1.  Home
  2. Amir Khakwani
  3. Sadiq Khan Ki Tareekhi Kamyabi

Sadiq Khan Ki Tareekhi Kamyabi

صادق خان کی تاریخی کامیابی

پاکستانی نژاد صادق خان نے لندن کے میئر کا الیکشن جیت لیا، وہ تیسری بار مئیر منتخب ہوئے ہیں۔ یہ اس اعتبار سے تاریخی کامیابی ہے کہ آج تک کوئی بھی شخص لندن کا دو بار سے زیادہ میئر نہیں بن سکا۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن دو بار لندن کے میئر بنے تھے۔ لبیر پارٹی سے تعلق رکھنے والے صادق خان نے اب تیسری بار میئر بن کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے، ان کا پاکستانی نژاد اور مسلمان ہونا دیکھا جائے تو یہ کامیابی مزید بڑی اور حیران کن ہوجاتی ہے۔ بعض حلقے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ لندن کا مئیر برطانیہ کے وزیراعظم کے بعد سب سے طاقتور عہدہ ہے، اس پر متواتر تیسری بار براجمان ہونا بڑی کامیابی ہے۔

ایک بس ڈرائیور کے بیٹے صادق خان نے چوالیس فیصد کے قریب ووٹ لے کر لندن کے عوام کا مینڈیٹ حاصل کیا۔ انہوں نے مخالف کنزرویٹو ٹوری پارٹی کی خاتون امیدوار سوزین ہال کو پونے تین لاکھ ووٹوں کے واضح مارجن سے شکست دی۔ صادق خان کا یہ مارجن ان کی پہلی جیت (2016)جتنا ہی ہے۔ لیبرپارٹی کی کارکردگی بھی اس بار بہتررہی، اگرچہ بعض پاکٹس کنزرویٹوز نے ضرور حاصل کیں۔

صادق خان کی کامیابی کے حوالے سے خبریں اور تفصیلات برطانوی اخبارات اور ویب سائٹس سے پڑھ رہا تھا، ان میں سے بعض دوستوں کے ایک گروپ میں شیئر کیں تو ایک دو لوگوں نے پوچھا کہ اس میں اتنا خوش ہونے والی کیا بات ہے؟ صادق خان کون سا پاکستانی ہے یا اس نے پاکستان کو سپورٹ کرنا ہے؟ سوال دلچسپ تھا، میں نے جواب میں کہا، آپ شائد نہیں جانتے کہ اس میئر کے الیکشن میں اور اس سے پہلے بھی صادق خان پر ایک پاکستانی نژاد اور مسلمان ہونے کے ناتے بہت تنقید ہوتی رہی ہے۔ اس قدر منفی اور زہریلی مہم ان کے خلاف چلائی گئی کہ خود برطانوی سفید فام لکھاری، سوشل ایکٹوسٹ اور سیاسی کارکن بھی چلا اٹھے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے نام لے کر کئی بار صادق خان پر سخت تنقید کی اور ان کے بارے میں نامناسب کمنٹس کہے۔ دراصل اسلامو فوبیا کی کمپین کا صادق خان ہمیشہ نشانہ بنتے آئے ہیں، اگرچہ وہ ایک معتدل آدمی ہیں اور انہوں نے مختلف کمیونیٹیز اور مذاہب کے لوگوں کو ساتھ ملانے کی خاصی کوشش بھی کی۔

صادق خان نے اس بار میئر کا الیکشن جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں ان سب چیزوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہیں سوشل میڈیا پر ٹرول کیا جاتا رہا، دھمکیاں ملتی رہیں، گھر کے باہر مظاہرے کرکے ان کے بچوں کو خوفزدہ کیا گیا اور مخالف ٹوری پارٹی کے شدت پسندوں نے مختلف فیس بک گروپوں میں خوب زہر اگلا۔ صادق خان نے اپنی اہلیہ سعدیہ اور دونوں بیٹیوں انیسہ اور عمارہ سے معذرت بھی کہ کہ ان کی سیاست کی وجہ سے یہ سب کچھ انہیں جھیلنا پڑا۔

یوں بات سادہ اور صاف ہوجاتی ہے، اگر صادق خان کو پاکستانی نژاد اور مسلمان ہونے کے ناتے نشانہ بنایا جائے گا تو ان کی کامیابی پر پاکستانی، مسلمانوں کا خوش ہونا قابل فہم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک امیگرنٹ فیملی سے تعلق رکھنے والا شخص اگر ایسی غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرتا ہے تو یہ برطانیہ میں مقیم ہزاروں لاکھوں تارکین وطن باشندوں، خاص کر جنوبی ایشیائی اور پاکستانیوں کے لئے کیسی بڑی انسپائریشن کا باعث ہوگا؟

صادق خان نے غزہ میں سیز فائر کے لئے بھی جرات سے آواز بلند کی، حالانکہ تب ان کی اپنی جماعت لیبر پارٹی ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔ صادق خان کو اس لئے اسرائیل نواز حلقوں کی جانب سے تنقیدکا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تنقید بھی کی جاتی رہی کہ انہوں نے لندن میں بڑے بڑے فلسطین حامی مظاہروں کی اجازت دی۔ اگرچہ صادق خان یہود دشمنی رویوں کی مذمت کرتے رہے اور انہوں نے کئی ممتاز جیوش لیڈروں سے ملاقاتیں بھی کیں تاکہ غزہ پر اسرائیلی مظالم کے ردعمل میں کہیں یہودی آبادی کو نقصان نہ پہنچے۔

