غیر مشروط مذمت، غیر مشروط حمایت
بات سادہ ہے کہ مذمت غیر مشروط ہونی چاہیے۔ لفظ چبائے بغیر۔ اگر، مگر، چونکہ، چناچہ کے بغیر ظلم اور قتل وغارت کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے۔ جہاں ظلم ہو، کسی کمیونٹی کو نشانہ بنایا جائے، دہشت گرد ان پر حملے کریں۔ ایسے مظلوموں کی غیر مشروط حمایت اور اس ظلم کی، قاتلوں اور دہشت گردوں کی غیر مشروط مذمت کرنا چاہیے۔ یہ وہ کم سے کم ردعمل ہے جو بطور ایک انسان، ایک مسلمان اورپاکستانی شہری کے طور پر ہم دے سکتے ہیں۔ کچھ کام حکومتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کرنے کے ہیں۔ عام آدمی دہشت گردوں پر قابو نہیں پا سکتا، مسلح تنظیموں سے وہ نہیں لڑ سکتا۔ ظلم اور دہشت کے خلاف وہ کھڑا تو ہوسکتا ہے، اپنی آواز بلند کر سکتا ہے۔ ستم رسیدہ لوگوں کا دکھ تو بانٹا جا سکتا ہے، ان کے آنسو پونچھنے اور حوصلہ دینے کے لئے کیا امر مانع ہوتا ہے؟ کوئی نہیں۔ آپ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، سیاستدان ہوں یا اخبارنویس، بااثر شخص ہوں یا ایک عام آدمی…اخلاقی حمایت کرنے، احتجاج میں شامل ہونے اور قاتلوں کی غیر مشروط مذمت کرنے کے لئے کسی قسم کی رکاوٹ موجود نہیں۔ صرف اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ کوئٹہ کی ہزارہ آبادی کے دکھ میں شامل ہونے، ان کے قاتلوں کی مذمت کرنے کے لئے بھی اسی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کوئٹہ کے ہزارہ اس حوالے سے بدقسمت واقع ہوئے ہیں۔ انہیں جس قدر ظلم اور زیادتی کا سامنا کرنا پڑا، ویسی حمایت نہیں مل پائی۔ حکومت سے، اہل صحافت اور نہ اہل سیاست سے۔ سیاسی حکومتوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، جہاں ان کے سیاسی مفادات موجود ہوں، وہاں پتہ بھی ہل جانے پر وہ چونک اٹھتے ہیں۔ کوئٹہ کی بدقسمتی کہ وہاں قومی اسمبلی کی ایک آدھ نشست ہے، جس سے پارلیمنٹ میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ نشست بھی بسا اوقات مقامی لوگ جیت لیتے ہیں اور بڑی جماعتوں کی قوت میں اضافہ نہیں ہوتا۔ میڈیا صرف دوتین بڑے شہروں کو اہمیت دیتا ہے، جہاں ریٹنگ کے میٹرز لگے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں اشتہارات ملتے ہیں۔ قدرے فاصلے والے شہر وں کی اہمیت میڈیا کے نزدیک کچھ نہیں۔ اینکر حضرات بھی بھاگ بھاگ کر لاہور، کراچی، اسلام آباد پروگرام کرتے ہیں، پشاوریا کوئٹہ جانے کی ان میں سے بیشتر زحمت نہیں فرماتے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنے پر انہیں فرق ہی نہیں پڑتا۔ کسی نے سال بھر کوئٹہ، پشاور پر پروگرام نہ کیا ہو، اسکی ریٹنگ کم نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی اہمیت گھٹتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا بھی یہی معاملہ ہے کہ وہ اپنی پاورپاکٹس کا خیال رکھتی ہیں۔ جہاں سے ملنے والی نشستیں ان کی حکومت بچا سکیں، اس پر وہ نظر رکھتی ہیں۔ کوئٹہ بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں کرسکتا۔ پرنٹ میڈیا کے اخبارنویسوں کا معاملہ بھی ان سب سے ملتا جلتا ہے۔ کوئٹہ لاہور، پنڈی جیسے صحافتی مراکز سے بہت دور ہے، صحافیوں کا آنا جانا نہیں۔ جہاز کے سفر کے بغیر کم وقت میں پہنچنا ممکن نہیں، یہ حقیقت ہے کہ اچھے بھلے اخبارنویسوں کے لئے اپنی جیب سے ٹکٹ خرچ کر اپنے خرچ پر کوئٹہ آنا جانا آسان نہیں۔ لاہور سے اسلام آباد ایک ہی دن میں جا کر واپسی ہوسکتی ہے، پشاور بھی ایک ڈیڑھ گھنٹہ مزید لگا کر جایا جا سکتا ہے۔ پنجاب کے اخبارنویسوں کے لئے کراچی یا کوئٹہ جاناآسان نہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے ریجنل میڈیا کےانٹرایکشن کا ساماں پیدا ہی نہیں کیا۔ ہونا یہ چاہیے کہ کوئٹہ کے صحافی حضرات لاہور، اسلام آباد کے مراکز کا دورہ کرتے رہیں اور یہاں کے اخبارنویس کوئٹہ جا کر حالات اپنی آنکھ سے دیکھیں اور مقامی آبادی کے مسائل سمجھ کر آواز اٹھائیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں اس انٹرایکشن کی اہمیت کو کوئی جاننے، سمجھنے والا نہیں، صحافتی تنظیمیں اس حوالے سے فعال ہیں نہ مقامی پریس کلب وغیرہ۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بلوچستان کے مسائل پر عمومی طور پر اور کوئٹہ، ہزارہ آبادی کے دکھوں پر خاص طور سے زیادہ کچھ نہیں لکھا جاتا۔ چاہنے کے باوجود بعض اوقات مکمل تفصیل معلوم نہ ہونے، ایشوز کی گہرائی سے عدم تفہیم کے باعث نہیں لکھ سکتے۔ ذاتی طور پر میں اپنے آپ کو قصوروار سمجھتا ہوں۔ زمینی مسائل اپنی جگہ، مگر اخبارنویسوں کو کسی نہ کسی طرح حل نکالنا چاہیے۔ اس حوالے سے ہم سب کوتاہی کا شکار رہے ہیں۔ میں کم از کم اپنی حد تک تو اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ ہزارہ کلنگ پر اس طرح نہیں لکھ سکا، جیسا کہ حق تھا۔ دو چار بار کالم لکھے، مگر اسے ایشو بنا کر، کمپین بنانے کے انداز میں نہیں لکھا گیا۔ چند سال پہلے مجھے یاد ہے کہ اسلام آباد میں ہزارہ کا دھرنا جاری تھا، میڈیا پر اس کی خاطرخواہ کوریج نہیں تھی۔ تنگ آ کر کسی نے اخبارنویسوں کے موبائل نمبرز کی ایک لسٹ بنا کر بے شمار لوگوں کو ٹیکسٹ میسج کر دیا، ساتھ لکھ دیا کہ اسے پھیلایا جائے اور ان تمام کوفون اور میسج کر کے احتجاج کریں۔ خاکسار کا نمبر بھی اس فہرست میں آگیا۔ مجھے یاد ہے کہ اگلے دو تین بڑے کربناک گزرے، ہر منٹ کے بعد فون بج اٹھتا، مشتعل مظاہرین فون کرتے کہ ہمارے دھرنے کو کور کیوں نہیں کر رہے؟ اتفاق سے ایک دود ن پہلے اس پر کالم لکھ چکا تھا۔ چند ایک کو وضاحت کی، مگر کوئی سننے کو تیار نہیں تھا۔ آخر مجبور ہو کر فون بند کر نا پڑا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بہت سوں کے ساتھ یہی ہوا۔ یہ آٹھ نو سال پہلے کی بات ہے، یعنی ہزارہ آبادی کو اپنے دکھ سنانے کے لئے ہمیشہ سے احتجاج کرنے کی ضرورت پیش آتی رہی۔ حکومتوں، سیاسی جماعتوں، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا کے اخبارنویسوں نے ہزارہ کلنگ کے ساتھ انصاف نہیں کیا، ان کی بات نہیں سنی گئی، پوری قوت کے ساتھ ان کی آواز میں آواز نہیں ملا ئی جا سکی۔ ان سب کے ساتھ ساتھ مجھے مذہبی جماعتوں اور رائیٹ ونگ کے لوگوں سے بھی شکوہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے مذہبی لوگوں کی بڑی تعداد نے نہ صرف ہزارہ کلنگ کی غیر مشروط مذمت نہیں کی۔ ان میں سے کچھ سخت دل ان کے افسوس، دکھ میں شریک نہیں ہوئے اور اگر، مگر، چونکہ چناچہ کے ساتھ ایسی تاویلیں دیتے رہے، جن سے قاتلوں کو تقویت مل سکے۔ مثال کے طور پر حالیہ بم بلاسٹ کو دیکھ لیجئے، جب مذمت کرنے والے یہ کہیں کہ اس حادثے میں بیس میں سے صرف آٹھ ہزارہ تھے جبکہ بارہ دوسرے مسلک سے تھے تو ہزارہ کی اموات پر افسوس سے پہلے دوسرے مسلک کی بات بھی کی جائے تو یہ کیسا بھیانک مذاق لگتا ہے۔ ہزارہ بطور کمیونٹی ہدف بن رہی ہے، کوئی اور مسلک، جماعت یا تنظیم بطور کمیونٹی نشانہ نہیں بن رہی۔ کسی عوامی مقام پر بم دھماکہ ہو تو ظاہر ہے مرنے والوں میں ہر کوئی شامل ہوگا، لیکن اگر اس قسم کے تمام حملے صرف ہزارہ علاقوں میں ہوں تو یہ ایک نہایت خطرناک ٹرینڈ کی نشاندہی کرتا ہے۔ رائیٹ ونگ کی جماعتوں کو بھی زیادہ زوردار طریقے سے یہ بات کرنی چاہیے۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ ہزارہ احتجاج میں شامل ہوئے، قائدین کی طرف سے بیانات بھی آئے، مناسب رویہ ہے مگر جماعت کو یہ ایشو زیادہ آگے ہو کر پوری قوت کے ساتھ اٹھانا چاہیے۔ برما کے روہنگیا، غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا مقدمہ لڑنے کے ساتھ ساتھ اپنے کوئٹہ کے ہزارہ کمیونٹی کا مقدمہ بھی انہیں لڑنا چاہیے۔ دیگر جماعتوں کو بھی اس پر آواز زیادہ بلند کرنی چاہیے۔ ریاست کو ہزارہ کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑا ہے، ہزارہ پر حملے کرنے والوں میں سے بھی بعض ہائی ویلیو ٹیررسٹ مارے گئے، مگر ابھی تک ان کا نیٹ ورک موجود ہے۔ عوام کی جان ومال کا تحفظ حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہزارہ کے معاملے میں ریاست اور اداروں سے غفلت ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو حالیہ سانحے کے بعد خود کوئٹہ جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے اپنے نائب وزیرداخلہ کو بھیجا، لیکن خان صاحب کا فرض تھا کہ خود جاتے، متاثرین کے آنسو پونچھتے اور درد بانٹتے۔ اس میں ویسے دیر نہیں ہوئی۔ سرائیکی کی کہاوت ہے کہ فاتحہ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ عمران خان کو کوئٹہ جانا چاہیے، ان کی حکومت کو زیادہ ذمہ داری اور سنجیدگی سے ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے، ہمیں غیر مشروط طور پر ان کی سپورٹ اور قاتلوں کی غیر مشروط مذمت کرنی چاہیے۔