ملالہ یوسف زئی کی وہ باتیں جو شور میں دب گئیں
ملالہ یوسف زئی کے فیش میگزین ووگ کو دئیے گئے انٹرویو کو یہ کالم لکھنے سے پہلے دوسری بارتفصیلی اور تیسری بار طائرانہ انداز میں پڑھا تو اندازہ ہوا کہ ملالہ کے ایک جملے نے اس انٹرویو کی کئی باتیں اوجھل کر دیں۔ ووگ میں چھپنے والا انٹرویودلچسپ اور خاصا طویل ہے، برطانوی صحافی نے عمدگی سے ملالہ کی زندگی کے کئی پہلو سامنے لائے، خاص کر آکسفورڈ میں تعلیم کا تجربہ اور مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہے۔
ملالہ نے اپنے مستقبل کے حوالے سے ایک دلچسپ بات بتائی کہ اس نے سال میں چوراسی 84))کتابیں پڑھنے کا عہد کر رکھا ہے، یہ سات کتابیں ماہانہ بنتی ہیں۔ (کتابیں پڑھنے کے ایک شائق کے طور پر خاکسار نے ملالہ کے اس ذوق اور جذبے پر رشک کاجذبہ محسوس کیا۔) ملالہ نے تین ماہ پہلے مارچ (2021)میں ایپل ٹی وی پلس (Apple TV+)کے ساتھ کئی برس پر محیط معاہدہ کیا ہے، جس کے مطابق ملالہ کی کمپنی ایکسٹرا کریکلر(Extracurricula r)ایپل ٹی وی کے لئے مختلف شو، کامیڈی پروگرام، بچوں کے پروگرام اور دستاویزی فلمیں بنائے گی۔
ملالہ نے انگلینڈ میں تعلیم کی دلچسپ باتیں بتائیں۔ سکول میں اس کے ساتھی طلبہ اس سے پوچھتے کہ اوباما، ایمی واٹسن (ہیری پوٹر فلم سیریز کی اداکارہ)اور انجلینا جولی (نامور ہالی وڈ اداکارہ)سے ملاقاتیں اسے کیسے لگیں؟ ملالہ کو یہ عجیب لگتا، اسے سمجھ نہ آتی کہ کیا جواب دے۔ وہ اس (مشہور) ملالہ کو سکول کی عمارت سے باہر چھوڑ کر عام طالب علم کے طور پر کلاس میں آنا چاہتی تھی۔ آکسفورڈ میں خیر اس نے دیگر طلبہ کے ساتھ مل کر مزے بھی کئے، رات کو دیر تک گپیں لگانا، آرڈر کر کے برگر منگوانا وغیرہ۔ ملالہ کے بقول اس کے کمرے میں ہمیشہ رش لگا رہتا کیونکہ وہ آنے والے دوستوں کے لئے کچھ نہ کچھ کھانے کی چیزیں رکھا کرتی تھی۔ یہ اس کی پختون مہمان نوازی کی روایات کا حصہ تھا جو اس نے اپنے والدین سے سیکھا۔ ملالہ شراب نہیں پیتی، مگر اپنے دوستوں کے ساتھ پب چلی جاتی تھی، وہاں وہ مزے سے انہیں پیتے اور پھرٹُن ہو کر ہلاگلا کرتے دیکھتی رہتی۔
ملالہ کو کرکٹ میچ دیکھنا بہت پسند ہے، اس کے بقول ٹیسٹ میچ دیکھنے کو ملنا تو کمال ہی ہے۔ ملالہ کے بقول اس کے دل میں اپنے وطن (پاکستان) جانے کی شدید خواہش تھی۔ وہ سوچتی کہ پاکستان کب جائے گی؟ حتیٰ کہ تین سال پہلے ملالہ نے اپنے والد سے کہا کہ پاکستانی سیاست میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا رہے گا، اس لئے اب ہمیں ہر حال میں پاکستان جانا چاہیے۔ ملالہ نے برطانوی صحافی کو بتایا کہ جب ہمارا جہاز اسلام آباد ائیرپورٹ لینڈ کر گیا اور میں پاکستان کی فضا میں سانس لے رہی تھی تو یہ سب سپنے جیسا لگ رہا تھا۔
