سیکھنے کی باتیں
رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا ہے، زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے، گناہوں سے توبہ اور مغفرت کا مہینہ۔ اپنے پچھلے کالم میں فلسطینی نژاد امریکی سکالر شیخ عمر سلیمان کے رمضان کے حوالے سے بلاگز کا ذکر کیا اور چار نکات نقل بھی کئے۔ سچی بات ہے کہ اس نوجوان سکالر نے مجھے متاثر کیا ہے۔ سادہ اسلوب میں خوبصورت، دل میں اتر جانے والی باتیں، ایسے پوائنٹس جن پر عام حالات میں غور نہیں کیا ہوتا۔ شیخ عمر سلیمان کی تحریروں اور ویڈیو بلاگز کے حوالے سے کچھ مزید باتیں اس کالم میں اور آئندہ تحریروں میں آتی رہیں گی۔ ان سے ہٹ کر بھی ایک دو پوائنٹس جو ذہن میں آئے یا کسی نے بتائے، وہ بھی شامل کئے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ رمضان کے ان بابرکت دنوں میں اور خاص کر جب دنیا پر کورونا وبا کے خوفناک سائے منڈلا رہے ہیں، پاکستان میں بھی یہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں اور پچھلے چند دنوں میں کئی سو نئے مریض سامنے آئے ہیں۔ ایسے میں ہمیں مل جل کر، ایک دوسرے سے مثبت باتیں سیکھنی، سکھانی چاہئیں۔ کوئی ایک بھی اچھی عادت زندگی کا حصہ بن گئی، ایسا کارِخیر ہوگیا جو رب تعالیٰ کو پسند آ گیا تو سمجھئے کہ زندگی کامیاب ہوگئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کی آخرت برباد ہوگئی، اس کی دنیاوی زندگی میں خواہ کتنی بڑی معاشی کامیابیاں حاصل کیں، ان کی ذرہ برابر بھی حیثیت نہیں۔
رمضان کا مہینہ بنیادی طور پر خلوت، اپنے رب سے تعلق جوڑنے، اپنا احتساب کرنے سے متعلق ہے۔ اپنے اوقات کار کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ نماز، تلاوت، تسبیحات وغیرہ کے بعد کچھ وقت اکیلے بیٹھ کر اپنا تذکیہ نفس کیا جا سکے۔ چاہے ایک گھنٹہ روزانہ نکالا جا سکے، مگر اپنا احتساب ضرور کریں۔ اب تک کی زندگی میں کیا حاصل کیا، کیا کھویا؟ اپنے قریبی رشتوں، تعلق کو کس قدر نبھایا؟ والدین، بہن بھائیوں، قریبی عزیزوں کے ساتھ کیسا تعلق رہا؟ شادی کی صورت میں بیوی، بچوں کے ساتھ کیا معاملہ رہا؟ ان کے کس قدر حقوق پورے کئے، بچوں کی تربیت کے ضمن میں بھی کچھ ہو پایا یا زندگی کے تیز رفتار سفر میں اس طرف دھیان ہی نہیں جا رہا؟ کسی کے ساتھ زیادتی، ظلم تو نہیں کیا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ آپ کی اولین ترجیح ہے یا نہیں؟ اپنی زندگی کے منصوبوں میں رب کریم کو پہلے نمبر پر رکھا ہے یا نہیں؟ احتساب کا یہ عمل زندگی کی سمت درست کر دیتا ہے۔ شیخ عمر سلیمان نے ایک معروف حدیث کا حوالہ دیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ جس کسی نے ایمان کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اور اپنا احتساب کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
