جنوبی پنجاب صوبہ، ابتدائی خدوخال
جنوبی پنجاب صوبہ ابھی بن پائے یا نہیں، اس سے قطع نظر بہرحال یہ تو ہے کہ اس حوالے سے کچھ سنجیدہ پیش رفت ہوئی ہے۔ تحریک انصاف نے اسمبلی میں اس پر قرارداد منظورکرائی ہے جبکہ ن لیگ نے پنجاب اسمبلی میں بہاولپور صوبے کے حوالے سے ایک قرارداد جمع کرائی ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کے مرکزی لیڈر مخدوم شاہ محمود قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ جنوبی پنجاب صوبہ میں ملتان، بہاولپور اور ڈی جی خان ڈویژن شامل ہوں گے۔ اس سے تصویر کسی حد تک واضح ہوئی ہے اور یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ حکمران جماعت کے ذہن میں جنوبی پنجاب سے کیا تصور ہے اور وہ کن علاقوں کو اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ بعض حلقے ملتان، بہاولپور اور ڈی جی خان ڈویژنز کے ساتھ سرگودھا ڈویژنز کے دو اضلاع بھکر، میانوالی کو بھی جنوبی پنجاب صوبہ میں شامل کرنے کی تجویز دے رہے ہیں، اسی طرح فیصل آباد ڈویژن کے ضلع جھنگ کو الگ کر مجوزہ نئے صوبے میں شامل کرنے سے متعلق بھی رائے موجود ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ان ڈویژنز اور ان کے اضلاع پر ایک نظر ڈال دیتے ہیں تاکہ جنہیں اس علاقے کا علم نہیں، ان کا ذہن بھی صاف ہوجائے۔ پنجاب اس وقت نو ڈویژنز (پنڈی، لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا، ساہی وال، ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان)پر مشتمل ہے، جن کے کل چھتیس اضلاع بنتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے مجوزہ صوبہ کے تینوں ڈویژنز کے اضلاع گیارہ بنتے ہیں، یعنی یہ ایک لحاظ سے پنجاب کے ایک تہائی سے تھوڑا کم (تیس فیصد کے لگ بھگ)بنے گا۔ ملتان کے چار اضلاع(ملتان، خانیوال، لودھراں، وہاڑی)، بہاولپور کے تین اضلاع(بہاولپور، بہاول نگر، رحیم یارخان)جبکہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے چار اضلاع(ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، لیہ)ہیں۔ ان تینوں ڈویژنز کو 2018ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی چھیالیس نشستیں ملی تھیں۔ ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ ملتان ڈویژن کی سولہ نشستیں (ملتان6، خانیوال4، وہاڑی4، لودھرا ں2)بنتی ہیں۔ بہاولپور ڈویژن کے حصے میں قومی اسمبلی کی پندرہ نشستیں (بہاولپور 5، بہاول نگر 4، رحیم یار خان (6آئی تھیں۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں بھی قومی اسمبلی کی پندرہ نشستیں (ڈیرہ غازی خان 4، راجن پور3، مظفر گڑھ 6، لیہ2)ہیں۔ این اے 150 خانیوال ا یک سے این اے 195 راجن پور تین تک یہ نشستیں چلتی ہیں۔ اس وقت پنجاب کے پاس قومی اسمبلی کی کل272 نشستوں میں سے 141 نشستیں (51.88%) ہیں، جنوبی پنجاب اگر الگ ہوگیا تو پھر پنجاب کے پاس پچانوے نشستیں (34.95) بچیں گی۔ اس طرح سے چھوٹے صوبوں کا یہ احساس محرومی تو بہرحال دور ہوجائے گاکہ صرف پنجاب سے سوئپ کر کے مرکز میں حکومت بنائی جا سکتی ہے، کیونکہ پنجاب میں شمالی پنجاب (پنڈی ڈویژن 13نشستیں )کی سیاسی تقسیم بھی موجود ہے، جس کی سیاست ضروری نہیں کہ سنٹرل پنجاب یعنی لاہور، گوجرانوالہ وغیرہ کی طرح چلے۔ جنوبی پنجاب صوبہ بننے کی صورت میں سیاسی طور پر یہ ملک کا چوتھا بڑا صوبہ ہوگا۔ پنجاب کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے اور پھر خیبر پختون خوا جس کی 2018ء کے الیکشن میں 39 نشستیں تھیں، مگر فاٹا کے انضمام کے بعد، نئی آئینی ترمیم کی روسے بارہ نشستیں بڑھ جائیں گی۔ یوں کے پی کے اکاون نشستوں کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر آجائے گا، آخری نمبر بہرحال بلوچستان کا ہے، کم آبادی کے باعث اس کے پاس صرف سولہ نشستیں ہیں۔ ویسے اصول تو یہ کہتا ہے کہ جس طرح آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا کی نشستیں بڑھائی گئیں، اسی طرح بلوچستان کی نشستوں میں بھی آٹھ دس کا اضافہ کرنا چاہیے کہ ان کے حلقے رقبے کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں اور امیدواروں کے لئے انتخابی مہم چلانا مشکل ہے، دوسرا احساس محرومی انہیں زیادہ نمائندگی کا حقدار بناتا ہے، جبکہ کم نشستیں بڑی سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کا باعث بھی ہیں۔ اگر بلوچستان کی نشستیں سولہ کے بجائے تیس ہوجائیں تو پھر قومی جماعتوں کو وہاں زیادہ فوکس کرنا پڑے گا۔ خیر یہ تو ایک الگ موضوع ہے، اس پر تفصیل سے بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اوپر جنرل نشستوں کی تفصیل دی گئی ہے یعنی وہ نشستیں جن پر انتخابات کے ذریعے منتخب ہوا جاتا ہے جبکہ خواتین اور اقلیتوں کے لئے سترمخصوص نشستیں (ساٹھ جمع دس)ان کے علاوہ ہے۔ قومی اسمبلی کی جنرل نشستیں 272 ہیں، تاہم مخصوص نشستوں کے اضافے کے بعد ایوان کی کل نشستیں 342 ہوجائیں گی۔ اسی وجہ سے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے جو بل پیش کیا، اس میں جنوبی پنجاب کے لئے کل( جنرل جمع مخصوص نشستیں )56نشستوں کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ مجوزہ صوبائی اسمبلی کے لئے 120 نشستیں ہوں گی، ان میں سے پچانوے جنرل، بائیس خواتین جبکہ تین اقلیتی نشستیں شامل ہیں۔ اب اس میں دو سوالات ہیں۔ ایک یہ کہ سرگودھا ڈویژن سے بھکر، میانوالی کے اضلاع یا فیصل آباد کا جھنگ ضلع یا اس کا کچھ حصہ اس مجوزہ جنوبی پنجاب صوبہ میں شامل کیا جائے گایا اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ چونکہ جنوبی پنجاب صوبہ کا خاکہ سرائیکی قوم یا زبان کی بنیاد پر نہیں ہے، اس لئے پنجاب کے تمام سرائیکی علاقوں کو اس میں شامل کرنے کی کوئی تجویز زیرغور نہیں، جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان تو ویسے بھی خیبر پختون خوا کا ایک ضلع ہے، اسے شامل کرنے کے لئے اس صوبائی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت سے بل منظور کرانا پڑے گا، جو فی الوقت ناممکن لگ رہا ہے۔ اس لئے تمام تربحث پنجاب کے حوالے سے ہے۔ میانوالی اور بھکر سرائیکی اضلاع ہیں، جبکہ خوشاب کی نور پور تھل بھی سرائیکی تحصیل ہے، مگر ان علاقوں کو جنوبی پنجاب صوبہ میں شامل کرنے کی بات صرف سرائیکی بنیاد پر نہیں کی جا رہی۔ جو حلقے اس کے حق میں دلائل دے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ تھل کے علاقوں کے مسائل اور بہت کچھ مشترک ہے۔ اگر وہ اکٹھے ہوں تو ان علاقوں کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ لیہ چونکہ ڈی جی خان ڈویژن میں شامل ہے، اس نے تو لازمی طور پر جنوبی پنجاب صوبہ میں شامل ہونا ہے، اس کے ساتھ موجود بھکر، میانوالی، نور پورتھل، جھنگ موڑ اور قریبی علاقے اگر شامل ہوسکیں تو ان کا فائدہ ان علاقوں کو پہنچے گا۔ اس کا فیصلہ مگر ظاہر ہے مقامی آبادی کی خواہش کو مدنظر رکھ کر کرنا چاہیے۔ میانوالی والے عام طور سے جنوبی پنجاب کے بجائے لاہور کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ اگربھکر، میانوالی کے لوگ جنوبی پنجاب صوبہ میں آنا چاہیں تو بہت خوب، لیکن اگر وہ پنجاب کے ساتھ رہنا چاہیں تو ان کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔ یہی بات جھنگ کے حوالے سے ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے، ظاہر ہے سرائیکی قوم پرست حلقے ا س سے اتفاق نہیں کریں گے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہاڑی کے بالکل ہی قریب پاکپتن کا ضلع ہے، جو ا سوقت ساہی وال کا حصہ ہے۔ جغرافیائی طور پر یہ بھی جنوبی پنجاب صوبہ کا حصہ بن سکتا ہے، مگر یہاں بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ ساہی وال اور چیچاوطنی وغیرہ کے علاقے روایتی طور پر لاہور سے زیادہ قریب رہے ہیں۔ وہاں تو یہ خواہش بھی موجود ہے کہ وہاڑی کو جنوبی پنجاب کا حصہ نہ بننے دیا جائے کیونکہ وہاڑی کی بوریوالہ تحصیل کا ساہی وال اور لاہور سے خاصا قریبی تعلق ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ کے بل پر غور کرنے والوں کو ان تمام چیزوں پر غور کرنا ہوگا۔ ن لیگ کو چاہیے کہ وہ بہاولپور صوبہ کے لاحاصل منصوبہ پر زور دینے کے بجائے جنوبی پنجاب صوبہ کی تجویز پر توجہ دے۔ اس پر بحث کر کے، غور وفکر کے بعدابتدائی خاکہ کو مزید بہتر اور بھرپور بنانا چاہیے۔ یہی وقت کی ضرورت ہے۔