صادق خان نے لندن کی لوئرمڈل کلاس اور لوئر کلاس کے لئے کئی اہم کام کئے ہیں۔ وہ لندن میں کم آمدنی والوں کے لئے سستے گھر بنار ہے ہیں، انہوں نے مہنگائی کے باوجود بسوں اور میٹرو کا کرایہ فریز کر دیا اور اس میں اضافہ نہیں ہونے دیا، اسی طرح وہ سکول کے بچوں کو فری لنچ دے رہے ہیں بلکہ اب انہوں نے سات سال سے گیارہ سال کے بچوں کو بھی اس میں شامل کیا ہے، جس پر ایک ارب پائونڈ خرچ آئے گایعنی ساڑھے تین سو ارب روپے سالانہ۔ اس سب پر حکمران جماعت ٹوری پارٹی سخت تنقید کرتی رہی ہے۔ گارڈین کی ایک کالم نگار خاتون نے تاسف سے لکھا کہ صادق خان جیسی پالیسیاں اور سوچ مانچسٹر کے میئر اینڈی برن ہائم کی ہیں، اینڈی نے بھی غزہ پر فلسطینی مظاہروں کی اجازت دی جبکہ وہ بھی کم آمدنی والوں کے لئے سستے گھر بنا رہے ہیں، بس، میٹرو کرایوں میں بھی کنٹرو ل رکھا ہوا ہے، مگر صادق خان پر کئی سو گنا زیادہ تنقید ہو رہی ہے، صرف اس لئے کہ وہ ایک مسلمان اور جنوبی ایشیائی ہے۔

حالیہ غزہ بحران میں لیبر پارٹی کا موقف بھی قابل تنقید رہا ہے، مگر اس کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ برطانیہ میں کنزرویٹو ٹوری پارٹی کے بجائے سینٹر لیفٹ کی جماعت لیبر کا اقتدار میں آنا بعض حوالوں سے وہاں کے عوام کے لئے مفید ہوگا۔ لیبر پارٹی کسی نہ کسی حد تک سوشل جسٹس اور کم آمدنی والے لوگوں کی فلاح کے لئے کچھ کرنے پر یقین رکھتی ہے، کنزرویٹو پارٹی روایتی طور پر شدید قسم کی کیپٹلسٹ ہے اوران سے زیادہ امید نہیں رکھی جا سکتی۔

لندن کے ان انتخابات کو دیکھ کر احساس ہوا کہ نجانے ہمارے حکمران کب ہمارے بلدیاتی نظام کو مضبوط اور موثر بنائیں گے۔ ن لیگ، پی پی پی اور تحریک انصاف سمیت ہماری تقریباً تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی اداروں کی دل وجاں سے مخالف ہیں۔ ان میں سے کوئی بلدیاتی الیکشن کرانے کی زحمت نہیں کراتا۔ الیکشن ہوجائیں تو بلدیاتی اداروں کو فنڈز اور اختیارات نہیں دئیے جاتے۔ ن لیگ کی پچھلی حکومت میں دو سال بعد سپریم کورٹ کے دبائو پر بلدیاتی الیکشن کرائے گئے اور لاہور کا لارڈ میئر ایک نہایت غیر معروف شخص کو بنایا گیا، جس کے پاس معمولی سا اختیار بھی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تین چار سال تک موصوف لاہور کے لارڈ میئر رہے اور کوئی ان کے نام تک سے واقف نہیں۔

تحریک انصاف کی بزدار حکومت نے بلدیاتی ادارے قبل از وقت توڑ ڈالے اور پھر بلدیاتی الیکشن کرائے ہی نہیں، کے پی میں البتہ الیکشن دو مرحلوں میں کرائے گئے۔ پچھلا پورا سال نگران حکومت اور سب کام کرتی رہی، بلدیاتی اداروں کے الیکشن کرانے کا اسے بھی خیال نہ آیا۔ پیپلزپارٹی نے کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں جس طرح مینڈیٹ چوری کیا اور ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے جماعت اسلامی کا میئر نہ بننے دیا، وہ سب کے سامنے ہی ہے۔

کہاجاتا ہے کہ لندن کا میئر پیرس یا نیویارک کے میئر جتنا طاقتور نہیں پھر بھی لندن میٹروپولیٹن کا بجٹ بیس بلین پاونڈ یعنی پچیس ارب ڈالر ہے۔ پاکستانی روپوں میں اسے تقسیم کرکے دیکھ لیں۔ یہ ایک شہر کے بلدیاتی ادارے کا بجٹ ہے۔ شہر کی ٹرانسپورٹ اسی کے تحت چلتی ہے اور پولیس کا نظام بھی یہی دیکھتے ہیں۔ سکولوں کا پہلے ذکر ہوچکا۔ اب بلدیاتی ادارہ ہی کم آمدنی والے لوگوں کے لئے چالیس ہزار مکان بھی بنا رہا ہے۔ صادق خان شہر کی فضا صاف اور پانی بھی صاف کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تمام ٹرانسپورٹ کو الیکٹرک گاڑیوں پر شفٹ کرنا چاہ رہے، انہوں نے ماحولیاتی آلودگی پر جرمانوں کی طرح بھی ڈالی ہے، سپیشل زون (یولیزULEZ)بنائے گئے ہیں جہاں ایسی گاڑیوں پر جرمانے ہوں گے۔ صادق خان کا ایک خواب یہ بھی ہے کہ لندن کے تاریخی دریا ٹیمزکے پانی کو صاف کرکے اسے سوئمنگ کے قابل بنانا ہے۔

صادق خان کی کامیابی لندن والوں کو مبارک ہو۔ ہم تو اس کامیابی سے صرف یہ خواب کشید کر سکتے ہیں کہ کبھی ہمارے ہاں بھی اتنے طاقتور اور بااختیار بلدیاتی ادارے ہوں گے جہاں عوام دوست میئر منتخب ہو کر لوگوں کا بھلا کر سکیں۔

Check Also

Exceptional Case

By Azhar Hussain Bhatti