پہلا رائونڈ۔کیا سبق حاصل ہوئے؟
پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی اور ممکنہ جنگی صورتحال کے حوالے سے سردست ایک وقفہ سا آیا ہے۔ پاک بھارت تعلقات تاریخی طور پر نشیب وفراز کا شکار رہے ہیں، چار جنگیں لڑی جا چکی ہیں، کئی بار جنگ کے دہانے پر جا کر واپسی ہوئی۔ اس لئے یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ امید کرنی چاہیے کہ پلوامہ حملے کے بعد سے جاری کشیدہ صورتحال میں اب کمی آئے گی اورمثالی امن نہ سہی، پہلے جیسی پرامن ورکنگ کنڈیشن بحال ہوجائے گی۔ ان چند دنوں کے دوران بہت کچھ تلپٹ ہوا، کئی تصورات تحلیل ہوئے، نئے حقائق آشکار اور چند ایسی الارمنگ باتیں سامنے آئی ہیں، جنہیں توجہ اور غور سے دیکھنا، سمجھنا چاہیے۔ چند منٹ کے لئے اپنے قومی، وطنی عصبیت کے تصور سے اٹھ کر غیر جانبداری سے تجزیہ کریں تو بہرحال یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان نے اس پورے معاملے میں تحمل، برداشت اور دانش مندی سے کام لیا۔ پلوامہ حملے کے بعد پاکستانی موقف معتدل اور ذمہ دارانہ رہا۔ بھارتی طیاروں نے بالاکوٹ میں ائیرسٹرائیک کیا تو صورتحال نہایت کشیدہ ہوگئی۔ پاکستانی عوام اس پر شدید مضطرب اور مشتعل تھے۔ یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں ردعمل غیر متناسب اور زیادہ پرجوش نہ ہوجائے۔ اگلے روز پاکستان نے کمال سمجھداری اور پلاننگ کے ساتھ جواب دیا۔ ایسا موثر جواب جس نے بھارتی منصوبہ سازوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ قدرت نے بھیپاکستان کا ساتھ دیا۔ بھارتی پائلٹ گرفتار نہ ہوتا تو قوی امکانات تھے کہ بھارتی سرے سے مکر جاتے۔ اپنے طیارہ کی تباہی تسلیم ہی نہ کرتے یا پھر تکنیکی خرابی کو وجہ ٹھیراتے۔ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی گرفتاری نے بھارتی سبکی یقینی بنا دی۔ اس کائونٹر سٹرائیک کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بڑی عمدہ، مدبرانہ تقریر کی۔ ایک جملہ بھی فاتحانہ اور زخموں پر نمک چھڑکنے والا نہیں تھا۔ انہوں نے پاپولر تقریر کرنے کے بجائے ٹھوس اور فوکسڈ بات کی۔ پارلیمنٹ سے ان کا خطاب بھی ذمہ دارانہ تھا۔ واضح طور پر وہ زیتون کی شاخ لئے دنیا کے سامنے آئے۔ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی کا اعلان کر کے عمران خان نے بڑی سمارٹ اور سرپرائزنگ موو کی۔ بھارتی سفارتی حلقے جس کا بروقت توڑ نہ کر سکے۔ انڈین اس چال کا اندازہ ہی نہیں کر پائے تھے۔ عالمی میڈیا نے کئی ممتاز بھارتی دانشوروں، لکھاریوں کی رائے نقل کی، جن کے خیال میں اس فیصلے سے پاکستان نے بھارت کو ناک آئوٹ کر دیا۔ اب بظاہر تو ایک رائونڈ مکمل ہوگیا۔ بھارت نے سٹرائیک کی، پاکستان نے جواب دے کر حساب برابر کر دیا۔ پاکستان کو دو اعتبار سے برتری ملی۔ انہوں نے بھارت کو جو نقصان پہنچایا، وہ دنیا کے سامنے ہے، ثبوت کسی نے مانگے ہی نہیں۔ بھارت کے دعوے البتہ ناقابل اعتبار ٹھیرے۔ پاکستان نے بھارت کی وہ مشہور مِتھ بھی ختم کر دی، جس کے مطابق روایتی جنگ میں بھارت کو پاکستان پر برتری حاصل ہے۔ روایتی یعنی کنوینشنل وار فیئر میں بھی پاکستان نے اپنی برتری جتلا دی۔ اب آگے دو ہی آپشنز ہیں۔ معاملہ یہاں پر روک کر امن کی طرف واپسی ہوجائے، یا پھر بھارت دوبارہ سٹرائیک کر کے جنگ کے شعلے بھڑکائے۔ اللہ رحم فرمائے اور معاملہ کو بہترین طریقے سے ختم فرمائے، آمین۔ آگ کی طرح بھڑکتے اس ایشو نے دونوں ممالک کے عوام پر واضح کر دیا کہ کشمیر بہت اہم، مرکزی نکتہ ہے۔ اس پر اتنی جنگیں ہوچکیں، مگر ایک بڑی فیصلہ کن جنگ مزید لڑی جا سکتی ہے۔ مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کئے بغیر امن کی پینگیں بڑھانا ممکن نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں اس حوالے سے سوچنے، سمجھنے کے تمام در بند کئے جا چکے ہیں۔ بھارتی سوسائٹی اور انٹیلی جنشیا میں اس موضوع پر گفتگوکی گنجائش ہی نہیں رہی۔ مستقبل قریب میں تو اس بھارتی مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کے امکانات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خطے کا امن کھلے میدان میں جلتے کسی چراغ جیسا ہے۔ ہوا کا کوئی تند جھونکا اسے بجھا سکتا ہے۔ پاکستان کو یہ جان، سمجھ کر جینا اور اپنے آپ کو کسی بھی انتہائی صورتحال کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ انگریزی میں محاورہ استعمال کیا جاتا ہےAlways on your toes، یعنی ہمہ وقت مستعد، ہوشیار رہنا۔ جب تک مسئلہ کشمیر برقرار ہے، وہاں پر آزادی کی جدوجہد کسی نہ کسی انداز میں جاری رہے گی، جب تک یہ جدوجہد ہوگی، اس کی ذمہ داری بھارت پاکستان پر ڈالتا رہے گا۔ اس کا مطلب یہ کہ کوئی بھی بڑا واقعہ ہونے پر بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑے گا۔ ہمیں سوتے ہوئے بھی ایک آنکھ کھلی رکھنا ہوگی۔ یہ ہمارا مقسوم ہے، یہی لکھ دیا گیا۔ اس تنازعے نے ایک دلچسپ کام بھی کیا ہے۔ پاکستان میں سیکولر، لبرل لابی نے پچھلے دس برسوں میں بڑی محنت سے، سینکڑوں، ہزاروں کالم لکھ، طنزیہ بلاگ لکھ، ویب سائٹس بنا کر ایک پورا فکری سٹرکچر کھڑا کیا۔ یہ عمارت تین چارستونوں یعنی الزامات اور مغالطوں پر کھڑی تھی۔ پہلا، پاکستانی فوج خطے میں امن نہیں چاہتی تاکہ اس کے اللے تللے چلتے رہیں۔ نمبر دو، پاکستان کو بھارت سینٹرک سوچ سے نکلنا چاہیے، خطے میں خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک دوست بنیں، تجارت ہو، مشترکہ فلمیں، موسیقی، تقریبات، ادبی میلے وغیرہ ہوتے رہیں۔ تیسرا یہ کہ پاکستان میں شدت پسندی کا ذمہ دار ہمارا قومی نصاب یعنی درسی کتب (طنزاً مطالعہ پاکستان کی اصطلاح برتی جاتی )اور روایت پسند اسلامسٹ سوچ ہے، نسیم حجازی جیسے ناول نگاروں نے نوجوانوں کو گمراہ کیا اوران کے ذہنوں میں شدت پسندی، تہذیبی نرگسیت بھر دی وغیرہ وغیرہ۔ ایک نکتہ جمہوریت کے عدم تسلسل کا بھی اٹھایا جاتا کہ اگر جمہوریت چلتی رہتی تو سماج میں اعتدال اور توازن آ جاتا۔ خیر پچھلے آٹھ دس دنوں میں بھارت کے "مہذب"، "جمہوری""معتدل"اور "روشن خیال"عوام اور حکومت نے جو خوفناک، بھیانک چہرہ دکھایا، اس سے بہت سوں کی سٹی گم ہوگئی۔ کوئی چاہے تو پاکستان کے سیکولر کیمپ سے ہمدردی، ان سے تعزیت کر سکتا ہے۔ اتنے سال دن رات ایک کر کے جو عمارت کھڑی کی، اسے تند وتیز سیلابی ریلہ تنکوں کی طرح بہا کر لے گیا۔ وہ سب کچھ ایکسپوز ہوگیا، جو یہ چھپانا چاہتے تھے، وہ بنیادی نکتہ ہر ایک کی سمجھ میں آ گیا، جو ہمارے سیکولر، لبرل احباب کو کبھی سمجھ نہیں آیا۔ جس دوقومی نظریے پر وہ طنز کرتے تھے، وہ ستر، بہتر برسوں بعد ایک بار پھر سے دھل دھلا کر سامنے آ گیا۔ ثابت ہوگیا کہ برصغیرکی مذہب کے نام پر تقسیم درست تھی اور واقعتاً ہندواور بھارت ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متصادم قومیں ہیں۔ دونوں میں کچھ مشترک ہوسکتا ہے، مگر ان سے زیادہ بنیادی اور مرکزی نوعیت کے اختلافات موجود ہیں۔ جس تعصب اور نفرت کا مظاہرہ تقسیم سے پہلے کے متحدہ ہندوستان میں کانگریس نے 1937ء کے انتخابات کے بعد کیا اور ہر جگہ مسلمانوں کو ذلیل، پریشان اور تنگ کیا۔ وہی سوچ آج بیاسی (82)سال بعد ہندوشدت پسندی کے تابع زیادہ خوفناک اور طاقتور ہو گئی ہے۔ ایسے کئی لوگوں کو ذاتی طورپرجانتا ہوں جو پچھلے کئی برسوں میں سوشل میڈیا پر پاک بھارت دوستی کے بھجن گاتے رہے۔ آج فیس بک، ٹوئٹر پر وہ کھل کر لکھ رہے ہیں کہ جب تک بھارتی مائنڈ سیٹ تبدیل نہ ہو، امن قائم نہیں ہوسکتا۔ جو پاکستانی فوج اور دفاعی بجٹ پر تنقید کرتے تھے، آج وہ بھارتی طیارہ گرانے والے سکواڈرن لیڈر کی تصاویر فخریہ شیئر کر رہے ہیں۔ وہ لکھ رہے ہیں کہ پاکستانی فوج تو امن کی بات کر رہی ہے، جنگ تو بھارتی فوج اور اسٹیبلشمنٹ مسلط کر رہی ہے۔ جو "مطالعہ پاکستان"پر تنقید کرتے تھے، آج وہ پوسٹ لگاتے ہیں کہ یہ بھارتی جنونی میڈیا اور وہاں کے لیڈر، اداکار، شاعر، ادیب، کھلاڑی اور عوام کون سا" مطالعہ پاکستان"پڑھتے ہیں؟ اور بھارت میں تو ہمیشہ جمہوریت رہی، کبھی مارشل لاء نہیں آیا، کسی جنرل ضیاء الحق نے وہاں نصاب تبدیل نہیں کیا، کوڑے اور پھانسیاں نہیں دیں، وہاں اتنی شدت کہاں سے آ گئی؟ سوشل میڈیا ان سوالات سے بھرا ہے۔ افسوس کہ ہمارے وہ سیکولر دوست جنہیں ان سوالات کے جواب دینے اور جوابی بیانیہ مرتب کرنا تھا، نجانے کہاں جا کر سو گئے۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ ان کا "بھنبھور" لٹ گیا۔ لگتا ہے ان میں سے کچھ نے نیپال کا رخ کر لیا، نجانے کب واپسی ہو؟ (یہ نیپال والی بات سمجھ نہ آئے توکسی سوشل میڈیا استعمال کرنے والے سے پوچھ لیں۔ )پاکستانی میڈیا نے بڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، جنگی جنون انہوں نے طاری نہیں کیا۔ پاک افواج ایک بار پھر سے ہیروبن گئیں، ڈی جی آئی ایس ایس پی آر مدلل موقف پیش کرتے رہے، لیکن ہمارے سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ اختلافات کے باوجود اپوزیشن ملک وقوم کی خاطر متحد ہو کر حکومت کے ساتھ کھڑی رہی۔ اس ذمہ دارانہ رویہ پر پارلیمنٹ اور اراکین پارلیمنٹ کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہمیشہ میڈیا زیادتی کرتا ہے، انہوں نے جس متانت اور عمدگی سے کیس لڑا، اسے سراہنا چاہیے۔ عمران خان کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیرئر کی بہترین کارکردگی پیش کی۔ امن کے نوبیل انعام والی بات البتہ مذاق ہے۔ تحریک انصاف کے وزرا کو ایسی غیر سنجیدگی اور بچکانہ باتوں سے گریز کرنا چاہیے۔ قومی ایشوز کو ذاتی، سیاسی مقاصد کے لئے ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ پہلا رائونڈ ختم ہوا۔ ہمیں اس سے سبق اخذ کرنے چاہئیں۔ اگلے رائونڈزبھی ہوسکتے ہیں۔ ان کے لئے بھرپور تیاری رکھنی چاہیے۔ امن ترجیح ہو، جنگ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، لیکن جب سر پر آجائے تب عزیمت اور جرات کے ساتھ مقابلہ ہی واحد آپشن ہے۔