علمی ، ادبی سرگرمیوں سے پھوٹتی روشنی
فروری اور مارچ کا مہینہ مجھے ہمیشہ سے پسند ہے۔ لاہور میں فروری سرد مہینہ رہا ہے، جنوری کی شدید سردی اور دھند کے اثرات فروری تک چلتے تھے۔ جب لگتا کہ سردی کم ہوگئی ہے، لوگ اپنی جیکٹ وغیرہ الماریوں میں لٹکا دیتے، تب سردی کی ایک ایسی لہر آتے کہ وہ تمام گرم کپڑے پھر سے نکالنے پڑجاتے۔ پچھلے سال سے البتہ موسم بالکل تبدیل ہوگیا ہے۔ لاہور میں جو درجہ حرارت مارچ میں ہوتا تھا، وہ اب فروری میں اور اپریل والا گرم موسم مارچ میں آ گیا۔ پچھلے سال ایسا ہوا اور اس بار بھی۔
فروری اور مارچ کی میرے نزدیک بڑی اہمیت علمی، ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی رہی ہے۔ لاہور میں ہر سال یکم سے پانچ فروری تک ایکسپو سنٹر میں کتاب میلہ لگا کرتا ہے۔ کورونا میں دو سال ایکٹویٹیز معطل رہیں۔ اس سال کتاب میلہ یکم مارچ سے پانچ مارچ تک منعقد ہوا۔
اس سے قبل دس سے بارہ فروری تک لاہور میں ایک بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ معیار کا پاکستان کلچر فیسٹول ہوا۔ کراچی آرٹس کونسل کے روح رواں جناب احمد شاہ جو پندرہ سولہ برس سے کراچی میں بہت شاندار اردو کانفرنسیں کرا رہے ہیں، اس بار ان کی لاہور آمد ہوئی اور انہوں نے سوشل میڈیائی محاورے کے مطابق پہلی گیند پر چھکا لگا دیا۔ لاہور میں طویل عرصے بعد ایسے اچھی اور شاندار کانفرنس ہوئی۔ نہایت اہم علمی، ادبی اور کلچرل سیشن ہوئے۔ فیسٹول کا شیڈول دیکھ کر ہی آدمی حیران رہ جاتا کہ اتنی ورائٹی کے ساتھ پروگرام کس طرح کرائیں گے؟ یہ سب مگر نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ کرائے گئے۔ کتابوں پر گفتگو، ادیبوں، فنکاروں سے ملاقاتیں، فائن آرٹس پر سیشن، علاقائی زبانوں کے سیشن، اہم قومی ایشوز پر تفصیلی مذاکرے، مشاعرہ، موسیقی کے پروگرام وغیرہ۔
لاہور کے باسی کراچی کے احمد شاہ کے ممنون ہیں، جنہوں نے ایسی شاندار مہکتی علمی، ادبی، ثقافتی سرگرمی کی۔ لاہور کانفرنس میں معروف شاعر، کالم نگاربرادرم خالد مسعود ملے، انہوں نے اشارتاً بتایا کہ ہم ان سے ملتان میں بھی ایسی سرگرمیاں کرائیں گے۔ خالد مسعود خان بذات خود ملتان میں پچھلے پانچ چھ برسوں سے ریشم دلانِ ملتان کانفرنس کرا رہے ہیں جس میں نہ صرف عمدہ مقالے پڑھے جاتے ہیں بلکہ کانفرنس میں ان مقالوں پر مشتمل کتاب بھی موجود ہوتی ہے۔
پاکستان کلچر فیسٹول کے ایک سیشن میں جناب الطاف حسن قریشی کی مشرقی پاکستان پرلکھی کتاب پر بڑی عمدہ گفتگو ہوئی۔ جناب مجیب الرحمن شامی اور ڈاکٹر مجاہد منصوری کے ساتھ خاکسار کو بھی گفتگو میں حصہ لینے کا موقعہ ملا۔ اس تقریب کی نظامت کراچی آرٹس کونسل کے شکیل خان نے کی۔ شکیل خان جناب احمد شاہ کے قریبی ساتھی ہیں، مجھے تو ان کی نہایت شائستہ لہجے میں گفتگو اور تیکھے سوالات نے بہت متاثر کیا۔ اہل کراچی کو دیگر خوبیوں کے ساتھ یہ صفت ممتاز بناتی ہے کہ وہ بولتے بہت اچھا ہیں۔ اہل زباں بولیں تو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً جیسے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں۔ شکیل خان کو سننا اچھا لگا۔
