سانحہ نیوزی لینڈ، کیا سیکھنا چاہیے؟
کرائس چرچ میں نمازیوں پر جو قیامت ٹوٹی، اس بارے میں کیا کہا جائے۔ ایک لہورنگ ویڈیو سوشل میڈیا پرچلی، بعد میں اسے روک دیا گیا، اچھا ہوا۔ ایسی ویڈیوز دیکھی نہیں جاتیں۔ منظر مدتوں پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ہم پاکستانی ایسے بہت سے زخم اپنی روح میں چھپائے بیٹھے ہیں۔ مساجد میں نمازیوں پر فائرنگ، بازاروں، اہم مقامات پر دھماکے، جنازوں میں خود کش حملے … اور نجانے کیا کیا۔ بہت سوں نے ٹی وی دیکھنا ہی چھوڑ دیاتھا کہ دکھ برداشت سے باہر ہوگیا۔ نیوزی لینڈ پرامن ملک سمجھا جاتا ہے، پہلی بار ایسی خوفناک دہشت گردی ہوئی، وہاں کے عوام بری طرح سہم گئے ہوں گے۔ کرائسٹ چرچ کی مساجد میں شہید ہونے والے مسلمانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر مغرب کو ایک بڑا شاک پہنچایا اور دہشت گردی کے حوالے سے ان کا پورا ویو پوائنٹ بدل ڈالا ہے۔ وہاں اب بھی جو پرانے اسلاموفوبیا والے تعصبات کا اسیر ہے، اس کی شدت پسندی اور سنگ دلی میں کوئی شبہ نہیں۔ مغرب میں ایک عام تاثر یہ بنایا گیا تھا کہ دہشت گردی صرف مسلمان شدت پسند تنظیمیں کر رہی ہیں اور اس کے علاوہ ہونے والے واقعات دہشت گردی نہیں بلکہ انفرادی جنون یا ذہنی مرض کے باعث ہیں۔ یورپ میں بعض واقعات پہلے ہوچکے ہیں، چند برس قبل ناروے میں ایک وحشت ناک المیہ ہوا تھا، امریکہ میں بہت سے ایسے حملے اور کارروائیاں ہوچکی ہیں۔ بعض کانشانہ مسلمان تو کسی حملے میں سیاہ فام کمیونٹی ہدف بنی۔ ایسے تمام حملوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ ان کے لئے تنہا بھیڑیے (Lone Wolf) کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے یعنی یہ اکیلا درندہ تھا، بھیڑیوں کے کسی غول کی نشاندہی نہیں کر رہا۔ اس کے برعکس کہیں پر کسی شدت پسند مسلمان نے انفرادی طور پر کوئی کارروائی کی تو اس کا تعلق بھی کسی نہ کسی انداز میں القاعدہ یا ایسی کسی دہشت گرد تنظیم سے جوڑنے کی کوشش ہوئی۔ کوئی ثبوت نہ ملا تو فیس بک کے جعلی پیج بنا کر ہی شک کا جواز بنایا گیا۔ سانحہ کرائسٹ چرچ میں کسی باقاعدہ سٹرکچر رکھنے والی دہشت گرد تنظیم کا پتہ چلتا ہے یا نہیں، ایسا نہ ہو تب بھی یہ تو واضح ہوگیا کہ نسل پرست دہشت گردی کی ایک خوفناک شکل ایسی ہے جو مغرب میں جڑیں پکڑ چکی ہے، اس کی نشاندہی میں مجرمانہ غفلت برتی گئی۔ وائٹ سپرمیسی یعنی سفید فام احساس برتری کا جنون رکھنے والے شدت پسند امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا وغیرہ میں موجود ہیں۔ ان کے باقاعدہ رابطوں کے حوالے سے اگر کھوج لگایا جائے تو یقینا بہت کچھ سامنے آئے گا، ممکن ہے کوئی باقاعدہ القاعدہ ٹائپ نہ سہی، اس سے ملتی جلتی شدت پسند نسل پرست تنظیم سامنے آ جائے۔ یہ تو پتہ چل گیا کہ نسل پرست طرز فکر ایک پورا سکول آف تھاٹ بن چکا ہے، جس کے اثرات بھی گہرے ہیں اور اس سے منفی انسپائریشن لینے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ یہ متاثرین اب صرف بدزبانی، تھپڑ، مکے کی زیادتی تک محدود نہیں بلکہ گن فائٹ میں ماہر ہوچکے ہیں اور گن لے کر نہتے مسلمانوں پر گولیاں برسانے کی انتہا تک جا چکے ہیں۔ وائٹ سپرمیسی یا سفید فام نسل پرستی کو مغرب میں پہلے بڑا خطرہ نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ نسل پرستی کی اس قسم کو ماضی میں صرف سخت گیر سوچ سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا۔ بدقسمتی سے مغرب میں انتہائی رائٹ ونگ کی سیاسی جماعتیں خاصی نمایاں ہوئی ہیں، بعض نسل پرست سوچ رکھنے والے لیڈر بھی ابھرے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کو اس طرح کا نسل پرست رہنما تو نہیں کہا جا سکتا، انہوں نے نسل پرستوں کے جذبات استعمال کر کے ووٹ ضرور لئے ہیں۔ اس طرح سے ایک رشتہ ضرور قائم ہوا ان میں۔ اب مغربی حکومتوں، قانون سازوں اور انٹیلی جنیشا کو نسل پرستی کے اس آسیب کوبہت سنجیدگی اور توجہ سے ڈیل کرنا ہوگا۔ کئی مسلمان ممالک نے اس حوالے سے تساہل برتا اور پھر وہاں دہشت گردی کا جن بوتل سے باہر آنے کے بعد واپس جانے کو تیار نہیں ہوا، ہزاروں قیمتی جانیں چلی گئیں۔ اس سانحے کی کہیں نہ کہیں غیر ذمہ دار میڈیا رپورٹوں اور اسلامو فوبیا کو تخلیق کرنے والے امریکی، یورپی اہل دانش، لکھاریوں اور فلم ڈائریکٹروں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ نائن الیون کے بعد خاص طور سے نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا گیا۔ شروع میں امریکہ کی مسلم تنظیموں اور بعد میں دنیا بھر کے فہمیدہ حلقوں نے یہ بات بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں اور دہشت گرد تنظیموں میں فرق کیا جائے؟ دہشت گردی کے اپنے اسباب، وجوہات اور مائنڈ سیٹ ہوتا ہے۔ شروع وہ مذہبی شدت، نسل پرستی، لسانی یا کسی بھی ایشو کی وجہ سے ہوجائے، مگر بعد میں ہر دہشت گرد تنظیم ایک خاص پیٹرن پر ہی کام کرتی ہے اور خاص انداز ہی سے اس کا خاتم ہوسکتا ہے۔ مغرب میں مختلف وجوہات کی بنا پر بعض حکومتوں نے بھی اسلاموفوبیا کے جذبات کی حوصلہ افزائی کی۔ یوں مسلمانوں کو نفرت کی ایک بڑی لہر سے واسطہ پڑا۔ خاصے مصائب سہنے کے بعد پچھلے دو چار برسوں سے صورتحال قدرے بہتر ہوئی، مگر اب نیا فتنہ سفید فام جذبہ برتری سے سرشاردہشت گردوں کی صورت میں آیا ہے۔ کرائسٹ چرچ جیسا واقعہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک نئے انتہائی خطرناک، لہو رنگ ٹرینڈ کی خبر دے رہا ہے۔ اگر نسل پرستی کو روکا نہ گیاتو پھر اس طرح کے واقعات مختلف جگہوں پر ہوتے نظر آئیں گے۔ مغربی سماج کا فیبرک بھی ادھڑنا شروع ہوجائے گا۔ ایک اور بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب کے خلاف سرگرم شدت پسند مذہبی تنظیموں کی دہشت گردی کی وجوہات مختلف ہیں۔ ان میں خاصا کچھ سیاسی جبر، امریکہ جیسی سپرپاور کا غاصبانہ ایجنڈا، بھارت و اسرائیل کی ناجائز حمایت اور مسلمانوں کو دبانے کا عمومی رویہ ہے۔ ہمارے ہاں اس بات کو سمجھنا اور آسان ہے۔ القاعدہ کا پہلے سے وجود تھا، لیکن نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی نے امریکہ کے خلاف جذبات کو سو سے ضرب لگا دی۔ القاعدہ کو بہت سے ریکروٹ اسی وجہ سے ملے بلکہ ٹی ٹی پی جیسی بدترین دہشت گرد تنظیم کو بھی زیادہ تر افرادی قوت امریکہ کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے اور پاکستانی فوج کو امریکی پراکسی آرمی قرار دے کر ملی۔ یہ خود کش بمبا ر جنہوں نے پاکستان میں ہزاروں لوگ شہید کئے، دراصل یہ اپنی دانست میں امریکیوں اور ان کے حامیوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ ایسا کیوں کر رہے تھے، اس لئے کہ امریکی فوج نے افغانستان پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس کے خلاف لڑنا چاہیے۔ یہی وہ بیانیہ ہے جسے مذہبی دہشت گرد تنظیمیں استعمال کرتی ہیں۔ اس کے برعکس سفید فام نسل پرست دہشت گردی صرف اور صرف نسلی برتری، غیر سفید فاموں کے لئے بیزاری، امریکہ اور یورپ میں پناہ لینے والے تارکین وطن کے خلاف نفرت اورمقامی وسائل آنے والوں میں شیئر ہوجانے کے حوالے سے ہے۔ یہ الگ نوعیت کی دہشت گردی ہے اور اس میں سراسر خبط عظمت، نسلی جنون اور پاگل پن کی حد تک پہنچی تہذیبی نرگسیت موجود ہے۔ اس لئےمغرب کے خلاف ہونے والی دہشت گردی اور مغرب سے پھوٹنے والی دہشت گردی دونوں کا موازنہ درست نہیں۔ واضح رہے کہ مقصد مذہبی یاخود کو مسلمان کہلانے والی دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ فراہم کرنا ہرگز نہیں۔ وہ بھی دہشت گردہیں، کسی بھی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں۔ بتانا یہ تھا کہ دونوں کے اسباب الگ ہیں، اس لئے اس کا تدارک بھی مختلف انداز میں کیا جائے۔ مغرب خاص کر امریکہ اگر اپنے رویے پر نظرثانی کرے، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل پر دبائو ڈال کر فلسطین کا منصفانہ حل نکال لے، ریاستوں کو دبانے کی روش چھوڑ دے تو مغرب کے خلاف انتہا پسندی اور دہشت گردی میں نمایاں کمی واقع ہوجائے گی۔ سفید فام نسل پرست دہشت گردی تب بھی جاری رہے گی، کیونکہ یہ کسی ظلم کے خلاف نہیں بلکہ ظلم کرنے کی نیت سے شروع ہوئی ہے۔ اس کے لئے نسل پرستانہ رویوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ ایک اہم پہلو نیوزی لینڈ کی حکومت اور خاتون وزیراعظم کا نہایت مثبت، قابل تحسین رویہ رہا ہے۔ وزیراعظم نے پہلے دن ہی سے اس سانحہ کو دہشت گردی قرار دیا اور بغیر لفظ چبائے درست موقف اپنایا۔ اپنے شہریوں کے غم، دکھ میں وہ شریک ہوئیں۔ انہوں نے امریکہ اور بعض یورپی ممالک کے حکمرانوں کو عملی طور پر بتایا کہ درست طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ حکومتی سطح پر ایک بڑا اہم فیصلہ فوری ہتھیاروں پر پابندی لگا کر کیا۔ صرف ایک دن کے اندر آٹو میٹک اور سیمی آٹو میٹک اسلحہ پر پابندی لگا دی۔ یقینی طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو فعال بنانے کے ساتھ پولیس اور دیگر محکموں کو بھی متحرک کیا گیا ہوگا۔ امریکہ کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کیونکہ وہاں جنونیوں کی فائرنگ سے بے شمار اموات ہوچکی ہیں، مگر گن ایسوسی ایشن کی قوت کے باعث آج تک ہتھیاروں پر پابندی نہیں لگ سکی۔ پاکستان جیسے ممالک کو بھی نیوزی لینڈ کے اس رویے سے سیکھنا چاہیے۔ ہماری حکومتوں نے غفلت کا مظاہرہ کئے رکھا، جس سے بہت سی اموات ہوئیں۔ اب کوئٹہ میں ہزارہ کلنگ کا معاملہ دیکھ لیجئے، وہاں کی صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر پہلے سانحے کے بعد پوری قوت کے ساتھ سرگرم ہوتے تو شائد اتنا نقصان نہ ہوپاتا۔ اس المیہ سے مغرب کے ساتھ ہم بھی خاصا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