ایک انوکھی، دل کو چھونے والی بات گزشتہ روز سنی۔ ہمارے قابل احترام سینئر صحافی نے یہ بتایا، کہنے لگے "حرم شریف میں اپنا زیادہ وقت گزارنے والے ایک مشہور بزرگ صوفی نذیر احمد کی ایک بار بات سنی، انہوں نے کہا کہ آپ اپنی کسی ایک بڑی خامی پر قابو پانا چاہتے ہیں، کچھ ایسا جو زندگی کے لئے لازم وملزوم بنے تو تصور میں سرکار مدینہ ﷺ سے وعدہ کر لیں کہ اسے ہمیشہ کریں گے اور کبھی انحراف نہیں ہوگا۔ رب تعالیٰ اپنے حبیب سے کئے گئے عہد کو پورا کرنے کی توفیق بھی دے گا اور جب کبھی سستی یا نفس کی وجہ سے وہ وعدہ ٹوٹنے لگے گا تو آپ کو اپنے آقا ﷺکا خیال آ جائے گا اور امید واثق ہے کہ ایسا نہ ہوپائے۔" ان سینئر صحافی سے اجازت نہیں لی، ورنہ نام لکھ دیتا۔ صوفی نذیر صاحب کی بات سنانے کے بعدوہ بتانے لگے، " اخبار میں نائٹ شفٹ کی وجہ سے میری نمازوں میں باقاعدگی ختم ہوگئی تھی، کئی بار رہ جاتی، میں نے آپ ﷺ سے یہ عہد کیا کہ آئندہ نماز میں پابندی کروں گا۔ اس بات کو بہت سال گزر گئے، مگر رب تعالیٰ کی ایسی رحمت اور مہربانی ہوئی کہ تب سے باقاعدگی چل رہی ہے۔ کبھی سستی یا تھکن کی وجہ سے جی چاہتا ہے کہ نماز چھوڑ دی جائے تو فوری طور پر اس وعدے کا احساس دامن گیر ہوجاتا ہے کہ روز قیامت اپنے نبیﷺ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے، ہمت کر کے نماز پڑھ لیتا ہوں۔" یہ بات سننے کے بعد میں دم بخود رہ گیا۔ ہمارے کھاتے میں تو ایسے بہت سے وعدوں کی گنجائش نکلتی ہے، دنیا دار، نفس کے غلام بنے ہیں۔ بات بڑی ہے، ہمت کرنے کی ضرورت ہے۔ رب تعالیٰ کی مدد کا یقین رکھنا چاہیے اوراللہ کے آخری رسول ﷺ کی اپنے امتیوں سے محبت اور پیار تو مسلمہ ہے ہی۔
ایک ایسی ہی انوکھی بات برسوں پہلے ایک دوست نے سنائی تھی۔ کہنے لگے، " ان کے استاد نے ایک عجیب نکتہ بتایا ہے، ان کے بقول کلمہ طیبہ پڑھ کردل ہی دل میں رب تعالیٰ کو بطور امانت رکھوا دیا جائے، اس درخواست کے ساتھ کہ آخری لمحات میں مجھے یہ کلمہ لوٹا دیا جائے۔ اللہ سے بڑھ کر امانت دار اور کون ہو سکتا ہے؟ وہ یقینا آخری وقت میں یہ امانت واپس کریں گے اور یوں کلمہ شہادت ہی پر زندگی کا اختتام ہوجائے گا۔" یہ بات سن کر سب دوست دم بخود رہ گئے۔ بڑی عجیب، مگروزن رکھنے والی بات لگی۔ ہر ایک نے فوری طور پر عمل بھی کر ڈالا۔
شیخ عمر سلیمان نے ایک بلاگ میں رمضان میں دل کھول کر چیریٹی کرنے پر زور دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ رمضان میں عالی مرتبت ﷺ کی سخاوت عروج پر ہوتی تھی، ٹھاٹھیں مارتے سمندر والی کیفیت بیان کی جاتی ہے۔ عام طور پر ہم خیراتی تنظیموں کو مدد دینے کے حوالے سے کالم لکھتے ہیں توبعض لوگ شائد اسے ان تنظیموں کی سپورٹ میں لکھی تحریر سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ان تنظیموں کو آپ کی مدد چاہیے، مگر یاد رکھیں صدقہ خیرات کرنا آپ کا اپنا روحانی تجربہ اور تذکیہ نفس ہے۔ اس کے زیادہ ثمرات اور فوائد آپ کی شخصیت اور گھر کو حاصل ہوتے ہیں۔ تنظیموں کو دینے والا کوئی اور بھی ہوسکتا ہے، مگر اللہ کی راہمیں دینے سے رب تعالیٰ کی بہترین رحمتوں، بہترین برکات اور بہترین نعمتوں میں آپ حصے دار بن جاتے ہیں، ورنہ یہ سعادت کسی اور کو مل جائے گی۔