شنید ہے کہ احمد شاہ لاہور کے بعد اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ وغیرہ بھی ایسی کانفرنسیں کرائیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ احمد شاہ کو وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز اور ذمہ داری دینی چاہیے کہ وہ پاکستان کے ان بڑے شہروں میں کانفرنس یا کلچر فیسٹول کرائیں۔ یہ ان کا قوم پر احسان ہوگا۔
کلچر فیسٹول کے بعد لاہور میں فیض امن میلہ ہوا۔ فیض میلہ کے ایک سیشن میں بھارتی شاعر جاوید اختر نے گفتگو کرتے ہوئے چند ایسی متنازع باتیں کہیں جس سے ہم پاکستانیوں کے دل دکھے، البتہ بھارتی شدت پسند ہندوئوں میں جاوید اختر کی مقبولیت بڑھ گئی۔ فیض میلہ کے منتظمین کو بھارت سے ایسے مہمان مدعوکرنے چاہئیں جنہیں آداب مہمانی سے واقفیت ہو۔
فروری کے آخری دنوں میں کنیئرڈکالج یونیورسٹی میں ایک اچھی تقریب ہوئی، ایسی تقریب جس کی پریس ریلیز میں پروقار لکھنا زیب دیتا ہے۔ کنیئرڈ یونیورسٹی کی پرنسپل محترمہ رخسانہ ڈیوڈ نے صدارت کی جبکہ چار پینلسٹ تھے جنہوں نے بلوچستان، سندھی، پشتون اور سرائیکیوں کے مسائل اور محرومیوں کے حوالے سے گفتگو کی۔ جنوبی پنجاب کے حوالے سے گفتگو کی ذمہ داری مجھے دی گئی۔ اچھا مکالمہ ہوا اور اس تقریب سے کئی چیزیں سیکھنے کو ملیں۔ پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کی ڈاکٹر اسما حامد اعوان تقریب کی روح رواں تھیں۔
ڈاکٹر اسما ہمارے استادوں جیسے بہت سینئر اور قابل احترام اخبارنویس، کالم نگار عبدالقادر حسن کی صاحبزادی ہیں۔ انہیں دیکھ کر عبدالقادر حسن صاحب یاد آتے رہے۔ کیا خوب آدمی تھے، دلیر، غیرت مند، واضح موقف رکھنے والے۔ جنرل مشرف کے عروج کا زمانہ تھا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر حاکم وقت کا عتاب نازل ہوچکا تھا۔ سینئر کالم نگاروں سے ایک ملاقات میں عبدالقادر حسن نے اس بارے میں سوال پوچھا تو جنرل مشرف نے نہایت نخوت کے ساتھ جواب دیا، وہ میرے ہیرو نہیں ہیں، عبدالقادر حسن نے پلٹ کر جرات سے کہا، آپ کے نہ سہی، مگر وہ میرے لئے آج بھی ہیرو ہیں۔ ڈکٹیٹر یہ برجستہ جواب سن کر شل رہ گیا، چہرہ غصے سے سیاہ ہوگیا، مگر جری اخبارنویس پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
اس سال لاہورکتاب میلہ کے پہلے دو دن قدرے پھیکے رہے، مگر آخری تین دنوں میں کسر پوری ہوگئی، خاص کر ہفتہ اور اتوار کو بڑی تعداد میں کتابیں فروخت ہوئیں۔ بعض لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ مہم چلائی کہ لاہوریوں نے کتاب میلہ میں دلچسپی نہیں لی اوریہ لوگ صرف کھابہ خور ہیں، جبکہ تربت بلوچستا ن میں اتنے لاکھوں کی کتابیں فروخت ہوگئیں۔ یہ بات درست نہیں۔ یہ ٹھیک کہ رش کچھ کم رہا، مگر اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ عین کتاب میلہ کے دنوں میں ایکسپو سنٹر کے سامنے والی سڑک ادھیڑ دی گئی۔ لوگوں کو آنے جانے کی بڑی دقت ہوئی اور بسا اوقات لمبی قطاروں میں گاڑیاں پھنسی رہیں۔ اس سے یہ ہوا کہ جو لوگ اور فیملیز روایتی طور پر آخری دو تین دن روزانہ آتے تھے، انہوں نے ایک ہی بار کتابیں خرید ڈالیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کتابیں پہلے کی طرح ہی فروخت ہوئیں۔ جتنی کتابیں تربت میں فروخت ہوئیں، اس سے زیادہ تو شائد ایک پبلشر کی بک گئی ہوں گی۔
