جنوبی پنجاب صوبہ۔ چند اہم سوالات
سب سے پہلے تو یہ وضاحت کہ اس موضوع پر سردست یہ آخری کالم ہوگا، کہ اور بھی غم ہیں زمانے میں نئے صوبے کی بحث کے سوا۔ جنوبی پنجاب صوبہ کی جب بھی بات چھیڑی جاتی ہے، ہر بار دو تین سوالات لازمی پوچھے جاتے ہیں۔ اس بار ایک دو کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ان سوالات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں، نیوز ٹاک شوز کی زبان میں کوئیک ریویو کہہ لیں۔ جنوبی پنجاب بنانا ہے تو پھر سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خوا کو بھی تقسیم کیا جائے۔ یہ عجیب وغریب اعتراض ہے۔ ایسے ہی کہ اگر کسی گھر میں ایک بیٹا چھت پر اپنے اہل خانہ کے لئے کمرہ بنانا چاہتا ہے تو اسے دوسری گلی والا ہمسایہ روکے اور مشورہ دے کہ تمہیں اس کی ضرورت نہیں، ایسے خواہ مخواہ ضد کر رہے ہو۔ اگر تم نے اپنے لئے الگ کمرہ بنایاتو تمہارے فلاں چچا، فلاں ماموں اور فلاں خالو کے بچے بھی کہیں گے کہ ہمیں بھی چھت پر کمرہ بنوا دو، یہ تو نیا فتنہ کھڑا ہوجائے گا، اس لئے چپ کر کے بیٹھے رہویا اگر تمہارا بنے تو پھر سب کے گھروں میں ایسے کمرے بنیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس زریں مشورے پر کیا ردعمل ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بندہ اس سے کہے گا، میاں تمہیں اس سے کیا سروکار ہے، تمہاری چھت پر کمرہ تو نہیں بن رہا، پھر ہر گھر کی اپنی ضروریات، مسائل اور مجبوریاں ہیں، جب وہ مناسب سمجھیں گے، ایسا کر لیں گے اور ویسے کسی وجہ سے ان کے گھر میں ایسا نہیں ہوسکے تو اس کی سزا مجھے کیوں ملے اور کب تک ملے، وغیرہ وغیرہ۔ پنجاب کیوں تقسیم ہو؟ پنجاب کو تقسیم ہونا چاہیے۔ تین وجوہات کی بنا پر۔ ایک تو یہ کہ اتنے بڑے صوبے کی گورننس چلانا ممکن نہیں، دوسرا پنجاب کے ایکسٹرالارج سائز کے باعث فیڈریشن کے باقی تینوں یونٹس کو مسائل اور تحفظات درپیش رہتے ہیں، جن میں اضافہ ہی ہوا ہے، کمی نہیں آئی۔ تیسرا اس لئے کہ جنوبی پنجاب کے عوام اپنے لئے الگ صوبہ چاہتے ہیں اور وہ اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ نیا صوبہ بنانے کے لئے وہ کچھ لے نہیں رہے، بلکہ بہت کچھ چھوڑ رہے ہیں۔ وہ لاہور جیسے بڑے، ترقی یافتہ شہر سے محروم ہو رہے ہیں، اپنے حقوق سے دستبردار ہو رہے ہیں، جہاں صوبے کے بہترین میڈیکل کالج، واحد انجینئرنگ یونیورسٹی، آرٹ کے ادارے اور بے شمار ملازمتوں کے مواقع موجود ہیں۔ نیا صوبہ بنانے کی صورت میں جنوبی پنجاب کے طلبہ لاہور کے تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں لے پائیں گے، سرکاری ملازمتوں کے لئے اپلائی نہیں کر سکیں گے اور بھی بہت سے نقصانات انہیں اٹھانے پڑیں گے۔ وہ لاہور، پنڈی، فیصل آباد جیسے شہروں کو چھوڑ کر اپنے ٹوٹے پھوٹے شہروں، قصبات کے ساتھ ہی اپنی نئی دنیا بسانا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں کچھ اضافی درکار نہیں، صرف اتنا کہ این ایف سی سے پنجاب کو ملنے والے حصے میں جنوبی پنجاب کے حصے کے پیسے انہیں دئیے جائیں، اسی میں وہ جو کر پائیں، کریں گے۔ پنجاب کی تقسیم کا سوال کوئی انہونا یا گستاخانہ سوال نہیں۔ پاکستانی پنجاب سے زیادہ بھارتی پنجاب میں پنجابی زبان، ادب، کلچر سے جڑت اور پیوستگی ہے، انہوں نے گورمکھی پنجابی کو ایک باقاعدہ، زندہ لکھنے پڑھنے والی زبان بنا رکھا ہے۔ اس کے باوجود وہاں بھارتی پنجاب تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ پہلے ہریانہ کو الگ صوبہ بنایا گیا، پھر ہماچل پردیش کو بھی الگ کر دیا گیا۔ نئے صوبے بننا وقت کی ضرورت بن جاتی ہے۔ بھارتی سکھوں کا پنجابی شاونزم بھارتی پنجاب تین حصوں میں تقسیم کرنے سے نہیں روک سکا۔ سلیقے کے ساتھ بروقت نیا صوبہ بنانے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں پنجابی بولنے والے مناسب تعداد میں مقیم ہیں۔ یقین کرنا چاہیے کہ وہاں سرائیکی زبان اور کلچر کے ساتھ پنجابی زبان، کلچر کی بھی اہمیت اور توقیر ہوگی۔ سندھ، بلوچستان، خیبرپختون خوا تقسیم کیوں نہ ہوں؟ جنوبی پنجاب صوبہ کا مطالبہ کرنے والوں کا یہ ایشو ہے ہی نہیں۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ ان کا صوبہ بنے، اگر دوسروں صوبوں میں تقسیم کے بعد نئے صوبے بن سکتے ہیں تو ضرور بنیں۔ کسی کو کیا مسئلہ ہوسکتا ہے؟ صرف جنوبی پنجاب صوبہ کو دوسرے صوبوں کی تقسیم کے ساتھ منسلک نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے والے دانستہ طور اتنا گرد وغبار اڑانا چاہتے ہیں کہ اس میں جنوبی پنجاب کی تقسیم کا معاملہ بھی دب جائے۔ بھائی لوگو تین باتیں سمجھ لی جائیں۔ پہلی یہ کہ ایک ساتھ اتنے صوبے تو ویسے بھی نہیں بن سکتے، یہ کام بتدریج ہی ہوسکتا ہے۔ دوسرا صوبہ صرف وہاں ہی بن سکتا ہے جہاں نئے صوبہ بنانے کا مطالبہ ہو۔ جیسے بلوچستان رقبے کے اعتبار سے بہت بڑا صوبہ ہے، کوئٹہ سے طویل مسافت پر واقع اس کے علاقے مکران ڈویژن وغیرہ یا دیگر علاقوں کی جانب سے نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے اور اس میں وزن بھی محسوس ہوگا۔ وہاں کے لوگ لیکن بلوچستان کی تقسیم نہیں چاہتے اور اسے سازش تصور کریں تو پھر کون عقلمند ان پر یہ حل مسلط کرے گا؟ مزے کی بات ہے کہ ایسا مشورہ دینے والے زیادہ تر لوگ پنجاب کے ہی ہیں اور ان کا اصل مقصد افراتفری اور کنفیوژن پھیلانا ہے تاکہ کسی طرح جنوبی پنجاب صوبہ کی راہ روکی جا سکے۔ انہیں یہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ اپنا گھر سنبھالیں، محلے کے مامے بن کر پڑوسی صوبوں والوں کو مشورے نہ دیں۔ تیسری بات یہ کہ صوبہ بنانے کے لئے کوئی نہ کوئی اصول بھی ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ لسانی یا نسلی، قومیتی بنیاد پر تقسیم کی آپشن پہلے ہی خارج ازامکان کر چکے ہیں۔ دو تین اصول اس حوالے سے سامنے آتے ہیں۔ احساس محرومی، پسماندگی، صوبائی دارالحکومت سے دوری یعنی گورننس ایشوز آتے ہیں، ضمنی نکتہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نیا صوبہ بنانے والے اپنے پرانے صوبہ سے کچھ لے رہے ہیں یا چھوڑ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی بھی صوبے کا سب سے ترقی یافتہ اور بڑا شہر اچانک دعویٰ کرے کہ اسے صوبہ بنایا جائے تو یہ بات کیسے مانی جا سکتی ہے؟ صوبے بھر کے فنڈز خرچ کر کے اس شہر کو ترقی یافتہ، ماڈرن اور انڈسٹریل ہب بنایا گیا، کیا اس لئے کہ وہ الگ ہو کر خود مزے کرے اور صوبے کے باقی علاقے، آبادی کا بیڑا غرق کر دے؟ ظاہر ہے یہ انصاف نہیں۔ بات کو سمجھانے کے لئے مثال دیتا ہوں۔ لاہور صدیوں سے ایک اہم، بڑا اور کلچرل شہر رہا ہے۔ اس شہر کو مگر جدید، ترقی یافتہ بنانے کے لئے پنجاب بھر کے فنڈز استعمال ہوئے۔ جیسے لیہ کے بلدیاتی فنڈز سے نہر کی سڑک کی توسیع ہوئی، بعض دورافتادہ شہروں کے فنڈز سے جیل روڈ کو سگنل فری بنایا گیا۔ سی پیک کے قرضوں میں اورنج ٹرین کا پراجیکٹ ڈالا گیا۔ جنوبی پنجاب میں کل تین میڈیکل کالج ہیں جبکہ اکیلے لاہور میں پانچ میڈیکل کالج موجود ہیں۔ اب اگر لاہور کو الگ صوبہ بنا دیں تو لاہور میں رہنے والوں، یعنی میرے جیسے لوگوں کے مزے ہوجائیں گے، پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ آس پاس کے شہروں فیصل آباد، ٹوبہ، چنیوٹ ساہی وال، اوکاڑہ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، جہلم وغیرہ کا کیا بنے گا۔ وہ تو یکایک لاہور کے تمام سرکاری وسائل، ملازمتوں، سرکاری تعلیمی اداروں وغیرہ سے محروم ہوگئے۔ اس لئے یہ نکتہ کم اہم نہیں، اسے ذہن میں رکھنا ہوگا۔ آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ سندھی کیوں سندھ کی تقسیم اور کراچی صوبہ بننے کی بات پر مرنے مارنے پر کیوں اتر آتے ہیں؟ سندھیوں کا موقف مضبوط ہے۔ البتہ کراچی کو سپیشل پیکج ملنے چاہئیں، صوبے کی جانب سے اور مرکز بھی انہیں دل کھول کر دے۔ ملک کے سب سے بڑے، ترقی یافتہ شہر کے مسائل لازمی حل ہوں، وہاں کے مکینوں میں احساس محرومی پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ان کا ریاست پر حق ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ کی مخالفت اس لئے کہ وہاں لوگ جاگیرداروں کے پنجے میں پھنس جائیں گے اس کا جواب میں اردو کا ایک پرانا محاورہ سنایا جا سکتا ہے کہ ماں سے زیادہ چاہے، پھاپھا کٹنی کہلائے۔ بھائی لوگو جنوبی پنجاب والے اگر نیا صوبہ بنا کر جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں کے چنگل میں پھنسے جا رہے ہیں تو انہیں ایسا کر لینے دو۔ اپنا اچھا برا وہ بخوبی جانتے، سمجھتے ہیں۔ ان کی عقل وشعور پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اپنی راہ پر جانے دینا چاہیے۔ ایسے خواہ مخواہ دوسروں کے مفاد اور ان کی بہتری چاہنے کا بوجھ اپنے نازک کندھو ں پر کیوں اٹھایا جائے؟ ویسے آج کل وہاں کون رکن اسمبلی بنتا ہے؟ وہی جاگیردار، وڈیرے، سردار، مخدوم، نواب وغیرہ۔ ایسا تو نہیں کہ اس وقت قومی سیاسی جماعتیں وہاں سے مزدوروں، کسانوں، لوئر کلاس کارکنوں کو ٹکٹ دے کر جتوا رہی ہیں اور خدشہ ہے کہ نیا صوبہ بننے پر یہ غریب، عام آدمی اسمبلی میں نہیں پہنچ پائیں گے۔ پھر یہ اعتراض کیسا؟ یا تو کوئی انقلابی جماعت یہ دعویٰ کرے کہ ہم جنوبی پنجاب میں زرعی اصلاحات نافذ کر کے جاگیرداروں، وڈیروں کا خاتمہ کر دیں گے، مخدوم آئندہ الیکشن نہیں لڑ پائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ اصلاحات کسی نے کرنی ہیں اور ان کا کوئی ٹائم فریم ہے تو جنوبی پنجاب والے خوشی سے جتنے برس کہیں گے، انتظار کر لیں گے۔ کیا ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے؟ نہیں تو پھر یہ اعتراض بے معنی ہے۔ جنوبی پنجاب کے (سرائیکی، پنجابی، اردو بولنے والے)عوام کو اپنے مسائل سے خود نبردآزما ہونے دیں۔