ووگ کی صحافی نے محسوس کیا کہ ملالہ سیاست کے حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کرتی ہے۔ شائد اس لئے کہ اس کی تنظیم" ملالہ فنڈز "آٹھ ملکوں میں کام کر رہی ہے اور سیاست سے اس چیریٹی کام میں حرج ہوسکتا ہے۔ سیاست کے حوالے سے سوالات پر ملالہ کا کہنا تھا، " سیاست میں داخل ہونے سے پہلے بندے کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کرنے آیا ہے اور کس کے ساتھ مل کر کام کرے گا؟ آپ جانتی ہیں کہ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کا ماضی بے داغ اور شفاف نہیں، کیا ان کا دفاع کیا جائے؟ اپنی نئی سیاسی جماعت بنائی جائے؟ عمران خان نے نئی جماعت بنائی مگر انہیں کامیاب ہونے میں تیس سال لگ گئے۔"
ملالہ نے محبت، رومان وغیرہ سے سوالات کاابتدا میں کھل کر جواب نہ دیا۔ حتیٰ کہ رپورٹرنے لکھا کہ مجھے لگا کہ مزید سوالات پوچھنا کسی بلی کے ننھے بچے کو تشدد کانشانہ بنانے جیسا ہوگا، اس نے موضوع بدل دیا۔ بعد میں ایک بار بریڈ پٹ سے ملاقات کا ذکر آیا تو صحافی نے پوچھا کیامشہور ہالی وڈ اداکار واقعی ہینڈسم ہے؟ ملالہ شرمیلے انداز میں مسکرائی اور بولی ہاں، یہ کہہ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا لیا۔ بعد میں البتہ جب یہ دونوں پارک میں چہل قدمی کرنے لگے تو ملالہ نے بتایا کہ اس کے دوست سوشل میڈیا پر جب اپنے پارٹنرز، ریلیشن شپ وغیرہ کا بتاتے ہیں تو وہ بھی اس بارے میں سوچتی ہے، کسی پر اعتماد کیا جا سکتا ہے یا نہیں وغیرہ۔ یہاں پر ملالہ یوسف زئی نے وہ متنازع بات کہی جس نے پچھلے دودنوں سے پاکستان میں خاص کر سوشل میڈیا پر تہلکہ مچایا ہوا ہے۔
ملالہ نے کہا، "میں ابھی تک نہیں سمجھ سکی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں؟ اگر آپ کسی کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے میرج پیپرز پر دستخط کیوں کرتے ہیں؟ یہ صرف پارٹنر شپ کیوں نہیں ہوسکتی؟ why cant it just be a partnership?۔ اس کے بعد ملالہ نے ہنس کر کہا، میری ماں کہتی ہے کہ تمہیں ایسی بات کہنے کی ضرورت نہیں، تمہیں شادی کرنی چاہیے، شادی خوبصورت (رشتہ) ہے۔"
ملالہ کے ان جملوں نے طوفان اٹھا دیا۔ اس کا دفاع کرنے والے عجیب وغریب تاویلات اور دلائل دے رہے ہیں۔ ملالہ کے والد نے ٹوئٹ کیا کہ ملالہ کا جملہ سیاق وسباق کے بغیر میگزین کی اپنی تاویلات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ملالہ نے ابھی تک وضاحت کی زحمت نہیں کی، حالانکہ اس پر ایک منٹ میں دو سطری وضاحتی ٹویٹ جاری کیا جا سکتا تھا۔ یاد رہے کہ ملالہ کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ پر اٹھارہ لاکھ فالورز ہیں۔ اس کے بعض حامیوں نے دلیل دی ہے کہ وہ نکاح کی مخالفت نہیں کر رہی، صرف نکاح کے کنٹریکٹ پر تنقید کی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
سیاق وسباق کو کوئی چکر نہیں، ملالہ کی بات بڑی واضح اور غیر مبہم ہے۔ اس نے شادی کے بغیر پارٹنر شپ یعنی ساتھ رہنے کی بات کی ہے۔ مغرب میں اور اب تو انڈیا میں بھی شادی کے بغیر رہنا (Live In relationship)عام ہوچکا ہے۔ مسلم سماج میں یہ صریحا ً غلط اور گناہ ہے۔ پاکستانی سماج میں تو خیر کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ملالہ کی یہ بات واضح طو رپر ایک مسلمہ اسلامی، مشرقی، پاکستانی اخلاقی قدر کے خلاف ہے۔ اس پر تنقید ہونا، اعتراض کرنا فطری اور منطقی ہے۔ ملالہ کی اس کمزور، مجہول، بچکانہ بات کا دفاع کرنا البتہ حیران کن ہے۔ اس کے حامیوں کو صاف کہہ دینا چاہیے تھا کہ اس نے غلط بات کی اور اپنی کم فہمی، کم علمی اور نوجوانی والی شوخی کا مظاہرہ کیا ہے، اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
