نئے حکومتی ماڈل کو سمجھیں
سیاسی محفلوں، ڈرائنگ روم گپ شپ ہو یا تھڑوں پر ہونے والی بحثیں … ان سب میں دو تین سوال بار بار زیربحث آ جاتے ہیں۔ عمران خان کیا کر رہا ہے؟ حکومت کب تک رہے گی اور کیا اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہوجائے گی؟ تیسرا سوال بھی ان سے منسلک ہی ہے کہ کیا ڈیل ہونے والی ہے؟ ان سوالوں پر ہر ایک کے جوابات مختلف اور اپنی اپنی پسند کے مطابق ہی ہیں۔ مسلم لیگ ن والوں کا اپنا بیانیہ ہے، پیپلزپارٹی والے ان سوالات کو اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں، تحریک انصاف کے پاس اپنے جواز، دلائل ہیں جبکہ ملک کی دیگر چھوٹی جماعتوں کا رویہ بھی ملا جلا ہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن طویل عرصے بعد الیکشن ہار کر مین سٹریم سیاست سے باہر ہوئے۔ اپنے آپ کو سیاسی چالوں کا ماہر اور استاد سمجھنے کی وجہ سے یہ شکست اور دھچکا ان سے برداشت نہیں ہو رہا۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کر کے فوری طور پر حکومت بدل ڈالیں۔ وہ تو پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں شرکت کے بھی خلاف تھے، تاہم ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے ان کے غصیلے مشورے کو لفٹ نہ کرائی۔ اب بھی وہ احتجاجی تحریک کو پوری شدت سے چلانا چاہتے ہیں، اس ضمن میں اسمبلی کی نشستوں سے استعفا دینے کی جارحانہ تجویز ان کی جانب سے آ چکی ہے۔ اپوزیشن ارکان اسمبلی اگرچہ ایسے سادہ لوح نہیں کہ مان جائیں۔ مجھے تو خدشہ ہے کہ احتجاجی تحریک اگر چلی تو اس میں زیادہ نقصان مولانا فضل الرحمن ہی کا ہوگا۔ مدارس سے سٹریٹ فورس لینے کے چکر میں ممکن ہے وہ اپنے بعض زیراثر مدارس ہی نیشنلائز کرا بیٹھیں۔ جماعت اسلامی نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے الگ راستہ چنا ہے۔ انہیں اندازہ ہوگیا کہ اپوزیشن کے اتحاد میں شامل ہونے کا مقصد ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ہاتھوں میں اپنی تقدیر دینا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے برعکس جماعت اسلامی ماضی کی ان دونوں حکمران جماعتوں کی شدید ناقد رہی ہے۔ جماعت اسلامی کا پانامہ پر موقف بھی بڑا جاندار اور مضبوط رہا۔ وہ اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے کر گئی اور تحریک انصاف کے برعکس ان کا مطالبہ تھا کہ پانامہ سکینڈل میں آنے والے تمام پاکستانیوں کا احتساب کیا جائے۔ یہ نہایت صائب اور درست مطالبہ تھا۔ افسوس کہ پاکستان کی کسی بھی پارٹی یا موثر گروپ نے اس مطالبے کی حمایت نہیں کی۔ جماعت اسلامی نے مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے اورلاہور، فیصل آباد میں مناسب جلسے کئے ہیں۔ ایم ایم اے میں شامل ہونا جماعت اسلامی کی غلطی تھی۔ لگتا ہے جماعتی قیادت نے سبق سیکھ کر اپنا راستہ خود منتخب کیا ہے۔ وہ اپنی سیاسی گاڑی کا سٹیرنگ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے جماعت اسلامی کو اس کے فوری فوائد نہ مل سکیں، مگر اس میں نقصان بھی بہت کم ہے۔ غیر فطری اتحاد بنا کر بمشکل ایک نشست مل پائی۔ بہترہے کہ اپنی قوت پر بھروسہ کرتے ہوئے عوام سے رابطہ رکھا جائے اور اپنے نظریاتی تشخص کی بحالی کی کوشش ہو۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے بڑے اعتماد سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر کوئی بھی اپوزیشن تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ 77ء کے بعد سے ملک میں کوئی بڑی عوامی تحریک نہیں چلائی گئی، شائدکبھی چل بھی نہ سکے۔ ایم آرڈی کی تحریک نے سندھ میں تو کسی حد تک اثر دکھایاتھا، پنجاب میں یہ ناکام رہی۔ اس کے بعد بیس تیس برسوں میں ہونے والے نام نہاد لانگ مارچ، ملین مارچ، احتجاجی تحریکیں، دھرنے وغیرہ سب اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہی ہوئے۔ اس لئے اگر حکومت نے کوئی بڑی غلطی یا بلنڈر نہ کیا تو احتجاجی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ویسے بھی چیئرمین سینٹ کی تبدیلی تو اپوزیشن لا نہیں سکتی، حکومت کیا بدلے گی؟ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان کی جدید تاریخ میں شائد پہلی بار سول، ملٹری قیادت ایک ہی صفحے پر ہے۔ 1990ء میں ایسا ہوا تھاجب میاں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے، مگر وہ عرصہ بھی مختصر تھا اور جلدہی میاں صاحب کے غلام اسحاق خان سے اختلافات شروع ہوگئے۔ اسٹیبلشمنٹ آج تین وجوہات کی بنا پر عمران خان کو سپورٹ کرنے پر مجبور ہے۔ اس وقت سیاسی قوتوں میں سے تحریک انصاف واحد موثرعوامی قوت ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے اور جس کے کارکن، ووٹر فورسز پر ہونے والے نظریاتی، فکری حملوں کا دفاع کرتے ہیں۔ نائن الیون سے کچھ پہلے اور بعد کے ادوار میں یکے بعد دیگرے دینی قوتیں، پیپلزپارٹی، قوم پرست، ن لیگ اور ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے اسٹیبلشمنٹ سے فاصلے پر چلے گئے۔ ان سب میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے خاصی ناپسندیدگی، تلخی اور ایک طرح کی مخاصمانہ سوچ پیدا ہوچکی ہے۔ کسی مرحلے پر یہ ہاتھ ملا بھی لیں، مگر دل صاف نہیں اور موقعہ ملنے پر یہ وار کرنے سے نہیں چوکیں گے۔ تحریک انصاف کی پوزیشن البتہ مختلف ہے۔ انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور اسٹیبلشمنٹ ان کے اس ایجنڈے اور نعرے کو سپورٹ کر رہی ہے۔ دونوں میں کوئی ٹکرائو نہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو چھوڑنا(Ditch کرنا)افورڈ نہیں کر سکتی۔ دوسرا انہیں یہ اندازہ بھی ہوگیا ہے کہ عمران خان اپنے مخصوص رف اینڈ ٹف سٹائل، نرگسیت اور خبط عظمت کے باوجود "ون مین شو" کا قائل نہیں اور لامحدود اختیارات نہیں چاہتا۔ ارشاد احمد عارف صاحب سے اگلے روز اس پر بات ہو رہی تھی تو انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ شائد کسی حد تک کمپرومائز کرنے اور معاملات چلانے کی عادت عمران خان میں کرکٹ ٹیم کی کپتانی کے دنوں میں پیدا ہوئی۔ عمران اپنی مرضی کی ٹیم مانگتا، بیشتر ایسا ہوبھی جاتا، مگر کچھ نہ کچھ کمپرومائز وہ کر لیتا تھا۔ ورلڈ کپ92 میں بھی اس نے اقبال سکندر جیسے ایوریج سپنراور اسی طرح کے ایک دو کھلاڑیوں سے کام چلا لیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ یا مجبوری کی تیسری وجہ عمران کا ریفارمز کا ایجنڈا ہے۔ اپنی ناتجربہ کاری، کمزور ٹیم اور خوش فہمیوں کا شکار بعض ساتھیوں کی وجہ سے اس کی حکومت اپنا تاثر نہیں جما پائی۔ کئی معاملات میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور الیکشن کے دنوں کے بلند وبانگ دعوے اب آسیب کی طرح ان کا تعاقب کر رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود یہ صرف عمران خان ہی ہوسکتا ہے جو لوٹ مار کرنے والوں سے پیسے وصول کر دکھائے، جو طاقتور طبقات پر ٹیکس لگائے اور ملکی معیشت کو سیدھا کرنے کے لئے غیر مقبول سخت فیصلے کرے۔ عمران خان کے علاوہ اور کون ایسا سیاستدان ہوسکتا تھا جو ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف ایسے منصوبے بنائے؟ ایف بی آر کو تاریخ ساز اختیارات دے، بینکوں کا کان مروڑ کر انہیں اکائونٹس کی تفصیل دینے پر مجبور کرے اور اکانومی کودستاویزی بنانے کے لئے سنجیدگی سے سوچے۔ نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری وغیرہ سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسحاق ڈار وزیرخزانہ بنے تو ایف بی آر کے پاس ان تیس لاکھ پاکستانیوں کی فہرست تھی، جو بیرون ملک تفریحی دورے کرتے رہے، بڑی گاڑیوں کے مالک، ان کی بڑی جائیدادیں ہیں اور بچے مہنگے ترین سکولوں میں پڑھتے ہیں، مگر ٹیکس ایک روپیہ بھی نہیں دیتے۔ ن لیگ نے اس فہرست کو اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ عمران خان کی حکومت کا رویہ یکسر مختلف ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اسی لئے تحریک انصاف کی حکومت کو مکمل سپورٹ کر رہی ہے کہ اب یوں کام چلنے والا نہیں۔ ٹیکس اصلاحات، منی لانڈرنگ روکنا، بلیک منی کو سسٹم میں لانا اور متوازی معیشت کو کنٹرول کرنا ہی پڑے گا۔ چاہے اس سے سیٹھ حضرات خوفزدہ ہوں یا ناراض، وہ چیخیں یا چلائیں، اب معیشت کو سنوارنے کا منصوبہ حکومت کا نہیں بلکہ ریاست کا ہے۔ ریاست کے تمام ستون اس حوالے سے یکسو ہیں۔ یہ ان شااللہ اب ہو کر رہے گا اور ہم سب دیکھیں گے۔ قدرت کے منصوبے کوئی اور نہیں جان سکتا، ہم تو ظواہر کی بنیاد پر رائے دیتے ہیں۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ حکومتی ماڈل اسی طرح پانچ یا دس سال چلے گا۔ فوج اور سول ایک ساتھ مل کر کام کریں گے۔ قومی اقتصادی کونسل میں عسکری قیادت کا شامل ہونا اسی تناظر میں کیا فیصلہ ہے۔ یہ نیا حکومتی ماڈل ہے۔ اسے سمجھ لیا جائے تو بہت سے مفروضے اور سازشی تھیوریاں دم توڑدیں گی۔ جہاں تک ڈیل کا تعلق ہے، وہ ساتھ ساتھ چلتا رہے گا۔ اس کی ضرورت عمران کو نہیں، قید ہوئے رہنمائوں کو ہے۔ اس بار مگر ڈیل کچھ بلکہ بہت کچھ دئیے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔ اربوں ڈالر دینا پڑیں گے، یہ البتہ ممکن ہے کہ براہ راست حکومت کو دئیے بغیر کسی دوست ملک کے توسط سے دئیے جائیں۔ یار لوگ تو قطر کی جانب سے بارہ یا پندرہ ارب ڈالر کی مددکو بھی اسی کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ واللہ اعلم۔ اگر ایسا ہو ا تو پھر زرداری صاحب کی ڈیل میں یہی کردار امارات کو نبھانا پڑے گا۔ بات البتہ چھپی نہیں رہے گی، سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے، یہ اس کی اپنی مرضی ہوگی۔ جس طرح شریف خاندان کے سعودیوں سے معاہدہ کی تفصیل سامنے آنے کے بعد بھی آج ان کا کوئی حامی نہیں مانتا توظاہر ہے زبردستی نہیں کی جا سکتی۔ یہ یاد رہے کہ ڈیل جان بچانے کے لئے ہوگی، حکومت بدلنے کے لئے نہیں۔ شہباز شریف صاحب کی خاموش سفارت کاری بھی اب انہیں ایوان اقتدار میں نہیں پہنچا سکتیں۔