جنوبی پنجاب صوبہ بمقابلہ بہاولپور صوبہ
حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے معاملے پر بیشتر جماعتیں سیاست کر رہی ہیں۔ ہر ایک کو علم ہے کہ نیا صوبہ بنانے کا عملی طریقہ کار کیا ہے اور کس طرح اس پر عمل کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف نے اگلے روز قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبہ کی قرارداد پیش کی، پیپلز پارٹی نے اس کی حمایت کی جبکہ ن لیگ نے اس کی مخالفت کی۔ ن لیگ نے بعد میں وضاحت کی کہ ہم نے تکنیکی بنیاد پر وضاحت کی کہ جنوبی پنجاب صوبہ اور بہاولپورصوبہ بنانے کی قرارداد پہلے ہی قائمہ کمیٹی کے پاس ہے، اس لئے نئی قرارداد کی ضرورت نہیں۔ تحریک انصاف نے وقتی طور پر تو ن لیگ کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا، مگر انہیں بھی اس کا علم ہے کہ اصل اہمیت پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کرنا اور منظورکرانا ہے۔ آئین کے تحت نئے صوبے بنانے کے لئے اسی صوبے کی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر قرارداد منظور ہونا لازم ہے۔ تحریک انصاف اگر نئے صوبے کے بل کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے تو انہیں پنجاب اسمبلی میں قرارداد لانا پڑے گی۔ وہاں ان کے پاس بمشکل سادہ اکثریت ہے، اس لئے جنوبی پنجاب صوبہ پر قرارداد ن لیگ کی حمایت کے بغیر وہ دو تہائی اکثریت سے منظور نہیں کر اسکتے۔ یہ ہے زمینی حقیقت، اگر کچھ کرنا ہے تو وہ پنجاب اسمبلی میں کرنا پڑے گا۔ اس معاملے پر ماضی میں بھی سیاست ہوتی رہی۔ پیپلزپارٹی کا جب دور مکمل ہونے والا تھا تو آخری دنوں میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا شوشا چھوڑا۔ ن لیگ نے تیزی سے اس کا رد کرنے کی حکمت عملی بنائی اور کہا کہ نہیں ایک کے بجائے دو نئے صوبے بنائے جائیں، بہاولپور صوبہ اور جنوبی پنجاب صوبہ۔ انہیں معلوم تھا کہ دو نئے صوبے بنانے ممکن نہیں۔ خیر یہ تمام بحثیں اپنی جگہ چلتی رہیں، اسمبلیوں کی مدت ختم ہوگئی۔ 2013ء کے انتخابات میں ن لیگ نے بہاولپور صوبہ اور جنوبی پنجاب صوبہ بیک وقت بنانے کا نعرہ اپنے انتخابی منشور میں شامل رکھا، مگر الیکشن جیتنے کے بعد اس جانب مڑ کر نہ دیکھا۔ 2018ء آ گیا اورجنوبی پنجاب کے کچھ ارکان اسمبلی نے ن لیگ چھوڑ کر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ قائم کر لیا، ان کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن اسی بنیاد پر لڑیں گے اور صرف اس جماعت کا حصہ بنیں گے جو جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائے۔ تحریک انصاف کے ساتھ ان کے معاملات طے ہوگئے اور یہ محاذ اس جماعت کا حصہ بن گیا۔ الیکشن میں اس کے کئی لوگ ارکان پارلیمنٹ بن گئے، ان میں سے خسرو بختیار وغیرہ وزیر بھی بنے۔ تحریک انصاف نے بے شمار وعدے اور نعرے لگائے تھے، ان سب کا بوجھ ان کے کاندھوں پر ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ بنانا بھی ان میں سے ایک ہے۔ ایک دلچسپ پیش رفت البتہ پچھلے چند ماہ میں ہوئی، جب بہاولپور کی تحصیل منڈی یزمان سے رکن اسمبلی طارق بشیر چیمہ نے کھل کر بہاولپور صوبہ کی بات کرنا شروع کی، وہ زور شور سے جنوبی پنجاب صوبہ کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ طارق بشیرچیمہ ق لیگ کے ٹکٹ پر لڑے، مگر تحریک انصاف نے ان کے مقابلے میں کسی امیدوار کو کھڑا نہیں کیا اور ان کی جیت میں تحریک انصاف کے ووٹ کا بھی حصہ ہے۔ ان کے بھائی طاہر بشیر چیمہ بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں کے ناظم رہ چکے ہیں، وہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا حصہ تھے اور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ان کی صاحبزادی نے الیکشن لڑا، تاہم کامیاب نہ ہوپائیں۔ چیمہ برادران کا یہ متضاد موقف اپنی جگہ دلچسپ ہے۔ ایک بھائی جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا حامی جبکہ دوسرا بہاولپور صوبہ محاز کا سرگرم رکن ہے۔ میرا تعلق بہاولپور کی تحصیل احمد پورشرقیہ سے ہے، میرا پورا خاندان، بزرگ سب ہی بہاولپور کا حصہ ہے۔ اس لحاظ سے مجھے بہاولپور صوبہ کی حمایت کرنی چاہیے، مگر میرے نزدیک سب سے بہتر یہ ہے کہ صوبوں کی تقسیم کے لئے کوئی اصول طے کرلینا چاہیے، یہ ذاتی خواہش، پسند نا پسند کا معاملہ نہیں۔ کروڑوں لوگوں کی زندگیاں اس سے وابستہ ہیں۔ صوبے کی تقسیم کے لئے دو تین بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ پسماندگی اور موجودہ صوبائی دارالحکومت سے دوری یعنی گورننس کا ایشو۔ جو علاقے دوسروں سے پسماندہ اور محروم ہوتے ہیں، وہاں ہمیشہ اپنی محرومی دور کرنے اور اپنے وسائل خود اپنے اوپر خرچ کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ خاص طور پر جہاں شہباز شریف جیسے وزیراعلیٰ رہے ہوں جو لیہ کے فنڈز اٹھا کر لاہور کی نہر والی سٹرک بنا ڈالیں یا کسی دوسرے ضلع کے فنڈز سے لاہور کے کسی بلدیاتی منصوبے کو مکمل کر لیں۔ تب یہ خواہش کس قدر شدید ہوجائے گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں؟ صوبائی دارالحکومت یعنی لاہور سے کئی گھنٹوں کی مسافت پر ہونا بھی ایک ایشو رہا ہے۔ ویسے تو ان دونوں سے بھی زیادہ بڑا اور اہم اصول زبان، قومیت اور ثقافتی شناخت ہے۔ ہمارے پڑوس میں پچھلے چالیس برسوں میں بننے والے تمام نئے صوبے اسی بنیاد پر بنے۔ بھارتی پنجاب کو تقسیم کر کے ہریانہ اور ہماچل پردیش کے الگ صوبے بنانے ہوں یا جھاڑکنڈ کی علیحدگی اور ابھی چند سال پہلے تلنگانہ صوبے کا قیام۔ یہ سب مختلف قومیتوں کے مطالبہ پر بنے اور بھارت میں اس سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔ اس اعتبار سے تو سرائیکی صوبہ بنانا زیادہ منطقی اور قابل عمل تجویز ہے۔ سرائیکی پاکستان کی ایک بڑی زبان اور قومیت ہے۔ کسی قوم یا قومیت کے لئے جو عناصر گنوائے جاتے ہیں، وہ سب یہاں موجود ہیں یعنی ایک قوم، کلچر، زبان اور قدیم وطن۔ سرائیکی صوبہ کے قیام کا مطالبہ ہر لحاظ سے جائز اور درست ہے۔ میرے جیسے سرائیکی اخبارنویس اور لکھاری صرف اس بنیاد پر جنوبی پنجاب صوبہ کی حمایت کرتے ہیں کہ کہیں لسانی، ثقافتی بنیاد پر صوبہ بنانے کا مطالبہ ایک نیا پنڈورا باکس نہ کھول دے، جسے سنبھالنے، سہارنے کے ہم متحمل نہ ہوپائیں۔ اسی وجہ سے جنوبی پنجاب کے صوبہ بنانے کی تجویز سامنے آئی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ لسانیت اور قومیت کا فتنہ بھی نہ جاگے، اوورسائز پنجاب کی تقسیم سے گورننس کے ایشوز بھی حل ہوجائیں اور کسی حد تک سرائیکی وسیب کے لوگ ایک کلسٹر میں اکٹھے ہو کر اپنے مسائل، اپنی محرومیاں دور کر سکیں۔ اس میں بہاولپور، ملتان، ڈی جی خان کے تینوں ڈویژنز اور سرگودھا ڈویژن کے اضلاع بھکر، میانوالی شامل کئے جائیں گے، خوشاب کی نور پورتھل تحصیل اور جھنگ کا کچھ علاقہ بھی شامل ہوسکتا ہے۔ دراصل سرگودھا ڈویژن اور جھنگ ضلع کا جو علاقہ تھل میں شامل ہے، اسے تھل کے باقی شہروں، قصبات کے ساتھ ایک ہی صوبے میں ہونا چاہیے کہ ان کے مسائل اور ان کا حل مشترک ہی ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ ایک نسبتا بڑا، قابل عمل پراجیکٹ بن جاتا ہے، قومی اسمبلی کی پچاس، باون نشستیں اس میں آ جاتی ہیں۔ اس کا دارالحکومت ملتان بنانا زیادہ فطری اور منطقی ہے، اس سوال پرمگر بات ہوسکتی ہے، کوئی اور قابل عمل آپشن بھی ہوسکتی ہے۔ اس کی نسبت بہاولپور صوبہ بنانے کا نعرہ غیر عملی، غیر منطقی اور محض سطحی سیاسی مفادات کے پیش نظر لگایا گیا۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ نیا صوبہ مالی اعتبار سے چل بھی سکے گا یا نہیں؟ بہاولپور صوبہ اگر بنایا گیا تو یہ مرکز پر صرف بوجھ ہی ثابت ہوگا۔ صرف ایک ڈویژن کو آخر کیوں صوبہ بنایا جائے؟ کیا اس لئے کہ آج سے انچاس سال پہلے، جی درست پڑھا آپ نے، انچاس (49)سال پہلے بہاولپور صوبہ بنانے کی تحریک چلی تھی؟ اگر بہاولپور صوبہ بنانے کا مطالبہ درست ہے تو پھر سوات، قلات سمیت وہ تمام ریاستیں بھی الگ سے صوبے بن جائیں جو ون یونٹ سے پہلے کسی حد تک الگ شکل میں موجود تھیں۔ ہوا یہ تھا کہ ون یونٹ جب ختم ہوا تومغربی پاکستان کو چار صوبوں میں تقسیم کیا گیا اور ون یونٹ بننے سے پہلے موجود تمام ریاستوں کو ان میں مدغم کر دیا گیا۔ سابقہ ریاست بہاولپور پنجاب کا حصہ بنی۔ اس پربہاولپور میں صوبہ بحالی کی تحریک شروع ہوئی، الیکشن اس بنیاد پر لڑا گیا، جو جیتے وہ بعد میں بھٹو صاحب کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ یوں بہاولپور صوبہ کی تحریک آخری تجزیے میں ایک بلبلہ ثابت ہوئی۔ پچھلے پانچ عشروں میں وہاں سے کوئی ایسی تحریک نہیں اٹھی۔ محمد علی درانی صاحب کی جب سیاست ختم ہوگئی تو انہیں یاد آیا کہ ان کا تعلق احمد پورشرقیہ سے ہے، وہ وہاں آئے، اپنی کوٹھی بنوائی اور بہاولپور صوبہ کی نام نہاد تحریک کی بنیاد ڈالی۔ آج تک الحمدللہ وہ پانچ سو لوگ بھی جمع نہیں کر پائے اور سوائے چند شکست خوردہ ذہن رکھنے والے خود غرض سیاستدانوں کے سوا انہیں کوئی حمایتی نہیں ملا۔ بہاولپور میں سول سوسائٹی موجود ہے نہ ہی کوئی صحافتی مرکز۔ طارق بشیر چیمہ، نواب بہاولپور، مخدوم احمد محمود اور ان جیسے اکا دکا کسی دوسرے طالع آزما کوشائد یہ لگتا ہے کہ بہاولپور صوبہ بن گیا تو یہاں پر اپنا تسلط جمانا ممکن ہوگا۔ جنوبی پنجاب صوبہ بننے کی صورت میں انہیں ملتان کے تجربہ کار سیاستدانوں گیلانی، قریشی، ہاشمی، ڈی جی خان کے کھوسہ، لغاری، دریشک، مزاری وغیرہ سے مسابقت درپیش ہوگی۔ اپنی شکست خوردہ ذہنیت کے باعث وہ مقابلہ کرنے اور ان میں نمایاں ہونے کی جرات نہیں رکھتے۔ چند لفظوں میں بہاولپور صوبہ بنانے کی تحریک کی یہی حقیقت ہے۔ اس کے برعکس جنوبی پنجاب صوبہ ایک پورا تصور، خیال ہے، جسے متشکل کیا گیا تو بہت سے مسائل حل اور الجھنیں سلجھ جائیں گی۔