میرے جیسے لوگ ملالہ کے مداح نہیں اور اس کے نوبیل انعام کے حوالے سے بھی تحفظات رکھتے ہیں، تاہم میرے خیال میں ملالہ کو مغرب کا ایجنٹ قرار دینا، اس کے بارے میں سازشی نظریات پھیلانا غلط اور نامناسب ہے۔ اس پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس بارے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں، اس کی ہیڈ انجری ہوئی، جس کی سرجری آرمی کے ڈاکٹروں نے کی، پھر لندن میں اس کا آپریشن ہوا، جس کے نتیجے میں اس کا منہ قدرے ٹیڑھا ہوگیا۔ اب بھی کوئی شک کرتا ہے تو اسے اپنا نفسیاتی علاج کرانا چاہیے۔
میں ذاتی طور پر نہیں سمجھتا کہ ملالہ کا یہ کمزور اور غلط جملہ کسی بڑی سازش کا پیش خیمہ ہے اور اس سے وہ ہماری نئی نسل کو گمراہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ سب بعید از قیاس مفروضے ہیں۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ملالہ کو مغرب پاکستان میں کسی بڑے ایجنڈے کے لئے لانچ کرنا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ کوئی متنازع بات نہ کرتی۔ پاکستان میں اگر عوام کو بے وقوف بنانا ہو تو سب سے آسان حربہ مذہب کو استعمال کرنا ہے۔ ملالہ نے اگر پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانا ہوتا تو وہ اپنا تاثر مذہبی بناتی، ہاتھ میں تسبیح رکھتی، مذہبی علامات کونمایاں کرتی۔ اس کے برعکس ملالہ کا پورا امیج ایک ماڈرن، سیکولر، پختون مسلم لڑکی کا ہے۔ اس کی فکر پر اس کے والد کا اثر ہے جو ایک سیکولر، غیر مذہبی پختون قوم پرست سوچ رکھتے ہیں۔ مجھے یا کسی کو بھی اس فکر سے اختلاف ہوسکتا ہے، مگر یہ پاکستان میں ایک پورا سکول آف تھاٹ ہے اور انہیں ایسا سوچنے کا حق حاصل ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو مغرب نے گلوریفائی کیا، دولت، شہرت، عزت دی۔ نوبیل انعام دیا، اس کے امدادی فنڈ کے لئے عطیات بھی مغرب سے ملتے ہیں، اس لئے وہ مغربی آڈینس اور وہاں کے سیکولر، فیمنسٹ پیمانوں کو ملحوظ خاطر رکھتی ہے۔ وہ کشمیر پر کھل کر بات نہیں کرتی، اسرائیل کے خلاف کبھی نہیں بولتی، مسلم دنیا میں انسانی حقوق کے ایشوز پر بھی ڈپلومیٹک رویہ رکھے گی۔ یہ سب سمجھ میں آنے والی باتیں ہیں۔ ملالہ انقلابی نہیں، وہ نوم چومسکی، اروندھتی رائے بھی نہیں۔ جو باتیں رابرٹ فسک، ایڈورڈ سعید جیسے غیر مسلموں نے کہیں، ملالہ وہ بھی نہیں کہے گی۔ ہمیں ملالہ سے اس حوالے سے توقعات نہیں رکھنی چاہیں، مگر اس پرنامناسب غلط الزامات بھی نہیں لگانے چاہئیں۔ ملالہ نے البتہ میرج کے بغیر پارٹنرشپ کی جو بات کہی، وہ بوگس، غلط اور غیر اخلاقی ہے۔ اسے اس پر معذرت یا وضاحت کرنی چاہیے۔ اگر اسے لگتا ہے کہ سیاق وسباق کے بغیر بات کہی گئی تو اب سیاق وسباق واضح کر دے۔