جہانِ فقیر
روحانیت کی دنیا کئی اعتبار سے بہت مختلف، منفرد اور آسانی سے سمجھ نہ آنے والی ہے۔ ہمارے ہاں روحانیت کو کرشمے، کرامات، کشف، وظیفوں کا نام دے دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگ روحانی طاقت اور کمالات حاصل کرنے کے لئے روحانیت یا تصوف کی طرف جاتے ہیں۔ تصوف مگر اس کا نام نہیں۔ تصوف کوئی الگ سے ڈگری، علم یا مشقوں کو نہیں کہتے۔ تصوف آسان ترین الفاظ میں تربیتی نظام ہے جس میں طالب علم (سالک)کو شریعت کی پابندی کرنے کے قابل بنایا جا تا ہے۔ جو تھوڑی بہت مشقیں یا معمولات اس میں ہیں، ان کا مقصد بھی تزکیہ نفس اور شرعی احکامات کو بہترین انداز میں کرنے کی اہلیت پیدا کرنا ہے۔ اس لحاظ سے تصوف یا طریقت مکمل طور پر شریعت کے پابند اور تابع ہے بلکہ اس سسٹم کو وضع ہی اس لئے کیا کہ لوگوں کو اچھا عملی مسلمان بننے کی تربیت (Capacity Building)کی جائے۔
عام آدمی کے لئے کنفیوژن یہ ہے کہ تصوف کے نام پر ہمارے ہاں بے شمار کاروبار چل رہے ہیں، ماضی کیے بہت سے نیک بزرگوں کی اولادیں گدی نشیں بن کر دنیاوی فوائد حاصل کرر ہی ہیں۔ ان میں سے کچھ سیاست میں آ کر طاقت حاصل کرنے کو اپنی معراج سمجھتے ہیں۔ تصوف کے حوالے سے دوسرا بڑا مغالطہ یہ ہے کہ عامل حضرات جو کوئی غیر معمولی صلاحیت پیدا کرنے کیلئے مختلف جتن اور چلے، عمل وغیرہ کرتے ہیں، وہ اپنی اس خرق عادت (Extraordinary) صلاحیت کے زور پر خود کو روحانی شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مقصد مالی اور دنیا وی فوائد حاصل کرنا ہوتا ہے۔
تصوف کے حوالے سے تیسرا مغالطہ یہ ہے کہ بعض صوفی کہلانے والے حضرات بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں۔ روحانیت میں دعوئوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روحانیت کی دنیا میں جو جانتا ہے وہ خود کو ازراہ انکسار کم علم اور مبتدی ظاہر کرے گا، جو نہیں جانتا وہ خود کو صاحب مرتبہ کہے گا۔ حقیقت دونوں کے درمیان میں ہے۔ چوتھا مغالطہ جو سب سے زیادہ خطرناک ہے، وہ زندگی کی ہر مشکل، مسئلے کو کسی وظیفے سے حل کرنا ہے۔ وظائف کا ٹرینڈ خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ ہر کام کے لئے ہم لوگ کوئی وظیفہ ڈھونڈتے ہیں۔ ٹی وی چینلز نے اسے مزید تباہ کن بنا دیا ہے، لوگ لائیو سوال کرتے اور چند سکینڈ میں بذریعہ استخارہ یا بزعم خود بذریعہ کشف اس کے جواب میں ایک وظیفہ تھما دیا جاتا ہے۔
یہ کئی اعتبار سے سراسر غلط ہے۔ ایک تو دعا کے لئے رب کریم کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونے کے بجائے تمام تر زور وظیفے پر ہوتا ہے۔ دوسرا بہت سے معاملات کے لئے دنیاوی کوشش لازمی ہے، مگر محنت اور جدوجہد کے بجائے تمام فوکس وظیفہ پر ہوجاتا ہے۔ تیسرایہ کہ رب تعالیٰ کا اپنا نظام اور اپنی مصلحتیں ہیں، کئی بار انسان جو چاہتا ہے وہ اس کے لئے مفید نہیں ہوتا، اس لئے نہیں عطا کیا جاتا۔ بعض اوقات رزق کو دانستہ نپا تلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ شخص صبر سے کام لے کر مزید درجات حاصل کرے، کبھی اسے بھوک، بیماری یا کسی اور طریقے سے آزمایا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے رب سے آسانی اور عافیت کی دعا کرنی چاہیے اور رب کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب لوگ اپنی کسی مشکل کے لئے وظیفہ پڑھتے ہیں اورکام نہیں ہوتا توان کا رب تعالیٰ کے کلام سے ہی ایمان اٹھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
روحانیت کے بارے میں جاننے کے لئے ضروری ہے کہ اہل علم کو پڑھا، سنا اور سمجھا جائے۔ بدقسمتی سے تصوف کی بعض بڑی بیش بہا کتب مشکل اور کسی قدر مبہم زبان میں لکھی گئی ہیں یا ان کے تراجم اچھے نہ ہونے سے ایسا ہوا۔ ہماری خوش قسمتی کہ ممتاز صوفی بزرگ اور روحانی سکالرجناب سرفراز اے شاہ صاحب نے چند سال پہلے روحانیت اور علم لدّنی کی مختلف اصطلاحات پر لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکچرز بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔
میری دیانت دارانہ رائے ہے کہ تصوف کی جدید تاریخ میں سرفراز شاہ صاحب کی ان کتابوں سے بہتر مواد میسر نہیں ملے گا۔ شاہ صاحب کی کتب نہایت سلیس، رواں، عام فہم انداز میں لکھی گئی ہیں، ڈکشن جدید ہے اور پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے بھی اسے سمجھنا بہت آسان ہے۔ شاہ صاحب کی اب تک آٹھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب "کہے فقیر"کے پچاس کے لگ بھگ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، یہ اردو کی سب سے زیادہ چھپنے والی کتابوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان کی سات دیگر کتابیں چھپ گئی ہیں، فقیر رنگ، فقیر نگری، لوح فقیر، ارژنگ فقیر، نوائے فقیر، عرض فقیر اور جہان فقیر۔
"جہانِ فقیر" قبلہ سرفراز شاہ صاحب کی تازہ ترین کتاب ہے، چند ہفتے قبل شائع ہوئی۔ پچھلے کچھ دنوں سے میں اپنے اور اہل خانہ کے طبی مسائل کی وجہ سے پریشان، الجھا رہا۔ کچھ وقت میسر آیا تو شاہ صاحب کی یہ کتاب پڑھی۔ تمام فکر، پریشانی اور ژولیدی فکری تحلیل ہوگئی۔ جناب سرفراز شاہ صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو رب تعالیٰ سے جوڑتے ہیں۔ شخصیت پرستی کے بجائے یہ سکھاتے ہیں کہ رب سے تعلق جوڑا جائے اور کسی غرض، فائدے کے بغیر ایسا کریں۔
شاہ صاحب پیر صاحبان سے ہر اعتبار سے مختلف ہیں۔ ان کا زور وظائف بتانے پر نہیں، وہ خلق خدا کی خدمت کرنے، دوسروں کے لئے ایثار کی تربیت دیتے ہیں۔ تسبیحات، نوافل وغیرہ کے قائل تو ہیں، مگر ان کا اصرار فرض عبادات کی ادائیگی پر ہے اور اس کے ساتھ وہ یہ کہتے ہیں کہ عبادت سے پارسائی آتی ہے مگر اصل نیکی دوسروں کے کام آنا ہے، ان کے لئے مالی اور بدنی ایثار کرنا۔ وہ دعائوں کے لئے پیروں، بزرگوں کے پاس جانے کی بھی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ رب تعالیٰ سے تعلق جوڑیں اور اسی کے آگے گڑگڑا کر مانگیں۔ بزرگوں کے پاس جائیں، مگرترجیح کسی وظیفہ کے حصول کے بجائے علم کا حصول ہو۔
