کچھ ذکر لیڈروں کی کتب بینی کا
جمعہ کے دن فیس بک کھولی تو ہر جگہ مریم نواز شریف کے ایک انٹرویو کا تذکرہ چل رہا تھا، اس میں مریم نواز صاحبہ نے اپنے پسندیدہ ادیبوں اور کتب کا تذکرہ کیا۔ یہ انٹرویو بلاگر، انٹرویور اور ایک نئی ویب سائٹ کے مدیر عمار مسعود نے کیا ہے۔ انہوں نے اپنی وال پر ڈیڈھ دو منٹ کا کلپ لگایا جس نے دن بھر سوشل میڈیا پر ارتعاش مچائے رکھا۔ دراصل مریم نواز صاحبہ نے بعض دلچسپ غلطیاں کیں، ایک آدھ نام غلط لیا اور اس انداز میں گفتگو کی جس سے تاثر ملا کہ انہوں نے محض امپریشن ڈالنے کے لئے نام لے لئے۔ اس ویڈیو کلپ پر آگے جا کر بات کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاسی لیڈروں سے کتابیں پڑھنے کی توقع نہیں کی جاتی اور نہ ہی کبھی کسی انٹرویو میں ان کے مطالعے یا کتابوں سے متعلق کچھ پوچھا جاتا ہے۔ شائد یہ سوچ کر کہ کہیں لیڈر برہم ہی نہ ہوجائے۔ ویسے یہ زوال ہماری جدیدسیاست کا ہے، ورنہ تین چار عشرے پہلے تک ہمارے بیشتر سیاستدان نہ صرف کتابیں پڑھنے کے شائق تھے بلکہ ان کی خاصی بڑی اور وسیع لائبریری بھی ہوا کرتی تھی۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکا مطالعہ مشہور تھا، ان کے پاس ایک بڑی لائبریری تھی جس میں مختلف موضوعات پر شاندار کتب موجود ہوتی تھیں۔ ان کی یاداشت غضب کی تھی۔ انہیں کتابیں اور حوالے بھی اسی طرح یاد رہتے تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کا مطالعہ شائد بھٹو صاحب جیسا نہ ہو، مگر وہ کتابیں پڑھا کرتی تھیں، اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود وہ کچھ نہ کچھ وقت مطالعہ کے لئے نکال لیتی تھیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے زمانے کی ان کی دوست اور برطانوی صحافی وکٹوریہ سکوفیلڈ نے بھٹو صاحب کے مقدمہ پر کتاب لکھی تھی، وہ ان دنوں پاکستان آکر رہی تھی۔ بی بی کے قتل کے کئی برس بعد وکٹوریہ نے ان کے حوالے سے اپنی یادوں پر مبنی کتاب لکھی تو اس میں کئی ایسے واقعات لکھے جب بے نظیر بھٹو نے ان سے پاکستان آتے ہوئے کوئی خاص کتاب خرید کر لانے کا کہا۔
دو تین سال قبل برطانیہ میں سابق پاکستانی سفیر اور معروف صحافی واجد شمس الحسن کی کتاب شائع ہوئی، جس میں بھٹو خاندان کے حوالے سے بہت سے واقعات شامل تھے۔ صحافی، اینکر مجاہد بریلوی راوی ہیں کہ کتاب چھپنے سے پہلے وہ اس کا مسودہ لے کر لندن سے دبئی آئے، بی بی کو پڑھنے کے لئے دیا اور پھر اپنی رہائش گاہ سونے چلے گئے۔ اگلی صبح انہیں بی بی کی جانب سے فون آیا اور ناشتے کے لئے بلایا گیا۔ مجاہد بریلوی پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بے نظیر بھٹو نے رات بھر میں نجانے کس طرح وقت نکال کر دو ڈھائی سو صفحات کی کتاب کا مسودہ پڑھا تھا اور جا بجا سرخ قلم سے نشان اور لکیریں لگا رکھی تھیں۔