بڑے پبلشرز کے سٹالز پر غیر معمولی رش رہا اور دھڑا دھڑ کتابیں فروخت ہوتی رہیں۔ اگر کتابیں بیچنے والا کیش سیلزمین اپنے خریداروں کے رش کی وجہ سے ایک منٹ کے لئے بھی نہیں بیٹھ رہا تو پھراس سے ہمدردی تو ہوسکتی ہے، مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتاب نہیں بک رہی۔ ایک پہلو یہ بھی تھا کہ جن پبلشرز نے کتاب میلہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی نئی کتابیں شائع کی تھیں اور فیس بک پر ان کی مناسب تشہیر کی، انہیں زیادہ فائدہ ہوا۔ بک کارنر جہلم نے اس بارکتاب میلہ کے لئے تین چار نئی کتابیں شائع کی تھیں۔ اتفاق سے ان میں میری نئی کتاب "وازوان "بھی شامل تھی، دیگر کتب میں معروف مترجم اورمصنف یاسر جواد کی آپ بیتی کتاب کہانی اور ممتاز فکشن نگار، شاعر علی اکبر ناطق کی خودنوشت" آباد ہوئے، برباد ہوئے "شامل تھیں۔ تینوں کتابوں کا بہت اچھا ریسپانس ملا اور بک کارنر کے گگن شاہد کے مطابق سیل میں یہ ٹاپ تھری رہیں، جبکہ ناطق کے دونوں ناول" نولکھی کوٹھی" اور "کماری والا "کتاب میلہ کے تیسرے دن ختم ہوگئے۔
سنگ میل اور دیگر اہم پبلشرز کے سٹالز پر بھی بہت رش رہا۔ ہمارے دوست اور معروف مصنف عرفان جاوید کے خاکوں کی نئی کتاب "آدمی"کو خوب پزیرائی ملی۔ سنگ میل پر عرفان جاوید کی کتابوں کا الگ سے گوشہ تھا، جہاں ان کی مشہور کتابیں" کافی ہائوس"، "دروازے" اور ایوارڈ یافتہ کتاب" عجائب خانہ" بھی رکھی تھی۔ بچوں کی کہانیوں کے سٹال پر بھی بہت رش رہا۔ المصحف والوں نے مصنف، مدیرفیصل شہزاد (کراچی)کے" بچوں کے اسلام" کے لئے لکھے اداریوں کی کتاب" دل پہ دستک" شائع کی تھی، معلوم ہوا کہ اس کا بیشتر حصہ نکل گیا۔ بچوں کی کہانیوں کے سٹالز پر غیرمعمولی رش دیکھ کر خوشی ہوئی۔ میری ہمیشہ سے پختہ رائے ہے کہ انسان کے اپنے اندر، اس کے آس پاس اور سماج میں تبدیلی صرف کتاب ہی سے آ سکتی ہے۔
اس بار ایک دلچسپ کام یہ ہوا کہ اپنی نئی کتاب کے حوالے سے فیس بک پوسٹ لکھی، جس میں ترغیب دی کہ مصنف سے اس کی کتاب مفت نہیں خریدنی چاہیے اور اس سے مٹھائی کھلانے کا مطالبہ کرنے پرلے درجے کی کورذوقی ہے۔ مطالبہ کرنے کے بجائے الٹا اس کی تواضع کرنی چاہیے۔ اس کی کتابیں خریدیں، بانٹیں کہ اہل قلم کی سیوا دراصل سماج کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہلکے پھلکے انداز میں پوسٹ لکھ ڈالی، اس کے گوناگوں فوائد اور ثمرات برآمد ہوئے۔ میری اہلیہ محترمہ نے پہلے روز خصوصی طور پر سٹال پر جا کر کتاب خریدی اور پھر مجھ سے دستخط کرائے۔ بڑے بھائی اور بھابھی صاحبہ کو کتاب تحفہ کے طور پر دینے کا ارادہ تھا، مگر انہوں نے اصرار کر کے کتاب خریدی۔
آخری روز بڑا بیٹا آیا اور اس نے بھی مجھے بغیر بتائے سٹال سے کتاب خریدی اور پھر آ کر کچھ لکھ دینے کی درخواست کی۔ میں حیران ہو کر اسے دیکھتا رہا۔ ایک دو دوستوں نے تو یہ بھی کہا کہ ہم نہ صرف اپنی کتاب خریدیں گے بلکہ ہم کتاب دوسروں تک پہنچانے کا سبب بھی بنیں گے۔ کتاب میلوں کا اہتمام بذات خود بہت مثبت روایت ہے، مگرپڑھنے والے اگر کتاب خرید کر پڑھنے اور پھیلانے کا عزم کریں تو یہ مزید خوشگوار اور دل خوش کن ہے۔