ردِانقلاب
مختار مسعود اردو کے بے مثال نثر نگار ہیں۔ ان کی کتابوں میں صرف سحرانگیزنثری زبان ہی نہیں ملتی بلکہ دانش کے موتی بھی پروئے ہیں۔ مختار مسعود کی سب سے مشہور کتاب آواز ِ دوست ہے، اس کے درجنوں ایڈیشن فروخت ہوچکے ہیں۔ مختار مسعود صاحب نے اپنی اس کتاب کو عام قاری کی رسائی تک رکھنے کے لئے اس کی قیمت بہت کم رکھی تھی، وہ رائلٹی نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی طرف سے کچھ رقم دے کر کتاب سو، سوا سو روپے سے زیادہ مہنگی نہیں ہونے دیتے تھے۔ ان کا سفرنامہ" سفرِ نصیب" دلکش نثر کا نمونہ ہے۔ انتقال کے بعد چھپنے والی کتاب حرف شوق بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اگرچہ مختار مسعود صاحب اس پر زیادہ وقت صرف نہ کر سکے اور ان کی پہلی تین کتابوں کی سی تراش خراش آخری کتاب میں نظر نہیں آتی۔
مختار مسعود صاحب کی ایک بہت اہم کتاب" لوح ایام "جو ترتیب کے اعتبار سے شائد تیسری بنتی ہے، اس کا زیادہ تذکرہ نہیں ہوا۔ لوحِ ایام اپنے موضوع اور مواد کی مناسبت سے بہت اہم اور دلچسپ کتاب ہے۔ یہ انقلاب ایران کے متعلق ہے۔ 1979ء میں جب انقلاب ایران آیا تومختار مسعود صاحب ان دنوں آرسی ڈی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر ایران مقیم تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں انقلاب کے دنوں اور بعدکے ابتدائی مہینوں کا بہت دلچسپ نقشہ کھینچا ہے۔ جب امام خمینی برسوں کی جلاوطنی ختم کر کے پیرس سے تہران پہنچے تو انہیں دیکھنے والے لاکھوں افراد کے حیران کن مجمع میں مختار مسعود بھی شامل تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں بتایا کہ ابتدائی ایام میں کئی مقامات پر انقلابی کارکنوں کو رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ شاہ ایران نے جو ایرانی اشرافیہ تخلیق کی تھی، اس میں چند ایک ملک سے باہر بھاگ گئے، بہت سے مگر وہیں مقیم تھے اور وہ مختلف بہانوں، حیلوں سے انقلابی انتظامیہ کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے۔ مختار مسعود کے بقول ریڈیو سے اعلان ہوتا کہ فلاں جگہ پر رد ِانقلاب(Counter Revolution)والے لڑائی لڑ رہے ہیں، شہری جو ہتھیار ہاتھ آتا، اسے لے کر وہاں پہنچ جاتے۔ ایک دو بار تو مختار صاحب خود بھی جوش میں آ کر اپنی چھوٹی گاڑی میں رد ِانقلاب والے مخالفوں کی سرکوبی کے لئے پہنچے، مگر معلوم ہوا کہ جانے سے پہلے ہی مزاحمت ختم ہوگئی۔
اسی رد ِانقلاب والی کیفیت افغانستان میں طالبان کو بھی پیش آ رہی ہے۔ طالبان کی کامیابی اس طرح کا انقلاب نہیں، جیسا کہ انقلاب ایران میں آیا تھا۔ وہاں عسکری جدوجہد نہیں تھی، سیاسی اور عوامی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں امریکہ کا ایشیا میں سب سے بڑا گماشتہ رخصت ہوا۔ افغانستان میں یہ کام عسکری جدوجہد اور قربانیوں سے ہوا۔ طالبان بیس سال بعد اقتدار میں واپس آئے ہیں۔ اس دوران امریکی کنٹرول میں افغان اشرافیہ تیار ہوئی، یہ شکست کھا چکی مگر تحلیل نہیں ہوئی۔ ان میں سے کچھ افغان معاملہ فہم ہیں، وہ طالبان کو ملک کی سب سے بڑی قوت تسلیم کر کے تعاون پر آمادہ ہیں۔ ایسے لوگ یقینا ہوں گے جو طالبان کو پسند نہیں کرتے یا طالبان کے آنے سے ان کے مزے اور عیاشی کا دور ختم ہوگیا۔ سابق افغان حکومت کے عہدے دار، کرپشن پر مبنی نظام کے تمام حصے دار، کنٹریکٹرز وغیرہ۔ ان کی طرف سے رکاوٹیں اور مسائل پیدا کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔
ابھی تک طالبان بڑی دانشمندی اور تحمل کے ساتھ چل رہے ہیں۔ عجلت میں حکومت سازی کرنے کے بجائے ان تمام لوگوں کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں جو پچھلے بیس سال ان کے شدید مخالف رہے۔ جنہوں نے ہر موقعہ پر طالبان کی تضحیک کی اور طرح طرح کے الزامات لگائے۔ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ ایسے ہی لوگ ہیں۔ گلبدین حکمت یار نے البتہ کبھی اعلانیہ طالبان کی مخالفت نہیں کی تھی۔ اپنی تلخ یادوں کے باوجود طالبان مسلسل ان لیڈروں سے بات کر رہے ہیں۔ طالبان کی جانب سے ہرات کے تاجک لیڈر اسماعیل خان، بلخ کے سابق گورنر عطا محمد نور، بزرگ پشتون کمانڈر استاز سیاف سے رابطہ کر کے انہیں وطن واپس آنے کا کہا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ طالبان عطا نور کو کسی طرح بلخ (مزار شریف)کے سیٹ اپ میں اکاموڈیٹ کرنے کو تیار ہیں۔ ہزارہ لیڈروں سے بھی یقینا بات چیت ہوئی ہوگی۔
طالبان نے باضابطہ طور پر بار بار امراللہ صالح اور اشرف غنی کی بھی عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ یہ آسان کام نہیں۔ طالبان جنگجوئوں کی ہلاکت کا خون جن ہاتھوں پر ہے، ان لوگوں سے بات کرنا، انہیں معافی دینا اور حکومت سازی میں انگیج کرنا آسان نہیں۔ طالبان نے یہ مشکل کا م کر دکھایا ہے۔ طالبان سے پہلے اور ان کے بعد میں قندھار کے گورنر رہنے والے گل آغا شیرزئی سے بھی بیعت لے لی گئی ہے۔ یہ صاحب اپنے دیوہیکل جثے کی وجہ سے بلڈوزر کے نام سے مشہور تھے۔ اپنے آپ کو افغانستان کا بلڈوزر کہتے۔ قندھار طالبان کا گڑھ اور تحریکی مسکن رہا ہے۔ وہاں پر گل آغا شیرزئی نے طالبان جنگجوئوں کو کس قدر نقصان پہنچایا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس کے باوجود طالبان نے نہ صرف خوش دلی سے اسے قبول کیا، اس کی بیعت قبول کی بلکہ اسی تقریب میں ایک طالبان لیڈر نے مسکرا کر کہا کہ آج سے آپ امارات اسلامیہ افغانستان اور طالبان کے بلڈوزر ہیں۔ تالیف قلب کی ایسی مثالیں طالبان کی تاریخ میں نہیں ملتیں۔ یہ غیرمعمولی تبدیلی ہے۔
طالبان اس پر یکسو ہیں کہ افغانستان کی سرحد کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ چین کو ٹھوس یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اگر ایسٹ ترکستان موومنٹ والے افغانستان میں موجود بھی ہیں تو وہ کبھی چین کے خلاف کارروائی نہیں کر پائیں گے۔ یہی یقین دہانی ایران، تاجکستان، ازبکستان وغیرہ کو کرائی گئیں۔ پاکستان کی شکایت پر ٹی ٹی پی کے فعالیت کے حوالے سے طالبان کے قائد ملا ہبت اللہ نے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ طالبان کے سسٹم میں کمیٹی بنانے کا مقصد ہماری بیوروکریسی کی طرح معاملہ گول کرنا نہیں ہوتا۔ اس کمیٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد ہوگا اور اب ٹی ٹی پی عناصر کو افغانستان میں لوپروفائل ہو کر رہنا ہوگا یا پھر انہیں واپس پاکستانی قبائلی علاقوں میں دھکیلا جائے گا، جہاں پاک فورسز ان کے شکار کے لئے تیار ہیں۔ ممکن ہے آنے والے دنوں میں بعض ٹی ٹی پی عناصر کو تائب ہو کر پاکستان میں سرنڈ ر کرتے دیکھنے کے مناظر دیکھنے کو ملیں۔ یہ بھی یقینی بات ہے کہ افغانستان کی سرزمین اب شدت پسند بلوچ گروپ استعمال نہیں کر پائیں گے۔ ممکن ہے ان میں سے کچھ کابل ائیرپورٹ پر موجود ہوں یا پہلے ہی نکل بھاگے ہوں۔ وہاں رہ گئے تو خاتمہ یقینی ہے۔ اس کا ایک فوری نقصان یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں ان شدت پسند عناصر کی کارروائیاں بڑھ جائیں، مگر سیف ہیون نہ ہونے کے باعث اب ان کا قلع قمع آسان ہوجائے گا۔
طالبان قیادت کے لئے فوری چیلنج پنج شیر کا صوبہ بنا ہے، جہاں مرحوم تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے مزاحمت کا اعلان کیا ہے، امر اللہ صالح اور سابق وزیردفاع بسم اللہ محمدی کے بھی وہاں ہونے کی اطلاع ہے۔ پنجشیر کا علاقہ جغرافیائی لحاظ سے بہت مشکل ہے اور حملہ آوروں کو روکنا آسان ہے۔ اسی وجہ سے احمد شاہ مسعود سے یہ علاقہ روسی لے پائے نہ طالبان۔ اب مگر صورتحال اس لئے مختلف ہے کہ پنجشیرکا مکمل محاصرہ ہے اور تخار، بدخشان، بغلان سے وہاں جانے والے تمام راستے طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ طالبان نے دبائو بڑھایا ہے اور توقع ہے کہ ایک آدھ دن میں کوئی نتیجہ خیز خبر ملے۔
اہم بات یہ ہے کہ پنج شیری تاجک کمیونٹی کی سیاسی نمائندگی عبداللہ عبداللہ کرتے ہیں جبکہ بدخشانی تاجکوں کے نمائندہ اس وقت برہان الدین ربانی کے صاحبزادے صلاح الدین ربانی ہیں۔ یہ دونوں مسلح جدوجہد کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہے۔ احمد مسعود ناتجربہ کار ہے اور اشرف غنی دور میں اسے کوئی سرکاری منصب نہیں ملا تھا۔ اب وہ ہیرو بننے کی کوشش کر رہا ہے، مگر یہ خطرناک ہوسکتی ہے۔ اگر اس نے ہتھیار نہ ڈالے تو انجام معروف بلوچ گوریلا لیڈر بالاچ مری جیسا ہوسکتا ہے، نواب خیر بخش مری کا یہ انقلابی بیٹا بھی اپنی جذباتیت اور جوش کی وجہ سے جان گنوا بیٹھا۔
اگلے روز مفتی تقی عثمانی صاحب کا طالبان قیادت کے نام ایک آڈیو میسج سننے میں ملا۔ مفتی صاحب نے بڑے دانشمندانہ مشورے دئیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستحکم حکومت کے بعد تین کام کرنے چاہئیں، عثمانی سلطنت کی طرز پر قوانین کی تدوین، افغانستان کے تعلیمی نظام میں ایسی تبدیلیاں کہ طالب علم اچھے مسلمان بن کر نکلیں، تیسرا شرعی اقتصادی اور مالی نظام کی تشکیل۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے تجویز پیش کی کہ تینوں کے لئے محقق علما پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں جو ان خطوط پر کام کریں۔ انہوں نے پیرانہ سالی اور اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجوداس حوالے سے مزید تعاون کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ مفتی صاحب کے مشورے اچھے ہیں، انہیں درست تناظر میں لینا چاہیے۔ طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے، وہ چاہیں تو اسے کامیاب انقلاب میں بدل سکتے ہیں۔ انہیں ردِانقلاب قوتوں پر نظر رکھنا ہوگی اورزیادہ سے زیادہ لوگوں کو ساتھ ملانے کے ساتھ عوام کو ایک اچھا سسٹم دینا ہوگا۔ افغانستان میں کامیابی کا یہی گر ہے۔