کیا تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے؟ (1)
آگے بڑھنے سے پہلے آپ چند جھلکیاں ملاحظہ کیجئے: ملک میں سپریم کورٹ اور وفاقی حکومت میں ٹکرا وکی سی کیفیت۔
وزیراعظم اور وزرا کا چیف جسٹس آف پاکستان پر پارٹی بننے اور خلاف فیصلے کرنے کا الزام۔
میڈیا میں حکومت نواز صحافیوں کی چیف جسٹس کے خلاف مہم، کالم، تجزیے، گوسپ۔
چیف جسٹس کا اپنی سربراہی میں تین رکنی بنچ بنا کر بعض اہم کیس سننا۔
حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو عدالت عظمیٰ کے خلاف لانے کی کوشش۔
پارلیمنٹ سے ایسی قانون سازی جس کا مقصد اعلیٰ عدلیہ خاص کر چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کی کوشش ہو۔
عدلیہ میں تقسیم، بعض سینئر جج صاحبان کا اپنے چیف سے مختلف نقطہ نظر رکھنا۔
اس پورے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کا نیوٹرل رہنے کا تاثر۔
اوپر دئیے گئے پوائنٹ کو ملا کر آپ کو چند سطروں پر مشتمل کہانی لکھنا پڑے تو یقینی طور پرنہایت آسانی سے لکھ لیں گے۔ اگر پوچھا جائے کہ یہ کب کا قصہ ہے، کس سال کا؟
کیا آپ کا جواب ہوگا: ہمارے حالات حاضرہ؟ دو ہزار تیئس کا چوتھااور پانچواں مہینہ؟ جواب غلط ہے، کم از کم تکنیکی طور پر غلط۔ یہ جو کہانی بیان کی گئی ہے، اس میں گو آج کی جھلک اور مماثلت ملے گی، مگر یہ آج کا نہیں بلکہ چھبیس سال پرانا قصہ ہے، 1997کا۔
آج کے واقعات اور آج کی کہانی کو سمجھنے کے لئے ہمیں پہلے تاریخ کے پرانے اوراق پلٹ کر چھبیس سال پیچھے کی طرف سفرکرنا ہوگا۔ اس پرانی کہانی کی طرف جو نہ صرف چونکا دینے والی ہے بلکہ اس میں آج کے مسائل کا حل اور ان کی کنجی بھی موجود ہے۔
اس کہانی میں ایک ہفتہ بہت اہم ہے۔ سات دن جنہوں نے اس ملک کا بہت کچھ بدل ڈالا۔ یہ سات دن چھبیس نومبر سے دو دسمبر 97تک کے ہیں۔ کہانی مگر ان سا ت دنوں سے کئی ہفتے قبل شروع ہوئی۔
چھبیس سال پہلے ملک کے وزیراعظم میاں نواز شریف تھے جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ۔ تب صدر مملکت فاروق خان لغاری تھے۔ کہانی کا کلائمکس تب آیا جب وزیراعظم اور چیف جسٹس ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے، صدر کی اخلاقی ہمدردی اور حمایت تب چیف جسٹس کے ساتھ تھی۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ بظاہر نیوٹرل مگر اس کا عملی طور پرفائدہ حکومت ہی کو ملا۔
یہ ضرور یاد رکھیں کہ اس پورے تصادم سے پہلے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور صدر مملکت جناب وزیراعظم کے مخالف نہیں تھے۔ صدر لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی اسمبلی توڑی تھی، اسی سے نواز شریف کو الیکشن جیت کر حکومت میں آنے کا موقعہ ملا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی تب محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے راندہ درگاہ بن چکے تھے کیونکہ چیف جسٹس نے ان کی اسمبلی کے توڑے جانے کو جائز قرار دیا تھا۔
حالات میں تبدیلی کی ایک وجہ نواز شریف کی جانب سے آئین میں کی گئی تیرویں ترمیم قرار دی جاتی ہے۔ اس ترمیم کی رو سے صدر کا اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم ہوگیا۔ یہ بات ٹھیک نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لڑائی کی وجہ تیرویں یا چودھویں ترمیم نہیں تھیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان اورحکومت کے درمیان ٹکرا و کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ وزیراعظم نواز شریف نے نجانے اپنے کن مشیروں کے کہنے پرتیرہ اگست 97 کو ایک اینٹی ٹیررازم بل اسمبلی سے منظور کرایا تھا جو کئی اعتبار سے نہایت خطرناک تھا۔ اس بل میں پولیس کو بے پناہ اختیارات دئیے گئے تھے۔
پولیس کو ملزم کو موقعہ پر شوٹ کرنے کا اختیار دے دیا گیا، دوسرا پولیس کی تحویل میں ملزم کے دئیے گئے اعترافی بیان کو بطور شہادت پیش کیا جا سکتا تھا۔ دہشت گردی کے کیسز کے لئے سپیشل سمری کورٹس بنائی جانی تھیں جو سات دنوں کیسز کے فیصلے کریں اور پھر ان پر فوری عملدرآمد بھی ہوجائے۔ وکلا، سیاسی کارکنوں اور ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس کو خدشہ تھا کہ حکومت بل کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرے گی۔
سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کیا گیا تو چیف جسٹس نے بل کے بعض حصوں کو خلاف آئین اور قانون قرار دیا۔ وزیراعظم اور بعض دیگر ن لیگی رہنمائوں نے اس پر سخت ردعمل دیا اور توہین عدالت پر مبنی کمنٹس دئیے۔ وہ کمنٹس بعض اخبارات میں شائع ہوئے۔ سپریم کورٹ نے اس پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دی۔ یوں حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان خلیج پیدا ہوئی جو بڑھتی گئی۔
دوسری وجہ سپریم کورٹ میں خالی سیٹوں پر ججوں کا تقرر تھا۔ آئین کے مطابق سپریم کورٹ میں سترہ جج ہونے چاہیں، تاہم تب سپریم کورٹ میں صرف بارہ جج تھے۔ چیف جسٹس نے اصول کے مطابق ہائیکورٹس کے پانچ سینئر ترین ججوں کو سپریم کورٹ بھیجنے کا کہا۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں پہلے جج دینے سے تامل کیا اور پھر کہا کہ پانچ کے بجائے صرف تین جج ابھی لے لئے جائیں۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پانچ جج نہ دینے کی کوئی ٹھوس وجہ بتائی جائے۔
پانچ جج نہ دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ دراصل نواز شریف حکومت تب کے چیف جسٹس لاہورکورٹ کو سپریم کورٹ نہیں بھیجنا چاہ رہی تھی۔ مسلم لیگی تھنک ٹینک کا خیال تھا کہ وہ چیف جسٹس ہائی کورٹ ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اپنے حامی چیف جسٹس ہائی کورٹ کو وہ اوپر عدالت عظمیٰ میں نہیں بھیجنا چاہتے تھے۔
ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے بعدجو سینئر موسٹ ہائی کورٹ جج تھا، اس کے دلیرانہ اور مضبوط فیصلوں سے مسلم لیگ ن مبینہ طور پر خائف تھی۔ انہیں خدشہ تھا کہ اگر وہ جج سپریم کورٹ چلا گیا تو آئندہ کئی برسوں تک ان کی چھاتی پر مونگ دلتا رہے گا اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو بھی تقویت ملے گی۔ یہ سب باتیں مگر ایسی تھیں جو پبلک میں نہیں کہی جا سکتی تھیں، اس لئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے مطالبے پر آئیں بائیں شائیں کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔
یہ معاملہ چلتا رہا، آخر حکومت نے معاملہ کھوہ کھاتے ڈالنے کے لئے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد ہی سترہ کے بجائے بارہ کر دی جائے۔ اس مقصد کے لئے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرایا گیا۔ چیف جسٹس نے وہ آرڈر معطل کر دیا۔
مزے کی بات ہے کہ سپریم کورٹ بار کے تب صدر اکرم شیخ تھے۔ شیخ صاحب طویل عرصے سے میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی اور معتمد قانونی مشیر تھے۔ ماضی میں پیپلزپارٹی مسلم لیگ کشمکش میں وہ مسلم لیگ اور نواز شریف کے ساتھ رہے تھے۔ تاہم شیخ صاحب کے مطابق وہ وزیراعظم نواز شریف کے غیر جمہوری اقدامات کی تائید نہیں کر سکتے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر حکومت شدید ردعمل دیتی رہی۔ حکومتی وزرا اس پر برہم تھے اور وہ مسلسل پارلیمنٹ کی سپرمیسی کے نعرے لگاتے رہے۔ تیئس اکتوبر1997 کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ صرف پارلیمنٹ ہی سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد کا تعین کر سکتی ہے۔ یہ کام عدالت کا نہیں، قانون بنانا پارلیمنٹ کا حق ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس دوران مفاہمت کی درپردہ کوششیں بھی چلتی رہیں۔ آخر اکتیس اکتوبر 97کووزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں یہ یہ بیان دے کر ہر ایک کو حیران کر دیا کہ حکومت چیف جسٹس کی ڈیمانڈ پوری کرے پر تیار ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر یہ یقین دہانی کرائی۔ ججز سپریم کورٹ میں بھیجنے کے بعد بظاہر معاملہ ختم ہونے کا تاثر ملا، مگر بات ختم نہیں ہوئی تھی۔
توہین عدالت کی کارروائی عدالت میں چلتی رہی تو خدشات بڑھے۔ حکومت نے اس لڑائی کو پارلیمنٹ بمقابلہ عدلیہ بنا دیا۔ جنگ میں شدت آئی اور پھر وہ سات دن آئے جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ چھبیس نومبر سے دو دسمبر 1997تک سات دن۔ پھر فائنلی بڑا تصادم۔ جس میں کسی کی ہار، کسی کی جیت ہوئی۔ ایسی جیت جو شرمندگی میں لپٹی ہو۔
ان دنوں کی روداد بیان کرتے ہیں، مگر ان شااللہ اگلی نشست میں۔ (جاری ہے)