یہ درست ہے کہ ہماری بیشتر اچھا کام کرنے والی معروف تنظیموں کو رمضان کے عطیات، زکواتہ وغیرہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان کی سال بھر کی فنڈ ریزنگ کا دارومدار رمضان کمپین پر ہے۔ کئی باربدقسمتی سے رمضان سے پہلے کوئی آفت یا تباہی آجائے تو لوگ ظاہر ہے ادھر فنڈز مختص کر دیتے ہیں۔ نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان تنظیموں کے اہداف پورے نہیں ہوتے۔ اخوت، الخدمت، غزالی ٹرسٹ سکول، کاروان علم جیسی تنظیمیں ملک میں بے شمار فلاحی پراجیکٹ چلا رہی ہیں۔ اخوت لاکھوں لوگوں کو بلا سود قرضے دے رہی ہے، الخدمت صحت اور عوامی خدمت کے بہت سے منصوبوں میں مصروف ہے، جن میں یتیموں کی پرورش بھی شامل ہے۔ غزالی ٹرسٹ سکول کا ہدف تعلیم ہے، پسماندہ علاقوں کے سینکڑوں سکولوں کے ہزارہا طلبہ وطالبات کو معیاری تعلیم دی جارہی ہے۔ کاروان علم فائونڈیشن بے سہارا لائق طلبہ کو سکالرشپ دے کر زندگی میں آگے بڑھنے کا موقعہ دیتی ہے۔ بعض دیگر تنظیمیں بھی اچھا کام کر رہی ہیں۔ ان سب کو ہماری مدد چاہیے۔ یہ درست ہے کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے اہل خیر نے دل کھول کر مستحق لوگوں کو راشن پہنچایا، مالی مدد فراہم کی، اپنی گنجائش سے زیادہ خرچ کرنا آسان نہیں۔ ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ تاجر برادری اور اپر مڈل کلاس کے لوگ معاشی دبائو میں آ گئے ہیں۔ عام طور پر یہ طبقہ خاصا حصہ ڈالتا ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں، مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ، اپنے حصے کی روٹی سے ایثار کر کے ہی سہی، ہمیں دینا ہوگا۔ یہ وقت قربانی اور ایثار کا ہے، معمول سے زیادہ ہاتھ کھلا کرنا ہوگا۔ چیریٹی کے حوالے سے قرآن کا حکم ہے کہ اپنی پسندیدہ اور محبوب چیزوں میں سے دیا جائے۔ شیخ عمر سلیمان نے لکھا ہے کہ قرآن کا یہ حکم سننے کے بعد ایک مشہور صحابی نے مدینہمیں اپنا بہترین باغ عطیہ کر دیا، یہ سوچ کر کہ مجھے یہ باغ بہت پسند ہے، اسے خیرات کیا جائے تاکہ رب خوش ہو کر جنت میں بہترین صلہ دے۔ اسی طرح صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن عمر اپنے پسندیدہ اونٹ پر سواری کر رہے تھے، انہوں نے ستائشی نظروں سے اپنے اونٹ کو دیکھا اور پھر خیال آنے پر فوری اونٹ سائیڈ پر کر کے کھڑا کیا، نیچے اترے اور قریب کھڑے ایک غریب شخص کو اونٹ ہدیہ کر دیا۔ وہی سوچ کہ اپنی پسندیدہ چیزوں سے عطیہ کیا جائے۔ اصل تذکیہ نفس یہی ہے۔