کبھی کبھار وہ کسی کو کچھ پڑھنے کے لئے بتا بھی دیں تو اصرار کرتے ہیں کہ یہ آیات یا اسمائے ربانی پڑھ کر دعا نہ مانگیں کہ پھر عبادت کامعاوضہ لینے والا معاملہ ہوجائے گا۔ اللہ کے مختلف اسماء کا ورداپنے رب کو یاد کرنے کی نیت سے کریں، انہیں اپنے روح کی غذا بنائیں۔ رب کریم بہترین صلہ دینے والا ہے، مگر کبھی اپنی عبادات صلے کے لئے نہ کریں۔ جہان فقیر میں ایک جگہ شاہ صاحب نے لکھا:" اگر ہم روحانیت میں عبادت کے ساتھ غرض وابستہ کر لیں گے تو روحانیت حاصل نہ کر پائیں گے۔ لوگ اس کرید میں رہتے ہیں کہ فلاں کلام پڑھنے سے کیا روحانی اثرات ملیں گے، اسے پڑھنے سے ہم کس درجے پر چلے جائیں گے؟ یاد رکھیں کہ جب کسی نے بے غرض ہو کر رب کو پکارا تو اسے سب مل گیا۔ روحانیت کی منزل یہ تصرفات، کشف وکرامات اور کمالات نہیں۔"
سرفراز شاہ صاحب کی آٹھ کتابیں چھپ چکی ہیں، تمام کتابیں جہانگیر بکس، لاہور نے شائع کی ہیں۔ بطور قاری میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ان کی ہر نئی کتاب میں روحانی علوم کی نئی تہیں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ ابتدائی کتب میں بنیادی (Basic)معلومات زیادہ تھیں، مگر اب ہر کتاب میں زیادہ گہرائی کے ساتھ روحانی اسرار بیان ہو رہے ہیں۔ یہ کتاب جہان فقیر بھی ایک شاندار کتاب ہے۔ اس میں شاہ صاحب نے بہت کچھ کھل کر بیان فرمایا ہے۔ اللہ انہیں اجر دے، آج کے زمانے میں تصوف کو ان سے بہتر انداز میں بیان کرتے کسی کو نہیں دیکھا۔ جہانِ فقیر سے چند سطریں نذر قارئین ہیں:
"روحانیت کا سفر کسی طرح شروع ہو ہی نہیں سکتا جب تک انسان عبادات کے ساتھ ساتھ نیکی کی راہ نہ اپنا لے ْ مایوسی انسان پر اس وقت طاری ہوتی ہے جب وہ رب تعالیٰ کے وجود اور اس کے قادر مطلق ہونے کو تو مانتا ہوں لیکن اس پر بھروسہ نہ ہو۔ آپ ﷺ کی یاد میں محور ہیے، دل ودماغ کو قرب کا احساس ہوجائے گا۔ اگر توجہ درود پاک پڑھنے پر مرتکز نہ ہوتی ہو تو ہلکی سی اونچی آواز میں پڑھیں اور اپنی آواز کو خود سنیں کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں، یوں بے جا خیالات کی یلغار رک جائے گی۔ جب ہم راہ سلوک پر چلتے ہیں تو ہم ہر طریقے سے آزمائے جاتے ہیں، جب ہر طرح کے مشکل حالات میں ثابت قدم رہتے ہیں تو پھر انعامات کی بارش ہوتی ہے۔
ولی اللہ کسی کے لئے بددعا نہیں کرتا۔ اپنے مرشد صاحب سے وہ چیز حاصل کرنے کی کوشش کریں جس نے انہیں مرشد بنایا? وہ چیز ہے علم۔ تسبیحات یقینا باعث ثواب ہیں اور رب کا پکارا جانا چاہیے لیکن قرب الٰہی کے لئے زندگی کے ہر شعبہ پر اسلام کا اطلاق ضروری ہے۔ ہر شے سے بے نیاز ہو کر اللہ کی عبادت کیجئے۔ یہ مت سوچیں کہ عبادت سے کچھ ملے گا یا مزا آئے گا۔ اگر عبادت کر کے کچھ ڈھونڈنا ہے تو پھر ساری عمر کچھ نہیں ملے گا۔ جو شخص خلق خدا کے کام آتا ہے، رب تعالیٰ اس کے کام خود کرنے لگتا ہے۔ مرشدآپ کی بطور شاگرد صرف یہ تربیت نہیں کرتے کہ یہ وظیفہ پڑھ لوبلکہ وہ چاہیں گے کہ آپ کی زندگی کے اطوار دینی اصولوں کے مطابق ڈھل جائیں۔"