نئی دنیا، نئے حقائق
جنگ کبھی خوشگوار نہیں ہوتی، اپنے جلو میں یہ تباہی اور بربادی لاتی ہے۔ پاکستان، بھارت کے لوگوں نے جنگ کا حقیقی وحشت ناک چہرہ دیکھا ہی نہیں۔ جو جنگیں ہم نے آپس میں لڑیں، وہ محدود تھیں اور ان میں شہروں کو نقصان پہنچانے سے گریز کیا گیا۔ یورپ کو دوسری جنگ عظیم میں جس تباہی کا سامنا کرنا پڑا، اس سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا اور پھر کبھی ویسی صورتحال پیدا کرنے سے گریز کیا۔ امریکہ کو ویت نام میں بہت نقصان اور شرمندگی اٹھانا پڑی۔ نائن الیون کے بعدامریکہ بوکھلاہٹ میں افغانستان اور پھر عراق پر چڑھ دوڑا۔ ایک بار پھرشرمندگی اٹھانا پڑی۔ پاکستان میں بھی ایک حلقہ ایسا ہے جو جنگ وجدل کا حامی ہے۔ پاکستانی اشرافیہ، منصوبہ ساز اوران کے ساتھ ہماری انٹیلی جنشیا کی اکثریت البتہ امن کی حمایت کرتی ہے۔ یہ بہت اچھی اور مثبت بات ہے۔ یہ بات مگر یاد رکھی جائے کہ امن کے لئے بھی ایک خاص سطح کی قوت اور استحکام ہونا ضروری ہے۔ یہ ممکن ہے کہ سوئٹزرلینڈ جیسا کوئی ملک فوج نہ رکھے یا سکینڈے نوئن ممالک (ناروے، سوئیڈن، ڈنمارک)کا دفاعی بجٹ نہ ہونے کے برابر ہو یا کسی اور ملک کو کبھی کسی حملہ کا خطرہ ہی نہ ہو، اسلئے وہ اپنی فوج یا دفاعی بجٹ پر خرچ نہ کریں۔ پاکستان جیسا جغرافیہ رکھنے والاملک، جسے اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے اور توسیع پسندانہ ایجنڈہ رکھنے والے ہمسایے کے شر سے محفوظ رہنا ہو، وہ دفاع مضبوط کئے بنا نہیں رہ سکتا۔ مضبوط دفاع ہی مستقل امن کی ضمانت ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو ہمارے این جی او ز کے زیراثر دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے ایک حلقہ کو کبھی سمجھ نہیں آیا۔ پچھلے دس پندرہ برسوں میں خاص طور سے اس حلقے نے فوج، دفاعی بجٹ اور پاکستانی ایٹمی پروگرام کے خلاف بہت پروپیگنڈہ کیا۔ مجھے یاد ہے کہ نجی ٹی وی کے ایک مشہور ٹاک شو میں کچھ طلبہ کو مدعو کر کے آپ کی عدالت ٹائپ پروگرام کیا جاتا۔ اس میں عجیب وغریب طریقے سے فتنہ انگیز سوال پوچھے جاتے۔ طلبہ سے کبھی پول کرایا جاتا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ تعلیم پر بجٹ خرچ ہو یا پھر دفاع پر بجٹ خرچ کیا جائے؟ یہ سوال ہی شرانگیز تھا۔ جیسے کسی بھوکے سے پوچھا جائے کہ تمہیں روٹی چاہیے یا پستول کا لائسنس بنوا کر دیں۔ وہ ظاہر ہے روٹی مانگے گا، بھوک کے عالم میں تو چاند بھی روٹی نظر آتا ہے۔ تعلیم اور دفاع کا آپس میں موازنہ ہی غلط ہے، دونوں کی آپس میں لڑائی ہے کیا؟ تعلیم یافتہ شخص کو حفاظت کی ضرورت نہیں پڑتی کیا؟ ضرورت کے تحت کسی ملک کو دفاع پر خرچ کرنا پڑے گا اور تعلیم پر بھی، بلکہ صحت، روزگار، انصاف، ماحول، غرض ہر شعبہ زندگی کی اپنی اہمیت ہے۔ سوال تویہ بنتا تھا کہ کیا آپ آزاد ملک کا رہائشی رہنا چاہتے ہیں یا پھر کسی خوشحال حالت میں غلام قوم کا فرد، جس پر غیر ملکی قوت قابض ہو۔ ہمارے ان لبرل، سیکولر دانشوروں نے دو عشروں میں فوج کے خلاف جس قدر پروپیگنڈہ ممکن ہے کر ڈالا۔ اسٹیبلشمنٹ کالفظ ہی گالی بنا دیا گیا۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام، میزائل، عسکری صلاحیت پر سوال اٹھائے۔ بار باریہ الزام لگایا کہ پاکستان کی فوج بھارت سے صلح نہیں کرنے دے گی کہ ان کے اللے تللے ختم ہوجائیں گے۔ کبھی انہیں چوکیدار کہہ کر مذاق اڑایا گیا، کبھی فورسز کی قربانیوں کی یہ کہہ کر تضحیک کی گئی کہ یہ نوکری کر رہے ہیں، انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔ ان میں ذرا بھی حیا ہوتی تو سوچتے کہ چند ہزار روپوں کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر کون ملازمت کرتا ہے؟ کیا جان دائو پر لگانے کو صرف نوکری کہا جائے؟ کیا باون ڈگری سینٹی گریڈ کے آگ برساتے دنوں اور منفی بیالس کے منجمد کر دینے والے برفانی ٹمپریچر میں ڈیوٹی دینے والے فوجی کو عام سرکاری ملازم کی طرح ٹریٹ کیا جا سکتا ہے؟ کتنی بیکار بحثیں سکیورٹی سٹیٹ اور ویلفئیر سٹیٹ کے تناظر میں کی گئیں۔ کہا گیا کہ پاکستانی فوج نے ملک کو سکیورٹی سٹیٹ بنا رکھا ہے، اسی وجہ سے یہ ویلفیئر ریاست نہیں بن پا رہا۔ یہ موازنہ بھی فتنہ انگیز اور غلط تھا۔ پاکستان کے بیشتر مسائل بیڈ گورننس کی وجہ سے ہیں۔ سکیورٹی سٹیٹ ہوتے ہوئے بھی کوئی ملک ویلفیئر سٹیٹ بن سکتا ہے۔ دفاع پر تو سترہ اٹھارہ فیصد خرچ اٹھتا ہے، جبکہ بدترین حکمرانی کی وجہ سے ملک پر اتنے قرض لاد دئیے گئے، جن کی ادائیگی میں آج ہمیں دفاعی بجٹ سے ڈھائی تین گنا زیادہ یعنی پینتالیس فیصد کے قریب خرچ کرنا پڑتا ہے۔ ان قرضے لینے میں کون سے دفاعی بجٹ یا سکیورٹی سٹیٹ کا ہاتھ ہے؟ خیر یہ سب مفروضے، فکری مغالطے، فتنہ پروری، سازشی نظریات، غلط پروپیگنڈہ … سب پانی میں رکھی نمک کی ڈلی کی طرح تحلیل ہوگئے۔ پاکستانی عوام کی آنکھوں پر جو پٹی باندھنے کی لگاتار کوشش ہوتی رہی، انہیں گمراہ کرنے کے لئے تیز، طرار ذہنوں نے جو تراکیب سوچیں، وہ سب الٹ ہوگئیں۔ بالی وڈ کا گلیمرس نقاب ہٹا تو بھارتی ریاست کے حقیقی خوفناک چہرے نے پاکستانی عوام پر سب کچھ واضح کر دیا۔ انہیں پہلی بار اندازہ ہوا کہ مضبوط دفاعی قوت کے بغیرزندگی نری شرمندگی اور شرمساری ہے۔ وہ جان گئے کہ اگر پاکستانی افواج نے اپنی دفاعی صلاحیت بڑھائی نہ ہوتی، بھارت سینٹرک سٹریٹجی کے تحت دشمن کی عسکری استعداد، اس کے ہتھیاروں پر نظر نہ رکھی ہوتی، اسے کائونٹر کرنے کے منصوبے نہ بنائے ہوتے تو آج پاکستان کی حیثیت عملی طور پر نیپال، بھوٹان جیسی ہوتی۔ بھارت کا جنگوازم دانت نکوسے، رال ٹپکائے ناچ رہا ہوتا اور ہمارے پاس ندامت سے نظریں جھکانے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ بھارت نے جب پہلے دن سٹرائیک کیا اور کیمپ تباہ کرنے کے بلند وبانگ دعوے کئے، اس دن پاکستانی عوام کا مورال دھڑام سے زمین پر آ گرا تھا۔ ڈپریشن اور فرسٹریشن کی یہ حالت تھی کہ ایک صحافی دوست نے تاسف سے کہا، ہماری کمزوری دیکھ کر کہیں سعودی حکومت اپنی انویسٹمنٹ واپس ہی نہ لے لے کہ وہ پاکستان کو اپنا سکیورٹی چیک سمجھ رہے ہیں جبکہ ہم تو اپنا دفاع نہیں کر پائے۔ اگلے دن پاکستان نے سٹرائیک بیک کر کے پانسہ ہی پلٹ دیا۔ قوم کا مورال بھی آسمان کو چھونے لگا۔ باخبر لوگ پہلے ہی جانتے تھے، اب تو ہمارے وزیرخارجہ نے یہ آشکار بھی کر دیا کہ بھارت نے جوابی حملے میں پاکستان کے چند اہم مقامات کو نشانہ بنا لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں اسرائیل کی عسکری سپورٹ بھی حاصل تھی۔ یہ بڑا نازک وقت تھا۔ ایسے فیصلہ کن مواقع پر اپنی قوت ہی کام آتی ہے، دوست ممالک بھی اس وقت ساتھ دے پاتے ہیں جب معاملہ طول کھینچے۔ پاکستان کے جاسوسی نظام کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں نے جان کی بازی لگا کر بروقت اہم اور حساس معلومات حاصل کیں۔ ان کی بنیاد پر فوری فیصلہ سازی ہوئی۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول کمیٹی کا اجلاس بھی اسی لئے ہوا۔ میں یہ قطعی نہیں کہہ رہا کہ ماضی کے وزیراعظم بزدل یا کم ہمت تھے، یہ مگر حقیقت ہے کہ اس وقت وزیراعظم ہائوس میں ایسا مضبوط اعصاب کا مالک شخص موجود ہے جو کبھی رسک لینے سے نہیں ڈرتا اور نازک لمحات میں پلک نہیں جھپکنے والا۔ ایسی صورتحال افواج پاکستان کو مزید قوت اور حوصلہ دیتی ہیں۔ انہیں معلوم ہو کہ سول حکومت ان کا بوجھ اٹھانے اور ہر مشکل وقت میں ساتھ کھڑی ہے، تب ان کے لئے جرات مندانہ، ہائی رسک گیم کھیلنا آسان ہوتا ہے۔ پاکستان نے تب ایسا ہی کیا۔ دشمن کے ایک کی جگہ تین میزائل سے جواب دینے کا فیصلہ ہوا۔ بھارت کے ڈیڑھ دو درجن اہم ترین مقامات کی ایگزیکٹ نشاندہی کر لی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک نقشہ دوست ممالک کے توسط سے دشمن تک پہنچایا گیا، جس میں متعدد سرخ دائرے لگے تھے کہ پاکستان پر کسی حملہ کی صورت میں ان مقامات کو بھی اڑا دیا جائے گا۔ یہی وہ وار تھا، جس نے بھارتی عسکری اور سیاسی قوت کو چکرا کر رکھ دیا۔ انہیں شائد اندازہ ہی نہیں تھا کہ پاکستان کو ان کے اہم ترین مقامات کی اصل لوکیشن کے بارے میں اتنی درست معلومات ہیں۔ بھرپور جواب دینے کی استعداد، قوت اور عزم ہی وہ فیصلہ کن فیکٹر تھا، جس نے بھارت کو کسی حماقت سے روکا۔ ثابت ہوگیا کہ عزت سے زندہ رہنا ہے تو اپنا پیٹ کاٹ کرمضبوط دفاعی قوت بنا رہنا پڑے گا۔ دشمن ایسے باتوں، امن کی آشا جیسے ڈھکوسلوں سے ماننے والا نہیں۔ یہ نئے زمانے کے نئے حقائق ہیں۔ انہیں جان کر، مان کر ہی جیا جا سکتا ہے۔ اس پورے منظرنامے سے پاکستانیوں نے یہی سبق سیکھا ہے۔