اپوزیشن کہاں کھڑی ہے؟
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ پر جائزے، تبصرے چل رہے ہیں۔ اعلامیہ کے لفظ لفظ پر بحث ہورہی ہے۔ تجزیہ کار اپوزیشن اتحاد کے مستقبل کے منصوبوں کا اندازہ لگانا چاہ رہے ہیں۔ اپوزیشن اس اے پی سی کو شاندار کامیابی قرار دے رہی ہے توحکمران جماعت کے ترجمان اس میں نقص نکالتے ہوئے اسے بے فائدہ، بے مقصد قرار دے رہے ہیں۔ اپوزیشن کے حامی حلقے اسے تاریخی اعلامیہ قرار دے رہے ہیں توبعض حلقے اسے نشستند، گفتند، خوردند، برخاستند(نشست ہوئی، گپ شپ لگی، کھایا پیا گیا اور پھر نشست برخاست ہوگئی یعنی سب کچھ بلامقصد ہوا)کہہ رہے ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں کبھی متفقہ رائے نہیں ملتی۔ یہ دونوں انتہائی موقف ہیں اوراصل بات ان کے درمیان میں کہیں موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ اے پی سی کوئی ڈرمائی، تہلکہ خیز اعلامیہ لے کر نہیں آئی۔ حکومت کے خلاف فوری تحریک چلانے کا اعلان نہیں کیا گیا، اسمبلیوں سے استعفے کے انتہائی اقدام کا تو خیر امکان نہیں تھا، مگر اس کی دھمکی بھی نہیں دی گئی۔ اپوزیشن کی جماعتوں میں ایک دو اہم نکات کے حوالے سے اختلاف نظر آیا اور وہ قابل فہم، قابل توجیہہ ہے۔ جو جماعتیں اس الیکشن میں ناکام ہوئیں یا جن کے ہاتھ کچھ نہیں آیا، ان کا رویہ فطری طور پر زیادہ سخت اور بے لچک رہا۔ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں کے مصداق وہ یہی چاہتی ہیں کہ سب کچھ تلپٹ ہوجائے اور نئے انتخابات کی باری آئے۔ اے این پی کا الیکشن میں صفایا ہوگیا، بیشتر اہم لیڈر انتخابات ہار گئے۔ اے این پی کی قیادت تو ہر قسم کی دنیاوی، روحانی قوتوں سے ناراض ہوگی، ان کا پہلا مطالبہ ہی اسمبلیوں سے استعفے کا ہے۔ یہی صورتحال محمود اچکزئی کی ہے، پچھلی بار وہ اور ان کا پورا خاندان اقتدار کے مزے لوٹتا رہا، اس بار سب کے سب ہی باہر بیٹھے ہیں۔ اچکزئی صاحب کی تلملاہٹ فطری ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں پہلے بھی کئی بار بات ہوچکی۔ مولانا کو اس الیکشن میں اپنے سیاسی کیرئر کا سب سے بڑا دھچکا پہنچا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی نشست کو وہ اپنے لئے محفوظ اور ناقابل شکست مستقر سمجھتے تھے، اس بار علی امین گنڈاپور جیسے سرمست شخص نے انہیں پچیس تیس ہزار ووٹوں سے ہرا دیا، جس کا کبھی انہوں نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا گیا ہوگا۔ ڈیرہ کم ٹانک کی سیٹ سے بھی وہ ہار گئے۔ انہوں نے اپنی دونوں سیٹیں یقینی سمجھتے ہوئے اپنا تمام تر زور اپنے صاحبزادے کی نشست پر لگایا تھا تاکہ نوجوان کو اچھا سیاسی بریک مل سکے۔ وہ تو نشست جیت گیا، مگر والدصاحب کے سیاسی اثاثے کا صفایا ہوگیا۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو پچھلے انتخابات کے مقابلے میں نسبتا ً زیادہ کامیابی ملی اور پانچ چھ نشستیں بڑھ گئیں۔ مولانا چونکہ خود عرصے بعد رکن اسمبلی نہیں بن سکے، اس لئے سیٹیں بڑھنا ان کے لئے کوئی خوشی کا باعث نہیں بنا۔ ہمارے ہاں ویسے بھی پارٹیوں کی کامیابی سے زیادہ قائد کی کامیابی اہم سمجھی جاتی ہے۔ مذہبی جماعتیں ہوں یا سیکولر پارٹیاں، چند خاندان ہی ان کے مالک اور وارث ہیں۔ جے یوآئی جناب مفتی محمود کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ آئی۔ انہوں نے اسے سیاسی جاگیر سمجھتے ہوئے اپنا قبضہ مضبوط کیا، اپنے بھائیوں کو بھی مناسب حصہ دیا اور اب اپنی وارثت کے لئے برخوردار کو آگے بڑھا دیا ہے۔ نظریہ، مذہبی فکر، سوچ … سب کہنے کی باتیں ہیں۔ جے یوآئی میں سفید ریش بزرگ بھی مولانا کے صاحبزادے کے آگے نظریں جھکائے کھڑے ہونے پر مجبور ہوں گے، ورنہ مولانا شیرانی اور پختون خوا کے بعض بزرگوں کی طرح وہ بھی کارنر کر دئیے جائیں گے۔ یہ ہے وہ" حقیقی جمہوریت" اور" جمہوری" رویہ جس کے یہ لوگ گن گاتے ہیں۔ یہی سیکولر اے این پی نے کیا۔ تجربہ کار بلور صاحب کے بجائے اپنے صاحبزادے کو مسند سونپ دی۔ یہی مولانا شاہ احمد نورانی جیسے بڑے شخص کے بعد ان کی سیاسی وراثت سے ہوا اور پارٹی نااہل اولاد کے سپرد ہوگئی۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں تو خیر کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک ڈائری سے پھاڑے گئے لکیر دار کاغذ پر لکھی وصیت نے لاکھوں ووٹروں، ہزاروں دیرینہ کارکنوں اور اپنی زندگیاں سیاست میں کھپانے والے سینکڑوں رہنمائو ں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا، جس کو لیڈر کی زندگی میں ملک میں آنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ جس کے لئے طے ہوچکا تھا کہ وہ باقی ماندہ زندگی بیرون ملک رہ کر بچوں کی نگہداشت کرے گا۔ کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ یہ وصیت اصلی بھی ہے کہ نہیں اور کیا پارٹیاں ذاتی جاگیر ہوتی ہیں کہ وصیت کے ذریعے ان کے مقدر کا فیصلہ کر دیا جائے۔ اس اصول کو دیگر سیاسی جماعتوں پر منطبق کرتے جائیں، ہر جگہ درست نکلے گا۔ تحریک انصاف میں عمران خان کی اولاد سیاست میں نہیں، اس لئے وہاں مرکزی قائد کی حد تک تو وراثت نہیں، مگر اس کے علاوہ ہر جگہ وہی جھلک ملے گی، جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، اسد قیصراور دیگر رہنما اپنی اولاد کوٹکٹیں اور عہدے دلواتے ہیں اور تحریک انصاف میں کوئی چوں بھی نہیں کرتا۔ ایک استثنیٰ جماعت اسلامی کا ہے کہ وہاں امیر جماعت کی اولاد تحصیل یا ضلع ناظم تک نہیں بن پاتی۔ جماعت اسلامی کو مگر اس اصول پسندی اور جمہوری رویے کا عملی طور پر کیا فائدہ پہنچا، یہ ہم سب جانتے ہی ہیں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا جو خاصا طویل ہوگیا۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اپوزیشن کی اے پی سی میں الیکشن ہاری ہوئی پارٹیوں کا رویہ سخت جبکہ جنہیں کچھ نہ کچھ اقتدار کا کیک ملا، وہ زیادہ عملیت پسندانہ سوچ اپنائے ہوئے تھے۔ پیپلزپارٹی کو سندھ حکومت ملی ہے، ایسے خواہ مخواہ وہ اسے گنوانے پر تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی نے بہت پہلے یہ سیکھ لیا کہ انتہائی موقف نہیں اپنانا اور سسٹم میں رہتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے انہی خطوط پر اپنی بات کہی۔ اپوزیشن نے دو تین کامیابیاں تو حاصل کی ہیں۔ ایک تو تمام جماعتیں اکٹھی ہوگئیں اور قدرے پھیلے ہوئے ایجنڈے پر سہی، مگر بہرحال ان کا روڈ میپ سامنے آ گیا۔ حکومت کے خلاف تحریک ابھی وہ نہیں چلا رہے، مگران کا قدم اسی طرف ہی اٹھا ہے۔ یوم سیاہ منانا، عوام رابطہ مہم یعنی سیاسی اجتماعات اور پھر چیئرمین سینٹ کی تبدیلی کا فیصلہ اہم ہے۔ اپوزیشن اگر چیئرمین سینٹ تبدیل کر لیتی ہے تو یہ اہم پیش رفت ہوگی۔ موجودہ حکومتی سیٹ اپ میں سے یہ بنیادی نوعیت کا پتھر ہٹانے کے مترادف ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکمران جماعت، ان کے اتحادی اوردیگر اہم" سٹیک ہولڈرز"خاموشی سے چپکے بیٹھے یہ ہونے دیں گے یا پھر اس کوشش کو ناکام بنایا جائے گا۔ سیاسی اعتبار سے اے پی سی کے ذریعے اپوزیشن کو ایڈوانٹیج ملا، تاہم اخلاقی اور جمہوری اعتبار سے ان کے حوالے سے شکوک پیدا ہوئے۔ اپوزیشن کا رویہ ویسا ہے جو ماضی میں عمران خان نے نواز شریف حکومت کے خلاف اپنایا تھا۔ پہلے سال ہی خان صاحب چند حلقے کھلوانے کا مطالبہ لے کر کھڑے ہوئے اور پھر اسلام آباد پر چڑھائی کر ڈالی۔ ا س وقت میاں نواز شریف اور ان کے سیاسی اتحادی اس پر سخت برہم ہوئے۔ میاں صاحب نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا تھا، جس میں ن لیگ کے علاوہ پیپلزپارٹی، مولانا فضل الرحمن کی جے یوآئی ف، محمود اچکزئی اور ڈاکٹر مالک بلوچ کی قوم پرست نیشنل پارٹی، اے این پی وغیرہ نے سخت احتجاج کیا۔ ان سب کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اور حکومت کو اپنی مدت پوری کرنا چاہیے اور عوامی احتجاج کے ذریعے حکومت گرانا سخت غیرجمہوری اور غیر آئینی حرکت ہے۔ وہ سب لوگ جو اس وقت حکومت کے اتحادی تھے، اتفاق سے آج اپوزیشن میں بیٹھے ہیں۔ اب ان سے عمران خان کی حکومت برداشت نہیں ہو رہی۔ وہ عوامی احتجاج اور رائے عامہ کی قوت سے حکومت الٹانا چاہتے ہیں۔ کسی بھی حکومت کی معاشی، اقتصادی پالیسیوں، بجٹ وغیرہ سے اختلاف، اتفاق ہوسکتا ہے۔ مدت پوری ہونے پر ہی ان کے بارے میں حتمی رائے دی جا سکتی ہے، پہلے سال کیسے انتہائی موقف اپنایا جا سکتا ہے؟ یہی اپوزیشن ہی کل یہ کہتی تھی کہ احتساب کا حق صرف عوام کو ہے۔ اگر کوئی حکومت کام نہیں کرے گی تو عوام اس کا خود محاسبہ کر لیں گے۔ پھر یہ جمہوری اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کا احتساب کرنے کے لئے عوام کو زحمت کیوں نہیں دینا چاہتی؟ مولانا فضل الرحمن کو کس نے اختیار دیا ہے کہ خود ساختہ الزامات کے تحت اسلام آباد کے لاک ڈائون کی غیر جمہوری، غیر آئینی دھمکی دیں؟ اپوزیشن کی اے پی سی نے ان تمام جماعتوں کو ایک ایجنڈے پر اکٹھا تو کر دیا ہے، مگر دوسری طرف یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ یہ وہی پانچ سالہ پرانی سیاسی تقسیم ہے، عمران خان بمقابلہ باقی تمام جماعتیں۔ اس وقت بھی نواز شریف اور ان کے یہ تمام اتحادی عمران خان کے خلاف اکٹھے تھے، آج بھی یہ سب اپوزیشن میں متحد ہو کر عمران خان کے خلاف کھڑے ہیں۔ وجہ شائد وہی کہ خان اپنی تمام ترخامیوں اور کمزوریوں کے باوجود احتساب سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں اور تاریخ میں پہلی بار کرپٹ عناصر سے ریکوری ہو رہی، اربوں روپے لوٹنے والے جیلوں میں جبکہ بڑے مگرمچھ ایف بی آر کے شکنجے میں جکڑے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن کو اپنے سیاسی روڈ میپ پر چلنے کا حق ہے، مگر انہیں اپنے ایجنڈے کا جمہوری اور اخلاقی جواز پیش کرنا ہوگا۔