طالبان کہاں کھڑے ہیں؟
افغانستان کامنظرنامہ تبدیل ہونے جا رہا ہے، پچھلے سترہ برس میں رونما ہونے والی پہلی جوہری تبدیلی۔ امریکی افواج کے انخلا میں ابھی کچھ وقت لگے گا، کم سے کم چند ماہ، اس کے بعد دیکھنا ہوگا کہ افغانستان میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ جو کچھ اب سامنے آیا اور آنے جارہا ہے، اس کا تجزیہ البتہ ہوسکتا ہے۔ چند بکھرے بکھرے نکات ہیں، جن پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، یکسوئی اگر ملے تو ان شااللہ افغانستان پر مکمل سیریز لکھی جائے، سردست اتنے پر اکتفا کیجئے۔ طالبان امریکہ مذاکرات کے حوالے سے مختلف حلقے اپنی من پسند تعبیر کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ منطقی طور پر یہ امریکہ کی شکست اور طالبان کے موقف کی جیت ہے۔ امریکی جس بات سے ماضی میں انکار کرتے رہے، اب انہیں وہی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ انہیں خدشہ تھا کہ اگر افغانستان چھوڑا تو طالبان پھر سے قابض ہوجائیں گے، اس لئے پہلے طالبان کا خاتمہ کر کے مضبوط مقامی حکومت قائم کر دی جائے۔ یہ دونوں باتیں نہیں ہوسکیں۔ طالبان ختم کیا کمزور بھی نہ ہوسکے اور مقامی حکومت یعنی اشرف غنی حکومت کی مضبوطی کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ امریکی فوجوں کی روانگی کے امکان ہی سے جس طرح یہ لرز اور کپکپا رہی ہے، اس کے بعد اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ ویسے امریکہ کی شکست کی بات صرف ہم لوگ، عامر خاکوانی، اوریا مقبول جان یا کوئی اور نہیں بلکہ خود امریکی ماہرین بھی کہنے لگے ہیں۔ دو دن پہلے واشنگٹن پوسٹ میں ریان سی کروکر کا مضمون شائع ہوا۔ موصوف پاکستان اور افغانستان میں امریکی سفیر رہے ہیں اور اس خطے کے معاملات، خاص کر افغانستان کی اندرونی صورتحال کو سمجھتے ہیں۔ بڑے کرب اور ناگواری سے کروکر نے لکھا کہ یہ سیدھا سادا سرنڈر ہے، امریکہ طالبان کے آگے سرنڈر کر رہا ہے، مذاکرات صرف سرنڈر کے طریقہ کار کو طے کرنے کے لئے ہیں کہ کیا کچھ، کس طرح کرنا ہے۔ سابق امریکی سفیر کروکرجیسی آوازیں عالمی میڈیا میں سنائی دینے لگی ہیں۔ امریکہ کی شکست تو اس لحاظ سے اب واضح ہے، تاہم بعض اہل قلم اور تجزیہ کاروں کا اصرار ہے کہ اسے طالبان کی فتح بھی نہ کہا جائے کہ ابھی مستقبل کا کچھ پتہ نہیں۔ ایساکہنے والے گوریلا جنگوں کو نہیں سمجھتے۔ طالبان ہوں یا دنیا کی کوئی بھی گوریلا تنظیم، اس کے سامنے تین فیز ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا اپنے آپ کو بچائے رکھنااور گوریلا جنگ جاری رکھنا یعنی سروائیول (Survival)۔ طالبان اس میں مکمل طور پر کامیاب ہوئے ہیں، سترہ برس پہلے ان کی حکومت ختم ہوئی، امریکی افواج تب سے افغانستان میں بیٹھی ہیں۔ سی آئی اے نے اس خطے میں اپنا سب سے بڑا نیٹ ورک قائم کیا، سینکڑوں ارب ڈالر جھونک دئیے گئے، بلیک واٹر جیسے کنٹریکٹرز کو بھی برتا گیا۔ اس کے باوجود امریکی طالبان قیادت کو ختم، کمانڈ اینڈ سٹرکچر سسٹم کو توڑ نہ سکے، فیلڈ کمانڈروں کو شکست نہ دے پائے، طالبان کی افغان عوام میں مقبولیت ختم نہ ہوسکی۔ یہ ہر لحاظ سے طالبان کی فتح ہے۔ دوسرا فیز ہے دشمن کو چھوٹے چھوٹے زخم لگا کر بے حال کرنا، حتیٰ کہ وہ اپنا قبضہ چھوڑ کر واپس جانے کا سوچے۔ اس کے منصوبہ ساز سوچنے لگیں کہ ہمیں اس ملک میں قیام کی نسبت ملک چھوڑ دینے میں زیادہ فائدہ ہے، انہیں مستقبل قریب بلکہ بعید میں بھی کامیابی کی امید نظر نہ آ رہی ہو۔ جو گوریلا تنظیم ایسا کر دکھائے، وہ فاتح ٹھیرتی ہے۔ طالبان نے یہ کر دکھایا۔ امریکہ جیسی سپرپاور کو شکست دینا ان کی بہت بڑی جیت ہے۔ طالبان کی جیت اس لحاظ سے مزید دلچسپ ہوجاتی ہے کیونکہ ان کی سرپرستی اور سپورٹ کرنے والوں میں کوئی بڑی قوت شامل نہیں۔ ویت نام جنگ میں ویت نامیوں کو روس اور چین کی بھرپور سپورٹ حاصل تھی، امریکہ کو شکست ہوئی۔ افغانستان میں روس کے خلاف افغان تحریک مزاحمت کو امریکہ سمیت پورے مغرب، عرب دنیا اور پاکستان کی بھرپور سپورٹ حاصل تھی، اربوں ڈالر کے وسائل اور سٹنگر جیسے جدید ترین میزائل بھی انہیں فراہم کئے گئے، جنہوں نے کام کر دکھایا۔ افغان طالبان کی مدد کس نے کی؟ چین، ایران؟ یہ ممالک طالبان کی حمایت کیسے کر سکتے تھے؟ ایرانی کی حمایت یافتہ ہزارہ افغانستان میں امریکی سپورٹ سے بننے والی حکومتوں کے ساتھ اور طالبان کے مخالف ہے۔ چین بھی طالبان ٹائپ مذہبی لوگوں سے فاصلہ رکھتا ہے۔ کسی نے کچھ کیا بھی ہوگا تو دور رہ کر بڑے طریقے سے مدد کی ہوگی۔ پاکستان کا سب سے زیادہ حصہ ہے، مگر وہ بھی درپردہ، مختلف حیلوں بہانوں سے ہوا ہوگا۔ اس لئے طالبان کا بغیر کسی بڑی مدد کے سپرپاور کو شکست دینا بہرحال ایک کرشمہ تو ہے۔ ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے، اسے سراہنا تو چاہیے۔ ایک اہم فیکٹر یہ بھی ہے کہ امریکہ کی شکست کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ دراصل دنیا کی واحد سپر پاور کی شکست ہے۔ ظلم اور استعمار کی ہار ہے۔ اس سے بہت کچھ نیا سیکھنے، سمجھنے کو سامنے آیا۔ یہ ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ کم وسائل اور امید نہ ہونے کے باوجود اپنے جذبوں اور جرات سے کئی سو، کئی ہزار گنا بڑی قوت کا مقابلہ ہوسکتا ہے۔ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کے مصرع کا مذاق اڑایا جاتا تھا، یہ بات اب سچ نکلی۔ بعض اوقات ظالم کی شکست کو اس لئے بھی گلوریفائی کرنا پڑتا ہے کہ اس سے دنیا بھر میں جہاں کہیں مظلوم ایسی صورتحال سے نبردا ٓزما ہیں، انہیں بھی حوصلہ ملتا ہے۔ غزہ کے محصور فلسطینی، بھارتی ظلم کا شکار کشمیریوں میں طالبان کی جیت ایک نیا ولولہ اور حوصلہ پیدا کرے گی۔ پاکستان جیسے خطرات سے دوچار ممالک میں بھی ہمت پیدا ہوگی۔ طالبان نے ابھی جنگ مکمل طور پر نہیں جیتی۔ تیسرے فیز سے انہیں گزرنا ہے۔ اس میں جنگی سے زیادہ سفارتی اور سیاسی چالیں کارگر ہوتی ہیں، سیاسی ونگ کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ ملک میں موجود مختلف گروپوں اور قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے، خانہ جنگی سے بچتے ہوئے ٹرانزیشنل پیریڈ سے گزرکر ملک میں امن وامان قائم کرنا پڑتا ہے۔ روس کے خلاف افغان مجاہدین گروپ پہلے دونوں فیز جیت گئے تھے، تیسرے رائونڈ میں ان کی باہمی لڑائیاں شروع ہوگئیں، اس افغان خانہ جنگی سے بڑا نقصان ہوا، حتیٰ کہ طالبان کا گروہ کھڑا ہوا اور عوامی تائید سے اس نے پورے ملک پر مضبوط حکومت قائم کر لی۔ طالبان کو اس بار ویسی غلطیوں سے بچنا ہوگا۔ معروف فیس بک بلاگر اور تجزیہ نگار عمیر محمود نے طالبان مذاکراتی وفد کے سربراہ شیر محمد عباس ستانک زئی کی ایک افغان چینل پر گفتگو کے حوالے سے رپورٹ دی ہے، اس میں چند بہت اہم نکات آئے ہیں۔ شیر محمد ستانک زئی سابق طالبان حکومت میں نائب وزیرخارجہ تھے، اس ممتاز طالبان لیڈر کے مطابق، "ہم امریکیوں کا مکمل انخلاچاہتے ہیں، صرف فوجی انخلا نہیں بلکہ ہر قسم کے ٹرینر بھی جائیں گے۔ جب تک ایک بھی امریکی افغانستان میں موجود ہے، طالبان جنگ آزادی کو فرض جہاد سمجھتے ہیں، تاہم طالبان اس حوالے سے دنیا کے کسی بھی ملک کو یقین دہانی کرانے کو تیار ہیں کہ افغان سرزمین انکے خلاف استعمال ہوگی نہ ہی کسی دہشت گرد تنظیم کو پناہ دی جائے گی۔ موجودہ افغان حکومت سے مذاکرات بے معنی ہیں، لیکن طالبان حکومت کے اندراور باہرتمام سیاسی قوتوں اور نسلی قومیتوں کو افغانستان کے قومی معاملات میں جائز حصہ دار سمجھتے ہیں اور مستقبل کے سیاسی نظام میں ان کی حیثیت کے مطابق شراقت اقتدار کا حق دار سمجھتے ہیں۔ امریکہ کے انخلا کے بعد ہی اس حوالے سے مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ امریکہ کے اربوں ڈالر سے قائم کردہ افغان ادارے اور نظام قومی ادارے نہیں بلکہ بدنام مافیاز ہیں جو امریکی انخلا کے بعد برقرار نہیں رہ سکتے۔ ان کی جگہ نئے ادارے اور نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی بنائی نااہل اور کرپٹ تین لاکھ افغان فوج کے بجائے چھوٹی قومی فوج اور امن قائم کرنے کے لئے ایک قانون درکار ہے۔ اس لئے ایسی حکومت قائم کی جائے جو افغانستان کے تمام ہمسایوں کے علاوہ تمام دنیا کے لئے قابل قبول ہو اور ملک میں بڑی معاشی سرمایہ کاری ہوسکے۔ اسی لئے طالبان چاہتے ہیں کہ امریکہ ایک دوست ملک کے طور پر افغانستان سے جائے، روس کی طرح شکست خوردہ دشمن کے طور پر نہیں۔ غیر ملکی قبضے کے خاتمے کے بعد ایک متفقہ آئین کے لئے تمام افغان سیاسی قوتوں، نسلی قومیتوں سے بات چیت کر کے نظام بنایا جائے گا، لیکن وہ ہر حال میں اسلامی ہوگا۔"طالبان مذاکراتی وفد کے سربراہ کا یہ انٹرویو بڑا اہم ہے اور اس میں طالبان کے مستقبل کا پورا روڈ میپ موجود ہے۔ اس پر کس حد تک عمل ہوپاتا ہے، یہ ایک الگ سوال ہے۔ بہت سے اگر مگر (Ifs & Buts)بھی موجود ہیں۔ موجودہ افغانستان میں تاجک، ازبک، ہزارہ ماضی کے مقابلے میں بہت آگے جا چکے ہیں، اب انہیں 96ء کی سطح پر واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔ طالبان انہیں کس حد تک اکاموڈیٹ کریں گے، افغان بچیوں اور خواتین کے حوالے سے کیا رویہ ہوگا؟ کابل اور بڑے شہروں میں ہزاروں نوجوان افغان باہر سے پڑھ کر آئے ہیں، ملکی انتظامی سٹرکچر وہ چلا رہے ہیں، طالبان انہیں کس حد تک برداشت کریں گے؟ بھارت کا کردار اب کیا ہوگا؟ جس تین لاکھ افغان فوج کو طالبان ختم کرنا چاہ رہ ہیں، اس کا ردعمل کیا ہوگا؟ یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں، ان کے جوابات پر بہت کچھ منحصر ہے۔