انہوں نے بعض واقعات پر اظہار ناپسندیدگی کیا اور انہیں کتاب سے نکالنے کی ہدایت کی، یوں وہ کتاب بی بی کی ذاتی ایڈیٹنگ کے بعد شائع ہوئی۔ اس واقعہ میں اہم بات بی بی کے مطالعہ کی عادت اور بیدار مغزی ہے۔ پاکستان کے سربراہان مملکت میں ایک ایسا نام بھی کتابیں پڑھنے کا شائق رہا ہے، جسے ہمارے ترقی پسند اور لبرل حلقے سننا پسند ہی نہیں کرتے۔ وہ سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق ہیں۔ جنرل ضیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں کتابیں پڑھنے سے بھی بہت دلچسپی تھی او روہ اپنے دوستوں سے کتابیں بھجوانے کا تقاضا کیا کرتے۔ دو سابق پاکستانی سفیروں جمشید مارکر اور کرامت علی غوری نے اپنی کتابوں میں تذکرہ کیا ہے کہ کس طرح صدرجنرل ضیا الحق سے ملاقات میں صدر نے انہیں کہا کہ انہیں کہیں کوئی اچھی کتاب نظر آئے تو ضرور بھجوائیں۔
ممتاز بھارتی صحافی، کالم نگار خوشونت سنگھ نے یہ واقعہ اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد وہ جنرل ضیا کا انٹرویو کرنے آئے تو دل میں سخت رنجیدہ اوربرہم تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ دوران گفتگو سخت چبھتے ہوئے سوال پوچھیں گے، مگر جیسے ہی جنرل ضیا ان کے سامنے آئے، ان کے ہاتھ میں خوشونت سنگھ کا مشہور ناول ٹرین ٹو پاکستان اور دیگر کتب تھیں۔ انہوں نے بڑی دلچسپی سے ان کتابوں پر خوشونت کے آٹوگراف لئے اور کئی منٹوں تک ان کتابوں پر گفتگو کرتے رہے۔
ویسے اس زمانے کے بیشتر اہم سیاستدان صاحب مطالعہ تھے، نوابزادہ نصراللہ خان کا ادبی ذوق کمال کا تھا، بے شمار اشعار یاد رہتے، برمحل شعر پڑھنا ان پر ختم تھا۔ وہ کتابیں بھی پڑھا کرتے اور نہایت باقاعدگی سے اپنا روزنامچہ لکھا کرتے، افسوس کہ ان کی ڈائریاں کبھی شائع نہیں ہوسکیں۔ خان عبدالولی خان بھی کتابیں پڑھنے والے آدمی تھے، ایک متنازع کتاب کے مصنف بھی رہے۔ سردار شیرباز مزاری، پروفیسر عبدالغفور، اصغر خان، پیر صاحب پگاڑا، نواب اکبر بگٹی، مخدوم حسن محمود وغیرہ کے پاس بڑی لائبریریاں تھیں۔ میاں ممتاز دولتانہ کی کتاب فہمی اور کتابوں کا ذخیرہ بھی مشہور رہا۔ اصغر خان اور پروفیسر غفور تو کئی کتابوں کے مصنف بھی رہے۔ پچاس کی دہائی کے کم از کم دو سابق وزراعظم چودھری محمد علی اور فیروز خان نون نے اپنی یاداشتیں تحریر کی تھیں۔
سیاست میں کتاب سے دوری بلکہ علم وادب سے لاتعلقی کا آغاز میاں نواز شریف نے کیا۔ ان کے بارے میں مشہور رہا کہ ان کے گھر میں ٹیلی فون ڈائریکٹری کے سوا کتابی شکل میں کچھ بھی موجود نہیں۔ میاں صاحب نے جس برے ٹرینڈ کا آغاز کیا، اسے ان کے بعد والے سیاستدانوں نے بڑے ذوق شوق سے جاری رکھا۔ اگرچہ چند ایک نے اپنی یاداشتوں پر مبنی کتابیں لکھیں، مخدوم جاوید ہاشمی، یوسف رضا گیلانی، منظور احمد وٹو کی کتابیں شائع ہوئیں، ہاشمی صاحب کے کریڈٹ پر تودو کتابیں ہیں۔
پچھلے پندرہ بیس برسوں میں البتہ سیاستدانوں نے کتاب سے بالکل دوری اختیار کر لی۔ سیاستدانوں کی نئی نسل تو بالکل ہی بے بہرہ ہے۔ بلاول بھٹو آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، مگر کبھی ان کے ہاتھ میں کتاب دیکھی گئی نہ انہوں نے کسی کتاب کا حوالہ دیا۔ انگریزی البتہ وہ عمدہ بولتے ہیں، مگر اپنے نانا اور والدہ کا مطالعہ یا کتب دوستی ان کے مقدر میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی امور پر گفتگو سطحی اور ہلکی ہوتی ہے۔ شہباز شریف کو کتابوں سے کچھ نہ کچھ شغف رہا، مگر ان کے صاحبزادگان بھی لگتا ہے ا س حوالے سے کورے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے اسعدکو زیادہ بولتے نہیں سنا۔ قوم پرست سیاستدانوں کی اگلی نسل ایمل ولی، شاہ زین بگٹی وغیرہ بھی علمی اعتبار سے کمزور لگے۔
عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں معمولی سا شائبہ بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ دو تین کتابوں کے مصنف ہیں۔ کبھی کسی کتاب میلہ میں گئے نہ ملک میں ہونے والی علمی ادبی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کے دور میں اہم علمی اداروں میں خاصی کمزور تقرریاں ہوئیں۔ قومی سطح پر دئیے گئے ایوارڈز میں بھی قلم کاروں کی حوصلہ شکنی ہی ہوئی، فلمی اداکارائیں البتہ چھائی رہیں۔ ایک بار ہوائی سفر میں ان کے ساتھ مشہور مغربی ادیب ولیم ڈیلرمپل کی کتاب" انارکی" رکھی ہوئی تھی، ڈیلرمپل ہی نے ٹوئٹ کر کے اس جانب توجہ دلائی۔ بعد میں عمران خان نے یہ سلسلہ شروع کیا کہ کسی اہم کتاب کو ریکمنڈ کیا جائے، تاریخ اسلام پر ایک آدھ کتاب کے علاوہ غالباً ایلف شفق کی فورٹی رولز آف لو کا تذکرہ بھی کیا۔ ابھی پچھلے دنوں البتہ صحافیوں کے ایک وفد کو عمران خان نے بتایا کہ ان کے پاس اب وقت موجود نہیں تو بہت سی کتابیں پڑھنے والی ہیں، مخالفین مجھے جیل بھیجنے کے درپے ہیں، جیل گیا تو کتابیں پڑھنے کے لئے ساتھ لے جائوں گا۔
مریم نواز شریف کے کلپ سے بات شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے انٹرویو میں بتایا کہ مجھے ہسٹری پسند ہے، ساتھ ہی کہا کہ فکشن بھی، پھر وضاحت کی کہ ایسے ناول جن کے پس منظر میں تاریخ چل رہی ہو، وہ اچھے لگتے ہیں۔ مریم نوازنے مشہور ہسپانوی ادیب پائولو کوئیلو (Paulo Coelho) کا نام لیا اور ان کے مشہور ناول الکیمسٹ کا ذکر کیا، البتہ وہ کوئیلو کو "کوہیڈو" کہتی رہیں۔ ایلف شفق کے ناول فورٹی رولز آف لو کا بھی تذکرہ کیا، یہ ناول مولانا رومی اور ان کے مرشد شمس تبریز کے پس منظر میں ہے۔
مریم نواز نے احمد علی صاحب کے پرانے ناول ٹوائی لائٹ ان دلی (Twilight in Delhi)کا ذکر کر کے ہمیں چونکایا۔ قیام پاکستان سے پہلے شائع ہونے والا خاص ذائقے کا حامل یہ ناول اگر واقعی مریم نواز شریف نے پڑھا توبہت سوں کو حیرت ہوگی۔ مریم نواز نے ایک اور کتاب سیٹ آف سول کا ذکر بھی کیا، میں نے نہیں پڑھی ہوئی، مگر یہ غالباً ناول نہیں، موٹیویشنل کتاب ہے۔ عمار مسعود نے اردو مصنفین کا پوچھا تو مریم کا کہنا تھا کہ جب وہ جیل میں تھیں، تب انہوں نے وہاں موجود لائبریری کے تمام ناول اور شاعری کی کتب پڑھ ڈالیں۔ احمد فراز، ساحر لدھیانوی، پروین شاکر وغیرہ۔ مریم نے بیکن اور نطشے کا نام بھی لے ڈالا(جو شائد تھوڑا زیادہ ہوگیا۔)
نطشے کی مشہور کتاب" اور زرتشت نے کہا"ہمارے محترم احمد جاوید صاحب کی فیورٹ ہے۔ نطشے اتنا آسان رائٹر ہے نہیں۔ بعض ناقدین یہ کہہ رہے کہ اس مختصر کلپ میں کئی کٹ ہیں، واللہ اعلم۔ خیر ہم بدگمانی سے کام نہیں لیں گے۔ ہمیں تو یہ خوشی ہے کہ کسی انٹرویور نے لیڈر سے اس کی پسندیدہ کتابیں اور مصنفین کے نام تو پوچھے۔ آج جواب میں نام لئے گئے تو کل کو کوئی پڑھ بھی لے گا۔