اسے باہر نکال کیا گیا۔ فوجی حکمران اپنے تئیں چند ماہ کے لئے "قوم کونجات" دلانے آئے اور پھرذاتی اقتدار کی ہوس ان پر اس قدر غالب آئی کہ وہ چند ماہ برسوں میں تبدیل ہوگئے۔ اہل دانش میں سے بیشتر کی مصلحتوں نے انہیں خاموش کرا دیا یا پھر دستر خوان شاہی کی ترغیبات مرغوب آگئیں۔ عوام میں جمہوری شعور پیدا کرنے کے بجائے ان میں شخصیت پرستی پیدا کرنے پر زور دیا گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہماری تمام تر امیدیں کسی کرشماتی قیادت سے وابستہ ہو گئیں۔ لوگ مسیحاکا انتظار کرنے لگے یا پھر اپنی اپنی پارٹی کے قائد کو مسیحا قرار دے دیا، چاہے وہ خرابی کی بنیاد بن چکا ہو۔
اہل دانش اور قلم کاروں میں بہت سوں نے اپنی امیدیں کسی ایک یا دوسرے سیاست دان سے لگادیں۔ اس امید میں کہ ان کے ممدوح اپنی کرشمہ آفرینی سے ملک کے حالات بدل ڈالیں گے۔ یہ اہم نکتہ سب نے بھلا دیا کہ آگے بڑھنا ہے تو اداروں کی مضبوطی اور شہریوں میں شعور کا پیداکرنا زیادہ اہم ہے۔ ادارے مستحکم ہوں تو اوسط درجے کی قیادت بھی بڑے بڑے کام کر گزرتی ہے۔ شوگر سکینڈل کی رپورٹ سے ہمارے گلے سڑے نظام پر ایک ضرب تولگتی ہے، مگر جب تک جامع اصلاحات کا عمل شروع نہ ہو، اداروں کو مضبوط نہ کیا جائے، تب تک ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔ تب تک ایسی رپورٹوں پر صرف کڑھنے یا صف ماتم بچھانے سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ جو تین اصول ڈھائی ہزار سال پہلے ایتھنز کے مکینوں نے اپنے تجربات سے اخذ کئے، ہمیں بھی ان کی طرف لوٹنا ہوگا۔